پاکستان میں جینے سے لے کر مرنے تک کوئی بھی کام ایزی نہیں۔اگر کوئی کام ایزی ہے تووہ صرف ایزی لوڈ ہے۔وہ آپ کو باآسانی ہر جگہ مل جائے گا۔آپ کے پاس کچھ ہو یا نہ ہو لیکن موبائل بیلنس ختم نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اگر یہ ختم ہو گیا تو پھر کرنے کا کیا کام رہ جائے گا؟ ایک ہی تو کام ہے جو یہ قوم دن رات کرتی ہے اور وہ ہے باتیں۔پہلے یہ کام صرف خواتین کرتی تھیں لیکن جب سے موبائل نے اس ملک کو ترقی دی ہے اب یہ کام مردوں نے بھی لے لی ہے۔ گویا یہ وہ واحد کام ہے جس میں مرد خواتین کے شانہ بشانہ ہیں۔
ملک میں ایک طویل عرصہ بعد مردم شماری ہو رہی ہے اگر اس سے پہلے مردم شناسی ہوجاتی تو شاید مردم شماری کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ ملک کی آبادی بڑھتی کیوں جارہی ہے اس کا اندازہ الیکشن سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں مرنے والوں کے نام بھی باآسانی فہرست میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ نادرا کی نااہلی نہیں بلکہ عوام کا اموات کا اندراج نہ کروانا ہے۔ عوام کو دنیا میں آنے سے لے کر دنیا سے جانے تک ہر کام کی سند چاہیے۔ اگر زندہ ہے تو اس کا ثبوت دے اور اگر مرگیا ہے تو اس کا بھی ثبوت دے ۔ اگر نکاح ہو گیا ہے تو اس کا ثبوت دے اور اگر نہیں ہوا تو اس کا ثبوت دے۔ لیکن یہ ثبوت مانگنے والے خود کبھی اپنا ثبوت نہیں دیتے کہ کیا وہ اس بات کے اہل ہیں کہ وہ ہم سے ثبوت مانگیں؟ ان سب اسناد کو بطور ثبوت ضرور ہونا چاہیے لیکن اس کا حصول بھی اسی قدر آسان ہونا چاہیے کہ جس قدر ایزی لوڈ آسان ہے یا کم از کم اتنا تو آسان ہونا چاہیے کہ جس قدر آسان بلاول بھٹو کا شناختی کارڈ بنوانا ہے کہ جس کے لیے کسی قطار کی ضرورت ہے اور نہ کسی انتظار کی ضرورت ہے۔
پیدائش کا اندراج تو اس لیے عوام کو باحالت مجبوری کروانا پڑتا ہے کہ اس کی جگہ جگہ ضرورت پیش آتی ہے۔لیکن مرنے کے بعد اندراج نہیں کروایا جاتاکیونکہ مرنے والے کو جس مشکل سے قبرستان میں جگہ ملتی ہے وہ ہی کچھ اس قدر مشکل عمل ہے کہ جس سے گزرنے کے بعد لوگ اندراج کے چکر میں نہیں پڑتے کہ یہ عمل خاصا مشکل بھی ہے اور بعد میں اس کی کہیں ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔ گویا یوں مرنے والا مرکے بھی نادرا کے ریکارڈ میں امر رہتا ہے۔صرف وہی لوگ اس عمل سے گزرتے ہیں جن کو جائیداد کی تقسیم یا پنشن وغیرہ وصول کرنی ہوتی ہے۔
نادرا کے قانون کے مطابق مرنے والے کو جن ڈاکومنٹس کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں جس کے بعد ہی اسے مردہ تسلیم کیا جائے گا اور اسے مرنے کی سند دی جائے گی۔
۱۔ قبرستان کی رسیدجس کا چالان جمع کروانے کے لیے آپ کو میونسپل کارپوریشن جانا پڑے گا،چاہے آپ شہر کی کسی بھی دور دراز حصہ میں رہتے ہوں۔
۲۔ اگر اسپتال میں انتقال ہوا ہے تو اس کی سنداسپتال دے گا ورنہ اگر گھر پر موت واقع ہوئی ہے تو اس کی تصدیق دو گواہ جو پڑوسی ہوں وہ یوسی کے دفتر میں آکرحلفیہ بیان دے کر تصدیق کریں ۔
۳۔شوہر کا انتقال ہوا ہے تو اس کا اندراج صرف بیوی کرواسکتی ہے اور اگر وہ موجود نہیں تو اس کی اولاد ۔(اور اگر بدقسمتی سے اولاد اور بیوی نہ ہوں تو اس کا اللہ حافظ ہے۔ضرورت ہی کیا ہے مرنے کی)۔
۴۔ آخر میں ڈی سی آفس کا حصہ تو رہ ہی گیا۔ایک حلفہ نامہ مجسٹریٹ سے تصدیق شدہ اور فارم کا علاقے کے کونسلر سے تصدیق کروانا بھی لازمی ہے۔
جب یہ تمام چیزیں جمع کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو پھر یونین کونسل کے دفتر میں جا کر ان کا بھی حصہ ادا کریں اور نادرا کا شکریہ کہ ان کی وجہ سے یہ کام اتنا آسان ہو گیا ورنہ تو لوگ اس سے پہلے مرتے ہی نہیں تھے ۔
گھر گھر جا کر عوام کی خانہ شماری اور مردم شماری کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اگر اس تصدیقی عمل کو آسان اور سہل بنانے کی تدابیر کی جائیں لیکن ایسا ہم کیوں کریں ؟ سچ تو یہ ہے کہ جہاں ہمیں دہشت گردی کے نام پر موبائل سم کی تصدیق کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہاں تو ہم باآسانی فنگر پرنٹس کا سہارا لے کر مشین سے جگہ جگہ تصدیقی عمل کو آسان بنا لیتے ہیں۔ لیکن اسی عمل کو اگر الیکشن کے لیے استعمال کرنا ہو تو یہ کام انتہائی مشکل دکھائی دینے لگتا ہے۔ نیٹ ورک کے اس جدید دور میں کہ جب موبائل کے ذریعہ یوٹیلٹی بل ادا ہو رہے ہیں،موبائل کے ذریعہ باآسانی رقم منتقل ہورہی ہے، یہ کام بھی باآسانی ممکن ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سے عوام کو آسانی میسر آجائے گی اور درمیان میں موجود بیوروکریسی کا حصہ کون ادا کرے گاکہ جن کا کاروبار ہی عوام کے مسائل سے شروع ہوکر عوام کے مسائل پر ختم ہوجاتا ہے۔