The news is by your side.

اگلا مشال آپ کا اپنابچہ ہوا تو ؟؟

         ہم اس گیلے شہتیر ایسے ہیں جو یقین کی آگ پکڑ کے بھڑک جائے تو پھر راکھ بننے تک فنا ہونے کا سفر جاری رکھتا ہے۔ اسی لئے آگ لگانے والوں نے دہشت گردی کی جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لئے ہمیں استعمال کیا۔ مفاد پرستوں نے مذہبی بیانیے کو اپنا من پسند رخ دیا اور فرقوں کو آگ پکڑنے والی چھوٹی چھوٹی خشک لکڑیوں کی طرح ہمارے ذہن کی بھٹی میں جھونک دیا۔ ہم تو وہ سادہ دل دیہاتی تھے جو گاؤں آمد پر دشمن کی بیٹی کے سر پر چادر رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ لڑائی اپنی جگہ لیکن روایات زندہ رہنی چاہئیں۔ ہم کہ جو نماز چاہے ایک بھی ادا نہ کریں لیکن نبی ﷺ کے نام پر جان تک قربان کر دیتے ہیں ۔ جی صاحب ! ہم سادہ دل تھے اسی لئے امریکا تک ہمیں مذہب کے نام پر استعمال کرتا رہا ۔ لڑائی دو سپر پاورز کی تھی اورافغان بھٹی میں جھونکے ہم گئے ۔ خون ہمارا بہتا رہا اور اسلحہ اغیار کا بکتا رہا ۔ بھوک ہم اپنے دامن سے باندھتے رہے اور خوشحالی کے نگینے ان بادشاہوں کے تاج میں لگتے رہے جن کا کاروبار اسلحہ کی فروخت سے جڑا تھا۔

ہمارے جذبات کو ہمارے ہی خلاف استعمال کرنے کی درجنوں مثالیں موجود ہیں ۔ بڑی تحریکیں تو دور کی بات یہاں تو چھوٹے چھوٹے انگارے بھی ہمیں خاکستر کرتے رہے ہیں ۔مردان کا حالیہ سانحہ ہمارے سامنے ہے ۔ مشال کے ساتھ جو ہوا اس میں قصور وار کون تھا ا اس کا فیصلہ اب عدالت کو کرنا ہے لیکن ایسی کئی داستانیں تو پہلے ہی ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں۔ یہاں مشتعل مظاہرین نے سمبڑیال کی بستی جلا دی تو یوحنا آباد سے نکلنے والے مسیحی شہریوں نے بھی حافظ قرآن کو زندہ جلا دیا تھا ۔ یہ سانحات اخبارات کے ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں ۔ یہ کوئی ایک مذہب نہیں ہے اور نہ ہی مورخ اسے کسی مذہب کے پس منظر میں لکھے گا ۔ مورخ لکھے گا تو ایک قوم کے تناظر میں لکھے گا ۔ ایک ایسی قوم جسے کوئی بھی مشتعل کر سکتا ہے ۔ ایک ایسی قوم جو اکثر اغیار کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہوئے توہین مذہب کے نام پر اپنے ہی مذہب کی توہین کرنے لگتی ہے ۔ یہ توہین نہیں تو کیا ہے کہ اسلام ہمیں جس عمل سے روکتا ہے ہم اسلام کے نام پر وہی کام کرنے لگتے ہیں ۔ قانون ہمیں جس کام سے روکے ہم قانون کی بالادستی کے نام پر وہی جرم کرتے ہیں ۔ ان وارداتوں کو مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا کہ مذہب تو ایسی حرکات کی اجازت ہی نہیں دیتا۔

اسلام کہتا ہے کہ ہر فیصلہ سے قبل تصدیق کر لیا کرو تو پھر ہم بنا تصدیق کسی کو مار دینے کاعمل اسلام سے کیسے جوڑ سکتے ہیں ؟ غازی علم الدین کی مثال دی جاتی ہے لیکن یہ کون بتاتا ہے کہ غازی شہید نے بھی معلوم ہونے کے باوجود مجرم سے تصدیقی بیان چاہا تھا اور اس کے اقرار کے بعد غازی حرکت میں آئے تھے ۔ بلا شبہ وطن عزیز میں کئی دہائیوں سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسلام نہیں جذبات کا کھیل ہے ۔ ایک طرف وہ غازی علم الدین شہید ہیں جو کہتے تھے مجھے جنت کی خوشبو آ رہی ہے ، دوسری طرف ان کی پیروی کے وہ دعوے دار جنہیں موت کا خوف قاتل کا نام چھپانے کے لئے حلف اٹھانے تک پرمجبور کردیتا ہے۔

مردان کے مشال کی ہلاکت ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔ اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو اپنی اگلی نسلوں کو اپنے ہاتھوں جلا کرخاکستر کر دیں گے ۔ یہ صرف ایک قتل نہیں ہے ، یہ وہ رویہ ہے جو ہمیں انجانے میں دوسروں کا آلہ کار بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس وطن کے شہریوں نے آئی جے اتحاد اور تحریک نظام مصطفی کے نام پر کیا کچھ نہیں گنوایا ۔ افغان جنگ کے عفریت نے کتنے کڑیل نوجوانوں کا خون نہیں پیا ۔ مورخ البتہ لکھے گا کہ ایسی جذباتی تحریکوں کا انجام صرف اتنا ہوا کہ سائیکلوں پر اپنے پوسٹر لگانے والے مہنگی گاڑیوں تک پہنچ گئے اور انہوں نے یہ سفر عام شہریوں کے جوان بچوں کی خون آلود لاشوں پر پاؤں رکھ کر طے کیا۔

سوال صرف اتنا ہے کہ کیا ہم چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں یونہی استعمال ہوتے رہیں گے ۔ مشال کیس تو یہ بھی بتاتا ہے کہ اب ہمارے بچے بھی انہی خون آلود ہاتھوں میں استعمال ہو رہے ہیں جن کے نزدیک مذہب صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک یہ قوم انہی ہاتھوں میں استعمال ہوئی ہے ۔ اب اس کا حل تلاش کرنا ہے ۔ ہمیں اپنی کمزوریاں خود تلاش کرنا ہوں گی ۔ اشتعال انگیزی ، مذہب سے دوری اور مذہبی تعلیمات کا مکمل علم نہ ہونا ہماری بڑی کمزوریاں بن چکی ہیں۔ اب ہمیں ریاستی رٹ ، عدلیہ اور سکیورٹی فورسز کی اہمیت کو جاننا ہو گا ۔ ہماری اسکالرز کو واضح کرنا ہو گا کہ اسلام میں ریاستی رٹ کی اہمیت کیا ہے ۔ قانون ہاتھ میں لینااسلام کی رو سے کتنا سنگین جرم ہے۔ ہمیں روایتی سیاسی بیانات سے باہر نکل کر اپنے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنا ہو گا ۔ یہ سب صرف مشال کے قتل تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہماری معاشرتی بقا کا سوال ہے ۔

آپ کرائم ریٹ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ زیادہ تر قتل اور دیگر جرائم اشتعال کے عالم میں ہوتے ہیں ۔ ہم قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں کیونکہ ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے بچاؤ کے لئے ہمیں قانون ہاتھ میں لینے کا درس دیتی ہے ۔ تھانوں سے لے کر عدالتوں تک کے گھیراؤ کی داستانیں چھوڑ دیں ، یہاں تو وکلا ہی ججز کے کمروں کو تالے لگانے سے نہیں چوکتے ۔یہاں ناکے پرتعینات کوئی اہلکار روکے تم عام شہری بھی تعلقات کی دھمکیاں دیتا ہے ۔ صاحب ! مجرم ہم سب ہیں اور مجرم بھی ایسے کہ ذہنی مریض سمجھ لیں۔

اگر ہمیں اپنی اگلی نسل کو محفوظ رکھنا ہے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ مشال کی طرح ہجوم کے ہاتھوں پتھر کھا کھا کر نہ مارا جائے تو ہمیں اپنے بیانئے اور تربیت دونوں پر غور کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے بچوں کو منفی سوچ سے دور ہٹا کر بتانا ہو گا کہ پولیس عوام کی مدد اور عدلیہ انصاف کی فراہمی کے لئے ہے ۔ بچوں کے ذہنوں میں ریاستی اداروں سے نفرت کا جذبہ پیدا کرنا انہیں مجرم بنانے کے مترادف ہے اور سچ یہ ہے کہ ہم خود اپنے بچوں کو مجرم بنا رہے ہیں ۔ہمیں اپنے ریاستی اداروں کو احترام دینا ہو گا ۔ کالی بھیڑیں ہر جگہ ہوتی ہیں لیکن ان کی وجہ سے ایماندار لوگوں کو بھی گالی بکنے کا کلچر ختم نہ ہوا تو ہم سے کھرے اور کھوٹے کی تمیز اٹھا لی جائے گی ۔

سچ یہ ہے کہ ہم نے تین خودکش حملوں کے باوجود ڈیوٹی پر موجود رہنے والے آئی جی مشتاق سکھیرا کی بہادری کا ذکر کہیں نہیں کیا۔ ہم نے انسانی حقوق کا صدارتی ایوارڈ لینے والے ڈی آئی جی حیدر اشرف کی ان خدمات کا ذکر کہیں نہیں کیا ۔ یہاں تک کہ آئی جی اسلام آباد بنتے ہی عام شہری سے براہ راست رابطہ قائم کرنے کے لئے اپنا ذاتی موبائل نمبر سوشل میڈیا پر جاری کرنے والے طارق مسعود یسین کے اس فعل کا بھی کہیں چرچا نہیں ہوا ۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ڈی آئی جی کیپٹن مبین بم دھماکے میں شہید نہ کئے جاتے توکہیں ذکر نہ ہوتا کہ بہادری کے کن کارناموں کی وجہ سے وہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر تھے ۔ اب ہمیں روایتی سوچ کا زاویہ بدلنا ہو گا ۔ ہمیں وقتی اشتعال ، فوری الزام اور جذباتی تقاریر سے سحر سے نکل کر تحقیق اور تصدیق کی جانب سفر شروع کرنا ہو گا ۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تومذہب کے غلاف میں لپٹی مفاداتی تقریر کی کوئی سلگتی لکڑی ہمیں آگ لگا کر کسی مشال کا خون کروا دے گی اور یہ ضروری نہیں کہ اگلا مشال آپ کا اپنا بچہ نہ ہو ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں