کل ’نیا پاکستان‘ اور ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے نعروں کی بجائے ایک گاڑی پر ’خود پاکستان ‘ کا پیغام درج تھا اور اس دو حرفی پیغام نے ہی مجھ پر آگہی کا ایک نیا در کھول دیا ۔اس لئے کہ یقیناًہم خود چلتے پھرتے پاکستان ہیں ۔
ملک کانام ہماری شناخت ضرور ہے لیکن ہم بھی اس کی پہچان ہیں اور اس پہچان کو اپنی شستہ زبان ، اچھے اخلاق ،اور بہترین طرز عمل سے ایک نمونے کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔
کسی بھی صورت میں حکومت، ملک یا کسی بھی شخص کو برا بھلا کہہ کر ہم وقتی طور پر اپنی جان تو ضرور چھڑوا لیتے ہیں لیکن ملک کی ترقی میں اپناحصہ نہ ڈال کر اپنے ضمیر کی عدالت میں کبھی سرخرو نہیں ہو سکتے ۔
گذشتہ دنوں ایک محفل میں بیرون ملک مقیم چند احباب سے ملنے کا اتفاق ہوا تو یہ بات ذہن میں آئی کہ ان کا ہم سے یہ گلہ بجا ہے کہ صرف سمندر پار پاکستانیوں کا ہی فرض نہیں کہ وہ ہر صورت پاکستان کا امیج برقرار رکھیں۔یہ تو سب کا فریضہ ہے کہ اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔سمندر پار پاکستانیوں کی تعداد د بی بی سی کے ایک جائزے کے مطابق 45لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد 29لاکھ سے زائد ہے ۔
کیا یہ ان ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ ختم کر دیں اور انھیں بدلے میں کچھ بھی نہ ملے؟ ایسے سمندر پار پاکستانی جو صرف نو ماہ میں 13.3ارب ڈالر پاکستان بھجواتے ہیں جس سے ہمارے ملک کے ترسیلات زر میں 15فیصد اضافہ ہوتا ہے ( بحوالہ روزنامہ پاکستان ، مجیب الرحمان شامی 14 اپریل 2015 ) کیا ان کے لئے جامع اور مربوط پالیسی نہیں بنائی جا سکتی ؟۔
ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق ہر پچیسواں پاکستانی روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہے۔ برطانیہ میں 4لاکھ ساٹھ ہزار ، متحدہ عرب مارات میں بارہ لاکھ ، امریکا میں سات لاکھ ، کینیڈا میں ایک لاکھ 50ہزار ، کویت میں ڈیڑھ لاکھ، جرمنی میں 49ہزار ، سپین میں 47ہزار ، قطر میں 90ہزار، ملایشیا میں 56 ہزار پاکستانی کام کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں سعودی عرب وہ واحد ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جہاں سب سے زیادہ پاکستانی موجود ہیں اور ان کی تعداد 25 لاکھ ہے ۔ان سب اعداد و شمار کا مقصد یہ ہے کہ کم ازکم ایسے تارکین وطن کے لئے سوچا جائے جنہوں نے اپنے رات دن اس ملک کی خدمت اس کے لئے پیسہ بھجوانے میں لگائے ، لیکن ان کے کیا مسائل ہیں اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا ۔
بیرون ممالک سے جب بھی کالز یہاں پاکستان میں کی جاتی ہیں وہ بہت مہنگی ہوتی ہیں اور ان پر ٹیکس بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے یہ بہن بھائی جو بیرون ملک کام کرتے ہیں ان کی کوئی بچت نہیں ہو پاتی ۔ہمارے یہ پردیسی پاکستانی جو ملک کے ساتھ ہم سے زیادہ مخلص ہیں ان میں سے اکثریت کے پاس مینوئل پاسپورٹ ہیں ، کمپوٹرائزڈ پاسپورٹ کے سلسلے میں انھیں بہت تگ و دو کرنا پڑتی ہے ۔
سابق صدر زرداری کے دور حکومت میں بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو حق رائے دہی دینے کے لئے ایک ترمیمی آرڈیننس پر دستخط ہوئے ، جس میں اہم شق یہ تھی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ضرورت کے مطابق انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے سے 14دن پہلے بیرون ملک کے پاکستان کے سفارت خانوں ، قونصل خانوں یا مشن میں پولنگ بوتھ قائم کر سکتا ہے ۔
ان تمام تر باتوں کی باوجود سمندر پار مقیم پاکستانیوں کو بہت سے مسائل کا سامناہے نہ صرف وہاں جانے کے لئے ایجنٹوں کے ہاتھوں خواری ، سپانسر شپ سکیم کا موثر نہ ہونا ، ملکی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ویزوں کے حصول میں تاخیر ، غیرملکی زبان اور قوانین سے ناواقفیت اور سب سے بڑھ کر اپنے گھر والوں کی ہر خواہش پوری کرنے کے لئے دن رات کی محنت۔ اپنے گھر والوں کی ہر بے جا خواہش کو پورا کرنے کے لئے غیرممالک میں رہائش پذیر پاکستانی ہر جائز و ناجائز راستہ اپنا لیتے ہیں ۔
نہ صرف وہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جاتے ہیں بلکہ وہاں بھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں جو نہ صرف ان کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں بلکہ ملک کے وقار کو بھی مجروح کر دیتی ہیں ۔
مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ جب بیرون ملک ٹیلی فون کالز پربجائے اپنے رشتے دار کی خیریت دریافت کرنے کے نت نئے کھلونے ‘ پیسے‘ ملبوسات‘ کاسمیٹکس‘ موبائل فونز اور اس طرح کی دیگر اشیا کی بے جا فرمائشیں کی جاتی ہیں۔
بہت دکھ کا لمحہ تب بھی ہوتا ہے جب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ان کی غلطیوں کی بنا پر ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے اور یہاں پاکستان آکر انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے بیرون ملک کیا کیا ؟ ۔
میری استدعا ان سمندر پار پاکستانیوں کے رشتے داروں سے بھی ہے کہ باہر جانے والوں کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں کہ وہ پل بھر میں آپ کی خواہشات پوری کر سکیں ۔انھیں بھی آپ کے احساس ، تعاون ، محبت اور توجہ کی ضرورت ہے ۔