امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے محترم وزیر اعظم نواز شریف کے مابین متنازعہ فون کال بجا طور پر دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بنی۔اور پھر اسی کال کو حکومتی جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے حکومت کی اہم ترین کامیابی بھی بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ حال ہی میں یہ بات سننے میں آئی ہے کہ وہ کال وزیر اعظم صاحب کی ذات کے لئے، امریکہ میں کی جانے والی لابنگ کا حصہ تھی اور طارق فاطمی صاحب کا امریکہ کا حالیہ دورہ وزیر اعظم صاحب کی ذات کے لئے کی جانے والی لابنگ کا تسلسل گردانا جا رہا ہے۔ اور اس کے لئے ایک معروف پروفیشنل لابنگ فرم کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ غریب عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے ہو رہاہے۔ مگر اس کا بظاہر عوام کو کوئی بھی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔
اسی طرح اپنے ذاتی مفادات کے لئے معصوم پرندے تلور کی بے دریغ قربانی بھی جاری و ساری ہے۔ اور پاناما پیپرز کے شکنجے سے بچنے کے لئے محض ایک خط کے عوض قطری شہزادوں کو حکومتی خزانے پر اس نایاب ترین پرندے کا شکار کروایا جا رہا ہے۔ جس سے اس پرندے کے ناپید ہونے کے قوی خدشات موجود ہیں۔ آجکل سوشل میڈیا پر حکومت کے ان رفقاء خاص کی تصاویر، کثیر تعداد میں شکار کئے گئے پرندوں کے ہمراہ آتی رہتی ہیں۔ جس سے اس بات کا انداذہ لگانا قطعاًً محال نہیں کہ دونوں پارٹیوں کے مابین معاملات کن شرائط پر طے پائے ہوں گے اور تلور کے شکار پر سے پابندی ہٹانے کے پیچھے کیا عوامل حائل رہے ہوں گے ۔ اگر انہی ساری باتوں کے تسلسل میں، عام عوام کے زیر استعمال لائے جانے والے فنی خرابی والے اے ٹی آر طیاروں کو بھی دیکھا جائے تو بات بالکل کھل کرعیاں ہو جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں بد قسمتی سے دوہرے معیار رائج ہیں۔ ایک طرف ہمارے قابل احترام حکمران خاندان کی فقط بادشاہی کے دوام کے لئے، معدومیت کے خطرے سے دوچار پرندے تلور کے شکار پر سے پابندی ہٹا دی جاتی ہے اور بیچارے اس پرندے کو اپنی نام نہاد جمہوریت کے عظیم تر مفاد میں، بلی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ تو دوسری طرف نو منتخب امریکی صدر سے ذاتی سطح پر مراسم استوار کرنے کے لئے لابنگ کے چکروں میں ملک و قوم کے کروڑوں روپے برباد کر دیے جاتے ہیں۔ مگر غریب عوام کے لئے ان کے پاس سوائے اللہ تعالٰی پر توکل کرنے کے کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اورانھیں ایک خراب انجن والے طیارے میں محض اسلئے بیٹھا دیا جاتا ہے کہ چیئرمین پی آئی اے صاحب پرامید ہوتے ہیں کہ حادثے کا شکار ہونے والا یہ اے ٹی آر طیارہ بقیہ ایک انجن پر کامیابی سے لینڈنگ کر لے گا۔
مگر شاید یہ بات چیئرمین صاحب کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں ہو گی کہ یہ طیارے برفانی اور پہاڑی علاقوں کی پرواز کے لئے موزوں نہیں ہیں۔ کیونکہ ان اے ٹی آر طیاروں کے پر (ونگز) ایسے پہاڑی علاقوں کا ہوائی دباؤ برداشت کرنے کے ہرگز لائق نہیں۔ اور آج تک دنیا میں ان اے ٹی آر طیاروں کے جتنے بھی حادثات رونما ہوئے ہیں اُن میں سے زیادہ تر پہاڑوں سے ٹکرانے کے باعث تباہ ہوئے۔ جیسا کے پاکستان میں حویلیاں کے مقام پر تباہ ہونے والے اس طیارے کے کیس میں ہوا۔
مگراب سوال اس حادثے کا شکار بے گناہ لوگوں کے ساتھ ساتھ ، اس کرپشن کا بھی ہے جو اس ہوائی حاد ثے کا باعث بنی۔ اب دیکھنا یہ ہے اس گھناؤنے جرم میں ملوث تمام افراد بشمول چیئر مین پی آئی اے سے باز پرس کی جائے گی ؟ یا پھر ملبہ ہمیشہ کی طرح شہید ہونے والے پائلٹ پر ڈال کر اس سانحےپر بھی مٹی ڈال دی جائے گی؟ اورکیا سپریم کورٹ اس معاملے میں سامنے آنے والی واضح حکومتی کوتاہی اور غریب عوام کی دولت کو اپنے ذاتی مفادات کی ترویج کے لئے استعمال کرنے پر کوئی از خود نوٹس لے گی یا نہیں؟ یا پھر پاکستانی عوام اسی طرح حکمرانوں کی تشکیل کردہ چکی میں پستے رہیں گے؟ اور انکے کے متنوع اقسام کے کھانے اور بلیاں اسی طرح کبھی سپیشل ہیلی کاپٹروں پر تو کبھی خصوصی جہازوں پر جاتی رہیں گی۔ یہ ساری باتیں غور طلب ضرور ہیں، مگر آخر کار فیصلہ اگلے انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے پاکستان کی عوام کو ہی کرنا ہے۔