منٹو کی مختصر کہانیوں کی ایک کتاب گذشتہ دنوں میرے زیر مطالعہ رہی ان میں سے ایک ’’ نیا قانون ‘‘ نامی کہانی ہمارے بی اے کے انگریزی کے نصاب میں شامل تھی ۔ المختصر اس کہانی میں ایک کردار ’’ منگو کوچوان ‘‘ صرف اس لیے یکم اپریل کا انتظار کرتا ہے کہ یکم اپریل کو یہاں نیا قانون نافذ کیا جائے گا ، ہر طرف انقلاب کا دور دورہ ہو گا اور انگریز راج سے نجات مل جائے گی ۔ لیکن منگو کو کافی مایوسی کا سامنا تب ہوا جب اسے یہ معلوم ہوا کہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہونے والا اور وہی فرسودہ نظام موجود ہے ، یہاں رکئیے ،ہم بھی تو منٹو کی اس کہانی کے منگو کوچوان کی طرح ہیں جنہیں ہر آنے والی نئی حکومت ، سیاسی راہنما اور جماعتیں ترقی کے سہانے سپنے دکھا کر غائب ہو جاتی ہیں ، ہم بھی اس یکم اپریل کے انتظار میں رہتے ہیں ۔
کبھی ہمارے اداروں کو قومیا لیا جاتا ہے تو کبھی ہماری مرضی کے بغیر ان کی نجکاری کر دی جاتی ہے ، کبھی نظریہ ضرورت کے تحت آئین کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں تو کبھی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف سرکشی کی جاتی ہے ۔ کبھی نصاب میں سنگین غلطیاں ہوتی ہیں تو کبھی مار نہیں پیار کا نعرہ بلند ہونے لگتا ہے ۔
دنیا بھر میں معتبر ساکھ رکھنے والے ممالک میں کینیڈا سرفہرست ہے ، گذشتہ سالReputation institutionنامی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں کسی بھی ملک کی ترقی کو وہاں کے عوام کی خوشی سے مشروط قرار دیا ، ایسے ممالک جہاں عوامی رائے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور عوام میں بے بسی پائی جاتی ہے ان میں عراق ، پاکستان ، ایران اور نائیجریا شامل ہیں ۔ ہمارے ملک کے آئین میں اب تک چوبیس ترامیم ہوچکی ہیں لیکن کیا کسی بھی ترمیم کا تعلق براہ راست عوام سے رہا ہے ؟ میں سیاسی راہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کے خلاف نہیں لیکن اگر سارے مسئلے سٹرکوں پر ہی حل کرنے ہیں تو پارلیمان کی کیا ضرورت ہے ؟۔
حکمرانوں کی عوام سے لاتعلقی اس حد تک ہو چکی ہے کہ حکمران اپنی تجوریاں بھرنے میں مگن ہیں اور عوام روزِقیامت کا انتظار کرنے میں مصروف ہیں ۔ کیا ہماری اشرافیہ درست ٹیکس دے رہی ہے ؟۔
ایک طرف ایفیڈرین کیس اوپن ہوتے ہیں تو دوسری طرف پانامہ لیکس ہوتی ہیں ؟ ہم خاموش ہیں کیونکہ ہم خود ہی ان کرپٹ حکمرانوں کو لانے کے ذمہ دار ہیں ۔ ہم سب اپنی اپنی جگہ کرپشن کر رہے ہیں خواہ وہ اپنی برادری کو ووٹ دے کر ہو ، کسی جائز کام کے لئے رشوت اور سفارش کروا کے ہو ، چیزوں میں ملاوٹ کرنا ہو، ہم سب بھی تو کسی نہ کسی حد تک غلط اور کرپٹ ضرور ہیں ۔
کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم عوام تو ہیں لیکن ہمارے پاس صرف شناختی کارڈ ہی ہیں اپنی اصل شناخت ہم کھو چکے ہیں ، پاکستان میں غربت کی بجائے غریب کو ہی ختم کیا جا رہا ہے ۔ لوگوں کو باشعور بنانے کی بجائے ایک جاہل معاشرہ وجود میں لایا جا رہا ہے ۔ دولت ہماری ہے اور اس پر قابض حکمران ٹولہ ہے ۔ یہ سب سوچ کر مجھے ایک واقعہ مشہور شاعر فیض احمد فیض کے بارے میں یاد آگیا ۔
فیض احمد فیض بنگلہ دیش بننے کے بعد وہاں ایک حکومتی وفد کے ساتھ گئے ، بنگلہ دیش کے راہنما شیخ مجیب انھیں پہلے ہی سے جانتے تھے ، جب انھیں شیخ مجیب کی جانب سے فرمائش کی گئی کہ ان کے لئے بھی کچھ لکھاجائے تو انھوں نے جو چند مصرعے لکھے وہ ہمارے عوام پر بھی پورے آتے ہیں کیونکہ عوام بھی اتنی قربانیاں دینے کے باوجود بھی اجنبی ہیں ۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد