The news is by your side.

ادب میں عامیانہ پن کیا روا رکھا جاسکتا ہے

میرا اور تمھارا کوئی خاص اختلاف نہیں ہے ، اگر ہے تو محض اتنا کہ میں تحریر کے خلاف نہیں ہاں میں تحریر کی برہنگی اور عامیانہ پن کے ضرور مخالف ہوں ۔ میرا اور تمھارا اختلاف محض اتنا ہے کہ میں کتاب کے نہیں بلکہ کئی سستی کتابوں میں لکھے ہوئے اخلاق باختہ جملوں اور الفاظ کی ضرور مخالف ہوں ۔

مجھے اس بات کا علم تو ہے ہی کہ تمھیں اس اختلاف سے ہی اختلاف ہوگا ، خیر جمہوریت ہے اختلاف رائے کی اجازت ہے اس لئے اس حق کی مخالفت میں بھی نہیں کروں گی ۔ لیکن تمھاری اس دلیل کو مان نہیں سکتی کہ تحریر میں برہنگی پہلے بھی ہوتی رہی ہے تو اب آپ کیوں خائف ہیں ؟ کیونکہ پرانے زمانے میں بھی تو بڑا ’’کھلا ڈلا ‘‘ادب لکھا جاتا رہا ہے ۔

میں اپنی دلیل کے ساتھ یہ کہوں گی کہ پرانے زمانے کا ادب کھلا ڈلا نہیں تھا کیونکہ وہ معاشرتی و مذہبی اور اخلاقی حدود سے آزاد نہیں تھا ۔ سعادت حسن منٹو ، عصمت چغتائی ، کرشن چندر کے افسانے اور تحریریں جو تمھیں کھلا ڈلا ادب محسوس ہوتی ہیں اصل میں ان میں عامیانہ پن کی بجائے حقیقت نگاری اور روشن خیالی ضرور ہے ۔ سماجی تعلقات ہوں یا رویوں کی کہانی ، پرانے ادیبوں نے تو اپنے قلم کا حق ادا کیا ہے ۔

میرا اور تمھارا اختلاف یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا ، میرے اندر کا ادیب تب مرنے لگتا ہے جب میں یہ سوچتی ہوں کہ کتب خانے ویران ہو چکے ہیں اور نئی نسل ’’دسمبر لوٹ رہا ہے ‘‘، ۔۔۔۔ ’’تنہائی کے سلگتے اندھیرے ‘‘۔۔’’عشق کے امتحان ۔‘‘۔۔۔’’آؤ کچھ پل گذار لیں ۔‘‘ اور اس طرح کے عنوانات پر مشتمل کتابیں اور گھٹیا سرورق سے مزین رسائل دھڑا دھڑ خرید رہی ہے۔

بک سٹالز پر ایسی کتابوں نے ادیب کے فن کا گلہ ہی گھونٹ دیا ہے ، میرے ہمدم میرا اختلاف یہ بھی ہے کہ میں نے یہ بھی سمجھا تھا یا میں اس خوش فہمی میں تھی کہ ٹی وی ڈراموں پر تو اس عامیانہ پن کی جھلک ہو سکتی ہے کیونکہ آپ میں سے بہت سے لوگ اب اشفاق احمد ، حسینہ معین ، احمد ندیم قاسمی ، اصغر ندیم سید ، منو بھائ ، ڈاکٹر انور سجاد ، بانو قدسیہ اور انور مقصود جیسے رائٹرز کے ڈرامے نہیں دیکھتے کیونکہ کمرشلزم کا زمانہ ہے ۔ لیکن میں نے یہ بھی سوچا تھا کہ کتابوں پر یہ برا وقت نہیں آئے گا ، کتابوں کی مقدس تحریریں ان پراگندہ خیالات سے محفوظ رہیں گی۔

میں نے سنا تھا کہ اگر کبھی کسی کو اپنے مرتبے کا خیال نہ رہے تو وہ صرف ایک شے بن کر رہ جاتا ہے جیسے مرد اور عورت ماں ، بہن ، بیٹی ، شوہر ، باپ اور بیٹے کا کردار ادا نہ کریں تو وہ معاشرے کے ہوس زدہ کردار صرف عورت اور مرد بن کر رہ جاتے ہیں اور پھر انھیں وہی پکارا جاتا ہے ، تو میرے عزیزو یہ کتابیں اب کتابیں نہیں رہیں کیونکہ جب ان میں عامیانہ جملے شامل ہو گئے تو یہ محض ’’کاغذوں کا پلندہ ‘‘بن گئیں ۔

ہم تو بچپن میں پڑھا کرتے تھے ناں کہ ہر درسی کتب کے صفحے پر لکھا ہوتا تھا کہ کتاب آپ کی بہترین ساتھی ہے ، اس کو حفاظت سے رکھیں اس کے صفحات ضائع مت کریں، لیکن میرے درسی کتب لکھنے والے معزز ادیبوں! کاش آپ ایک جملہ یہ بھی شامل کر دیتے کہ کتاب کا تقدس برقرار رکھنے کے لئے اپنی تحریر میں شائستگی لائیں ، تحریر میں برہنگی کے رحجان کو ختم کر دیجئیے ، قلم کی حرمت کو باقی رکھئے ، کاش آپ یہ بھی لکھ دیتے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں