”آج میں تمہاری طبیعت صاف کردوں گا۔“
”اس کی ضرورت نہیں میری طبیعت صاف ہے۔ آپ اپنا گھر پہلے صاف کرلیں تو بہتر ہوگا۔“
”گھر کیا خاک صاف کروں،گٹر کے ڈھکن جب سے کھلے ہیں غلاظت پورے شہر میں پھیل گئی ہے۔“
”صفائی کے لیے ڈھکن تو اٹھانا ہی پڑتے ہیں۔بغیر ڈھکن اٹھائے تو صفائی نہیں ہوسکتی۔“
”ڈھکن اٹھایا ہے تو اب اسے بند کون کرے گا؟ جس نے اٹھایا تھا وہ تو اپنے گھر چلے گئے۔“
”گندگی بھی تو دیکھو برسوں کی تھی۔ اب سو دن میں تو صفائی ہونے سے رہی۔“
”کیوں نہیں ہوسکتی سو دن میں صفائی، ’اپنا میئر‘ کررہا ہے ناں ……سو دن میں صفائی۔“
”وہ تو ابھی سو دن میں اپنی صفائی کرکے آیا ہے۔“
”کیا مطلب؟“
”سو دن تک تو اس نے عدالتوں میں ابھی اپنی صفائی پیش کی ہے کہ وہ صاف ہے۔اس کے ہاتھ صاف ہیں۔“
”سمجھ میں نہیں آتی ایسا کون سا صابن ہے جس سے یہ لوگ نہاتے ہیں اور صاف ہوجاتے ہیں۔ ہم تو روز نہاتے ہیں لیکن اس کے باوجود سڑک پر کھڑا ایک ٹریفک پولیس والا بھی ہمیں پکڑ لیتا ہے اور پھر ہم اپنی صفائی بھی پیش نہیں کرپاتے۔“
”تمہارا صابن سلو (Slow)ہے ناں …… رگڑتے جاؤ،رگڑتے جاؤ لیکن صابن ختم ہوجائے لیکن ہاتھ صاف نہ ہوں۔“
”اپنا میئر آگیا ہے اب سب کوصاف کردے گا۔“
”ان سے صفائی ٹھیک سے نہیں ہوتی۔یاد نہیں انھوں نے پہلے بھی کہا تھا کہ کچرے کو آخری آرام گاہ تک پہنچائیں گے۔ لیکن اس کے بعد یہ خود آرام کرنے چلے گئے۔“
”مجھے تو یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ کبھی ’ہفتہ صفائی‘ ہوتی ہے تو کبھی ’سو دن کی صفائی‘۔ہم نے انھیں پانچ سال کے لیے منتخب کیا ہے نہ کہ ایک ہفتہ یا سو دن کے لیے۔“
”کیا کریں،ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔انھیں ہاتھ پاؤں باندھ کر سمندر میں پھینک دیا گیا ہے۔“
”اختیارات تو انھیں کبھی بھی نہیں ملنے والے کیونکہ جب ان کے پاس اختیار ات تھے توتب انھوں نے کون سا ’کمال‘ کیا تھا۔“
”اختیارات تو بس اس شہر میں رینجرز والوں کے پاس ہیں جو آئے روز اپنے اختیارات میں تجاوزات کرتے چلے جارہے ہیں۔“
”کام بھی تو انھوں نے وہ کر دکھایا جو کسی سے نہیں ہوا۔“
”شہر سے جس طرح دہشت گردی کا انھوں نے صفایا کیا ہے میں تو کہتا ہوں کچرے کی صفائی کا ٹھیکہ بھی انھیں ہی دے دیا جائے۔“
”پھر تو ان کے ہاتھ میں بندوق کی جگہ جھاڑو دینا پڑے گی۔“
”اور جب انھوں نے جھاڑو پھیری تو دیکھنا کچرے کے ساتھ ساتھ کچرا پھینکنے والوں کی بھی صفائی ہوجائے گی۔“
”یہ بہت ضروری ہے کیونکہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔“
”پتا نہیں کون شیر ہے اور کون گیڈر …… لیکن مجھے توبس اس شہر میں کسی انسان کی تلاش ہے جو اس شہر کو صفائی کا کوئی نظام دے۔ جو ہفتہ یا سو دن نہ چلے بلکہ ہر روز چلے۔“
”تم نظام الدین کو تلاش کرو میں تو چلا صفائی کی شکایت درج کرانے۔ کیونکہ اگر ان سو دنوں میں صفائی نہ ہوئی تو پھر پتہ نہیں کب یہ ’صفائی مہم‘ چلے ……“
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔