کرکٹ ہو یا کوئی اور کھیل کھلاڑی کو ایک نہ ایک دن ریٹائرڈ ہوکر الوداع کہنا ہی پڑتا ہے جو کہ ایک سرکل ہے جب پرانا جاتا ہے تو نیا خون شامل ہوتا ہے اور اس طرح دیگر کھلاڑیوں میں جذبہ بڑھتا ہے اور یہ عمل نوجوانوں میں عزم پیدا کرتا ہے کہ اب انھیں بھی بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کی نمائندگی کا موقع ملے گا ‘ مگر جب پرانا خون یا کوئی سینئر کھلاڑی جانے کو ہی تیار نہ ہو تو کیسے ٹیم میں جذبہ اور عزم پروان چڑھے؟۔
پاکستان کرکٹ ٹیم دورہ نیوزی لینڈ اوردورہ آسڑیلیامیں مسلسل 5 ٹیسٹ میچز‘ 4 ایک روزہ میچز میں شکست کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ چئیرمین اور دیگر بااختیار افراد کی جانب سے یہ بات چھیڑی گئی کہ مسلسل خراب پرفارمنس کے بعد ٹیم میں تبدیلی کی جائیگی اور غور کیا جارہا ہے کہ تینوں فارمیٹس کا کپتان ایک ہی ہو۔
ابھی کرکٹ بورڈ کی جانب سے عندیا ہی ملا تھا کہ اس پر نام نہاد سنئیر کرکٹرز کی جانب سے ردعمل آنا شروع ہوگئے کہ فلاں فلاں کھلاڑی تینوں فارمیٹس کے لیے بہترین امیدوار ہیں انھیں کپتان بنادینا چاہیے۔کپتان کی تبدیلی کے سوال پر چیف سلیکٹر انضمام الحق صاحب نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ یہ چئیرمین بورڈ کی صوابدید ہے کہ وہ جسے چاہے کپتان بنائے۔
اسٹارکرکٹرز کو فیئرویل ملنا چاہیے؟
اگر ہم اعدادو شمار دیکھیں تو گزشتہ 1 سال کے دوران 12 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے 4 جیتے , 8 ہارے , 2 سیریز میں (دورہ آسڑیلیا , دورہ نیوزی لینڈ ) وائٹ واش شکست ‘ برطانیہ میں سیریز برابر رہی اوردبئی میں ویسٹ ان?یز کے ساتھ کھیلی جانے والی تین ٹیسٹ میچز کی سیریز میں 2-1 سے کامیابی ملی۔
حالانکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی مسلسل خراب کارکردگی , شکستوں پر کپتان کو اخلاقی طور پر اپنے استعفے کی پیش کش کرنی چاہیے تھی کہ وہ ٹیم کو صحیح طرح سے لڑانے میں کامیاب نہ ہوسکے مگر یہ شائقین کرکٹ‘ مبصرین‘ اسپورٹس ماہرین ‘ اورتجزیہ نگاروں کے لیے شاید خواب ہی رہےگا کہ ہمارے کھلاڑی کسی بھی شکست کی زمہ داری کو اپنے کاندھوں پر لے کر آگے بڑھیں گے اور مثال قائم کریں گے۔
کپتان کی تبدیلی کے حوالے سے جب سوال گھومتا ہوا موجودہ ٹیسٹ کپتان مصباح الحق تک پہنچا تو گڑھے میں پانی بھرجانے کے مترادف جواب ملا , کپتان کی تبدیلی پر مصباح کا کہنا ہے کہ لوگ جب ایسے کہیں گے کہ خود شرم کریں‘ کرکٹ چھوڑدیں تو آئندہ کون کپتان بننا چاہے گا؟۔ ٹیم میں ایک شخص کی تبدیلی سے فرق نہیں پڑے گا؟ ڈومیسٹک کرکٹ کو بہتر کرنا ہوگا‘ کھلاڑیوں کو گروم کرنا ہوگا۔
پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق سے پاکستان سپر لیگ کے آغاز سے ہفتہ قبل جب یہی سوال دہرایا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ فٹ ہیں اور اپنے مزید کرکٹ کھیلنے یا نہ کھیلنے کے حوالے سے پاکستان سپرلیگ کے درمیان میں واضح ہوجائے گا۔
مصباح الحق کے بیانات کے بعد اوراس بحث کو چھڑجانے سے جو ماحول گرم ہوا تھا اسے کم کرنے کے لیے چیئرمین بورڈنے ایک بیان میں عندیہ دیا کہ ممکنہ دورہ ویسٹ انڈیز میں مصباح الحق ہی کپتان ہوں گے۔
چئیرمین بورڈنے بیان دے کرمصباح کے کپتان کی تبدیلی پرآنے والے ردعمل کو متنازعہ بننے سے روکنے کے لیے اچھی کوشش کی لیکن کپتان کی تبدیلی دورہ ویسٹ انڈیز سے قبل ہی ممکن ہے اور ہوسکتا ہے پاکستان سپر لیگ کے درمیان ہی ٹیسٹ, ایک روزہ میچز , اور ٹی 20 کی کپتانی کے فرائض کسی ایک کے سپرد کردیے جائیں۔
ہم شائقین کرکٹ یہ ہی چاہتے ہیں کہ ہمارے اسٹار کھلاڑی کھیلیں مگر جب اسٹار کھلاڑی پرفارم نہیں کرپاتے تو نہ صرف انھیں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے بلکہ ان کے مداحوں کو بھی عام دوستوں اوراحباب میں ان کی بری کاکردگی کے باوجود دفاع کرتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ فلاں فلاں کھلاڑی میں اب وہ بات نہیں رہی جو 6,7 یا 10 سال پہلی تھی۔ جب آپ اپنی کارکردگی سے , اور آپ کے مداح آپ کی کارکردگی سے دوسروں کو قائل کرنے میں مسلسل ناکام ہورہے ہوں توپھر یا تو آپ سخت محنت کریں یا پھر الوداع کہہ کر نئے کھلاڑیوں کو ملک کے لیے کچھ کردکھانے کا موقع دیجیے کیونکہ کسی بھی کھلاڑی کی انفرادی کاکردگی سے زیادہ ضروری ٹیم پرفارمنس ہے۔