The news is by your side.

قومی زبان کے نفاذ میں تاخیر کیوں؟

دنیا کی دوسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان اردو ہے اورہماری خوش قسمتی ہے  کہ تقسیمِ ہند کے بعد جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اسے پاکستان کی مادری زبان کا درجہ دیا گیا کچھ عرصہ تک سب کچھ بہتر رہا۔ قائد اعظم کے انتقال، پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کی شہادت  اورمحترمہ فاطمہ جناح کی ہلاکت کے بعد مخصوص طبقہ کی جانب سے لوگوں کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کیا جانے لگا اسی کے پیش نظر عوام اردو کو ترجیح دینے کے بجائے اپنی اپنی مقامی اور لسانی زبان کی طرف راغب ہونے لگی اور یوں پاکستانی عوام ایک قوم بننے کے بجائے مختلف اقوار میں تقسیم ہوتے چلے گئے۔

پاکستان میں لسانیت اور زبان کی تقسیم کی بنیاد 1964/65 میں جنرل ایوب کے دورِ اقتدار میں رکھی گئی جس کے کچھ عرصہ بعد سقوط ڈھاکہ 1971 کا سانحہ پیش آیا۔ ابھی ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنھبالا ہی تھاکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے جنرل ایوب کی جانب سے ملک میں لسانیت کی لگائی جانے والی آگ کو مزید ہوا دینے کے لیے 5 جولائی 1972 کو سندھ اسمبلی میں سندھی کو صوبائی زبان کا درجہ دینے کے لیے قرارداد پیش کرکے سندھ میں سندھی اور اردو کی تفریق کرنے کی ناکام کوشش کی جس کے جواب میں سندھ کے مختلف شہروں میں اردو زبان کے حق میں ریلیاں نکالیں گئیں۔ اردو زبان کے دیوانوں نے اردو سے محبت کا اظہار کیا مگر ریاست کی جانب سے طاقت کے ذریعے اس احتجاج کو روکنے کی کوشش کی اور 2 روز میں حیدرآباد اور کراچی  میں اردو زبان کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں 34 افراد کو شہید کردیا گیا جنھیں آج شہدائے اردو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں 1973 کے آئین کے نفاذکے 15 سال بعد ملک بھر میں اردو زبان کا نفاز ہوجانا چاہیے تھا مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا , کیونکہ حاکمِ وقت قطعی نہیں چاہتے تھے کہ قانون ساز اسمبلی میں ہونے والی کاروائیوں کے حوالے سے ہر عام شخص واقف رہے کیونکہ پاکستان میں اکثریت بآسانی اردو زبان سمجھ سکتی ہے اسی لیے اردو زبان کے نفاذ کو لسانیت کا رنگ دے کر دیگر زبانیں بولنے والوں کو اردو بولنے والوں کے خلاف بھڑکاکر ایک دوسرے کا دشمن بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے 70 سال اور آئین پاکستان کے 34 سال بعد بھی پاکستان میں قومی زبان اردو کو ملک بھر میں نافذنہ کیا جاسکا۔

کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی اردو زبان کے نفاذ کے حوالے سے درخواست دوہزار تین سے عدالت عظمیٰ میں زیرِالتوا تھی۔ درخواست گزار کوکب اقبال نے اپنے دلائل میں کہا کہ حکومت جان بوجھ کر آئین کے آرٹیکل دو سو اکیاون پر عمل کرنے سے گریزاں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کو رائج نہ کرنے کی وجہ سے معاشرے میں ایک ایسا معاشرتی اور لِسانی تفرقہ پیدا ہو گیا ہے جو نہ صِرف معاشرتی استحکام کی راہ میں حائل ہے بلکہ معاشرتی نفاق کاسبب بھی ہے ۔

دوسال قبل 2015 میں جواد ایس خواجہ نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے اردو زبان کے نفاز کے حوالے سے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ملک بھر میں اردو زبان کو سرکاری اور غیرسرکاری دفاتر میں آئین کے آرٹیکل دو سو اکیاون کے تحت نافذ کیا جائے , مگر نہ ہوسکا پھر جب جناب جواد ایس خواجہ صاحب ستمبر 2015 میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے تو ان کی جانب سے پھر حکم دیا گیا کہ اردو کو ہر سرکاری غیرسرکاری اداروں میں نافز کیا جائے اورتمام احکامات اردو میں جاری کیے جائیں۔

جواد ایس خواجہ صاحب ریٹارڈ ہوگئے اور چلے گئے مگر ان کے حکم پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ مسلسلِ توہین عدالت ہوتی رہی اورذمہ دار کون ؟۔

دیہی سندھ اور شہری سندھ, سندھی اردو کی تفریق کرنے والی پیپلزپارٹی آج پھر سندھ میں لسانیت کو ہوا دینے کی کوشش میں مصروفِ عمل ہے , پہلے پاکستان پیپلزپارٹی کے اہم رکن مولابخش چانڈیو صاحب کی جانب سے بیان دیا گیا کہ سندھ میں رہنے والے سب سندھی ہیں تو 2017 میں مردم شماری میں اردو بولنے والے بھی زبان کے خانے میں سندھی زبان کو نشان زد کیجیے اس طرح کا بیان نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ قومی زبان کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔

سندھ اسمبلی میں 7 مارچ 2017 کو کراچی کے ایک رکن اسمبلی کی جانب سے اردو زبان کو سرکاری اور نجی اداروں میں نافذ کرنے کی قرارداد پیش کی گئی جسے پاکستان پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی کی جانب سے مسترد کردیا گیا۔ نثار کھوڑو جوکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سنئیر رکن ہیں ان کا اس قرارداد کو واپس لیے جانے کا کہنا سمجھ سے بالاتر ہے حالانکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح 21 مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اردو زبان کے حوالے سے واضح ا لفاظ میں بیان کرچکے ہیں کہ

میں واضح الفاظ میں بتادینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے اور اردو ہی ہوگی۔ اور کوئی زبان نہیں! اگر کوئی آپ کو گمراہ کرتا ہے تو وہ پاکستان کا دشمن ہے ایک مشترکہ زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو پوری طرح متحد ہوسکتی ہے اور نہ کوئی کام بطریق احسن انجام دے سکتی ہے

تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اس قول کے بعد ہم اردو زبان کے نفاذ کے حوالے سے نفی کرنے والوں کو کیا تصور کریں ؟۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے اردو زبان کے حوالے سے اقدامات تاریخ کا حصہ ہیں یہ ایک تاریخ ساز وقت ہے کہ پی پی پی اپنی ماضی کی روایات کو توڑتے ہوئے سندھ میں دیہی اور شہری کا فرق ختم کرنے کے لیے اردو کے نفاز میں اپنا کردار ادا کرکے اپنا قدم بڑھائے ورنہ اس طرح کے رویوں سے وہ نہ صرف اپنی بچی کچی ساکھ متاثر کررہی ہے بلکہ اپنی متعصبانہ پالیسیوں کا واضح اظہار کررہی ہے۔

اردو زبان کو تعصب کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے یہ دیکھیے کہ یہ ایک ایسی زبان ہے جسے پاکستان میں لوگ باآسانی لکھ اور پڑھ سکتے ہیں جس سے عام شہریوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی لہذا اس کے نفاذ میں سیاست سے اجتناب کرتے ہوئے تاخیری حربے استعمال کرنے بجائے اس کے نفاذ کے حوالے سے عملی اقدام کرے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں