صبح سویرے ہسپتال کے باہر سرکاری گاڑیاں رکنے لگیں تو کئی لوگوں نے مڑ کر دیکھا ۔ نو برس کا ایک بچہ پولیس کی وردی میں اپنے محافظوں کی معیت میں باہر نکلا اورنیلے ہوٹر والی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ یہ اس شہر کا چیف ٹریف آفیسر تھا ۔ ایسی داستانیں ہمیں یورپ کے حوالے سے سنائی جاتی ہیں لیکن یہ کہانی ہماری اپنی دھرتی کی ہے۔ نو برس کا عبد اللہ نور ایک مزدور کا بیٹا ہے۔ اس کا باپ اسے علاج کے لئے جڑانوالہ سے الائیڈ ہسپتال فیصل آباد لایا تھا لیکن یہاں آ کر عبد اللہ نور چیف ٹریفک آفیسر بن گیا ۔ اس نے اسی حیثیت میں سی ٹی او کے دفتر بیٹھ کردفتری معاملات نمٹائے
پورے شہر کا دورہ کیا اورڈی ایس پیز کے دفاتر بھی گیا ۔ یہ کہانی جتنی خوبصورت ہے اتنی ہی المناک بھی ہے۔
محمد نور جڑانوالہ کا رہائشی ہے ۔ اس کے چار بیٹے ہیں جنہیں پالنے کے لئے وہ مزدوری کرتا ہے ۔ اس غریب خاندان کے لئے یہ انکشاف کسی قیامت سے کم نہ تھا کہ ان کا بیٹاعبد اللہ نور بلڈ کینسر کا مریض ہے ۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ ہر لمحہ موت کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ ایک غریب مزدور کے پاس جو کچھ تھا وہ اس نے اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کے لئے لگا دیا لیکن سوال یہ تھا کہ ایک مزدور کے پاس کتنی جمع پونجی ہو سکتی ہے ؟ وہ اپنے بیٹے کو لئے جانے کہاں کہاں کے دھکے کھاتا رہا ۔بلآخر محمد نور اپنے نو برس کے لخت جگر کو فیصل آباد الائیڈ ہسپتال داخل کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ عبد اللہ نور اب الائیڈ ہسپتال کے کینسر وارڈ میں زیر علاج ہے ۔ یہاں تک کی کہانی ایک ایسے مزدور باپ کی کہانی تھی جو اپنے بچے کو بمشکل ہسپتال لا پایا تھا ۔ لوگوں کی باتیں ، مہنگی ادویات اور بچے کی تکلیف دیکھ کر رونے والا یہ باپ خود کو انتہائی بے بس محسوس کر رہا تھا۔
کہانی کا اگلا موڑ حیرت انگیز ہے ۔ ہسپتال میں بلڈ کینسر سے لڑنے والا نو سالہ بچہ مہربان ڈاکٹرکی آنکھوں کا تارہ بن گیا ۔ ایک روز اس نے اپنے معالج ڈاکٹر خالد سے خواہش کا اظہار کیا کہ اگر اس کے پاس مزید زندگی ہوتی اوروہ بڑا ہوجاتا تو ضرور پولیس آفیسر بنتا ۔ موت کی جانب بڑھتے اس معصوم بچے کی باتیں سنتے ہوئے جانے کب ڈاکٹر خالد کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ اس ڈاکٹر نے روایتی ڈاکٹروں کی طرح مریض اور فیس کی بجائے مریض اور محبت کا کلیہ اپنا رکھا تھا۔ ڈاکٹر خالد نے اپنے مریض کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہاکہ ’’عبد اللہ بیٹے یہ میرا وعدہ ہے کہ تم ضرور پولیس آفیسر بنو گے‘‘۔ بظاہرایک ڈاکٹر نے اپنے مریض کو تسلی دینے کے لئے ایسا وعدہ کر لیا تھا جو پورا ہونا ممکن نہ تھا۔
عبد اللہ کا باپ محمد نور ایک معمولی مزدور تھا جس کے پاس اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لئے فیس کے پیسے ہی نہیں تھے ۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ تھا کہ پولیس آفیسر بننے کی خواہش رکھنے والا یہ بچہ ہر گزرتے دن کے ساتھ موت کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ دعا ہے کہ کوئی معجزہ رونما ہو اور اللہ اسے طویل عمرعطا کرے لیکن میڈیکل رپورٹس چلا چلا کر کہہ رہی تھیں کہ بلڈ کینسر کے مریض اس بچے کی خواہش پوری ہونا ممکن نہیں ہے۔ڈاکٹر خالد عبد اللہ کے پاس سے اٹھے تو اپنے آپ سے عہد کر چکے تھے کہ اپنے مریض کی خواہش پوری کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
فیصل آباد پولیس کے افسر سے ان کی شناسائی تھی ۔ وہ ان سے ملے اور کینسر سے لڑنے والے اس بچے کی خواہش کا ذکر کیا ۔ فیصل آباد کے سی ٹی او کو بچے کی خواہش کا علم ہوا تو وہ بھی اس خواہش کی تکمیل کے لئے متحرک ہو گئے۔
اس کہانی کا خوبصورت موڑ شروع ہوا چاہتا ہے ۔ پنجاب پولیس سے خود ساختہ نفرت کرنے والوں کے لئے ایک نئی مثال قائم ہو چکی ہے ۔ کچھ دن قبل ضلعی پولیس کی گاڑیاں الائیڈ ہسپتال پہنچیں ۔ ننھے عبد اللہ نور کو پولیس آفیسر کی وردی پہنائی گئی اور اسے سی ٹی او کے بیج لگائے گئے ۔ وہ شہر کا چیف ٹریفک آفیسر بن چکا تھا۔ ہسپتال کے دروازے پر اس کی سرکاری گاڑی کھڑی تھی جس پر نیلی بتی لگی تھی ۔ اس کے محافظ پولیس اہلکار اس کے ساتھ باہر آئے۔ ادب سے گاڑی کا دروازہ کھولا گیا اور ایک دن کا یہ ننھا چیف ٹریفک آفیسر اپنی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر سی ٹی او کے دفتر روانہ ہو گیا ۔ یہاں عارف شہباز خان وزیر نے اس کا استقبال کیا ، ٹریفک سٹاف نے سلامی دی اور پھر شہباز خان عارف نے اسے اپنی کرسی پر بٹھا دیا۔
آج یہ کرسی عبد اللہ نور کی تھی ۔ اس بچے نے اسی کرسی پر بیٹھ کر دفتری امور سر انجام دیئے ۔ اسے پولیس افسران نے بریفنگ دی۔ یہیں بیٹھ کر ایک دن کے سی ٹی او نے پریس کانفرنس بھی کی ، پریس کانفرنس کے دوران پولیس افسر و اہلکار اس کی کرسی کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔
عبد اللہ نور سی ٹی او بننے کے بعد محکمہ کی مختلف برانچوں میں گیا اور پھر شہر کے دورے پر نکل گیا ۔ چوراہوں پر موجود ٹریفک وارڈنز نے اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں ۔ یہ بچہ شہر میں جہاں جاتا ٹریفک وارڈنز اور دیگر پولیس اہلکار اسے سیلوٹ کرتے ، اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے اور مسکراتے چہروں پر نم آنکھیں لئے اس کی صحت یابی کی دعا کرتے ۔ اس ننھے چیف ٹریفک آفیسر نے اس روز ایک ٹریفک وارڈن وقاص کو معطل بھی کردیا ۔ یہ ڈی ایس پیز کے دفاتر میں بھی گیا جہاں ڈی ایس پی ساجدہ پروین اور ممتاز صحرائی سمیت دیگر نے اس کا بھرپور استقبال کیا۔
عبد اللہ نور ایک دن کا چیف ٹریفک آفیسر تھا ۔ ایک مزدور کے بچے کی خواہش پوری کرنے کے لئے ڈاکٹروں اور پنجاب پولیس کے افسران نے جس اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کیا وہ قابل ستائش ہے ۔ اگر عبد اللہ نور کی یہ خواہش پوری نہ کی جاتی تو شاید کسی کو کوئی فرق نہ پڑتا لیکن عبد اللہ نور زندہ رہنے کا حوصلہ ہار جاتا ۔ مجھے نہیں معلوم وہ کب ٹھیک ہو گا لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ اب وہ ہسپتال میں موت سے لڑنے کا فیصلہ کر چکا ہے ۔ اب وہ مرنا نہیں چاہتا اور جینے کے لئے انتہائی تکلیف دہ علاج برداشت کرنے کو تیار ہے کیونکہ اسے اب مستقل چیف ٹریفک آفیسر بننا ہے ۔ ڈاکٹروں اور پولیس افسران نے مل کر صرف ایک خواہش پوری نہیں کی بلکہ اسے ایک ایسی زندگی کی جھلک دکھا دی ہے جسے پانے کے لئے وہ نئے سرے سے جینے کا عزم کر چکا ہے ۔ بے حسی کے اس ماحول میں اگر ہم ایسی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرتے جائیں تو جانے کتنے عبد اللہ نور بیماری کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔