The news is by your side.

شامی بُحران‘ عالمی امن کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی

مارچ سنہ 2011ء میں شام کی جنوبی شہر دیرہ میں کچھ لڑکوں کو  محض سکول کی دیوار پر انقلابی نعرے لکھنے کی پاداش میں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جسکے بعد  شام بھر میں جمہوریت کے حق میں عوامی مظاہرے شروع ہو گئے۔ بشار الاسد حکومت کی سیکورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائر کھول دیا جس سے بے شمار شامی شہری لقمہ اجل بنے۔ اِس بد امنی کے نتیجے میں پورے ملک میں  بشار الاسد کے مستعفی ہونے کیلئے مظاہرے شروع ہو ئے اور حکومت مخالف قوتیں نہ صرف اپنی حفاظت کیلئے ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہو گئیں بلکہ اپنے اپنے علاقوں سے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو  بھی بے دخل کرنے میں بر سرِ پیکار نظر آنے لگیں۔ اِسکے برعکس حافظ الاسد( جو شام کے تقریباً اُنتیس برس تک صدر رہے) کے بیٹے بشار الاسد کے سر پر جوں تک نہ رینگی اور وہ بیرونی طاقتوں( مثلاً ایران ، روس) کے ساتھ ملکر اپنے ملک کے اندر جاری بد امنی اور انارکی کی صورتحال سے نمٹنے کا اعادہ کرتے ہوئے دکھائی دیے۔

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شام بھر میں پُر تشدد کاروائیوں میں اضافہ ہوتا گیا اور پورا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں چلا گیا۔ نتیجتاً متعدد باغی بریگیڈ حکومتی فورسز سے اپنے شہروں اور قصبوں کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے بیرونی طاقتوں مثلاً امریکہ، سعودی عرب وغیرہ کی درپردہ مدد سے وجود میں آتے چلے گئے اور یوں یہ جنگ سنہ 2012ءمیں شام کے دارلحکومت دمشق اور دوسرے بڑے شہر الیپو(حلب) تک جا پہنچی۔

واضح رہے کہ شام میں جاری اَب یہ جنگ بشارالاسد کے حامیوں اور مخالفوں سے بڑھ کر کچھ اور پیچیدہ اشکال اختیار کر چکی ہے جن میں فرقہ ورانہ تصادم کے علاوہ شام میں داعش کا ظہور شامل ہے۔

علاوہ ازیں، شام گزشتہ چھ برسوں سے افغانستان کی طرح علاقائی اور عالمی طاقتوں (مثلاً سعودی عرب، فرانس، روس، امریکہ، ایران اور ترکی) کی براہ راست مداخلت کیوجہ سے مسلسل حالتِ جنگ میں ہے۔  امریکہ پر اِس ضمن میں ایک الزام یہ بھی لگایاجاتا ہے کہ وہ اسرائیل کو تحفظ دینے کیلئے شام کو کمزور کر رہا ہے۔ مگر واضح رہے کہ گزشتہ کئی برسوں کی کوششوں کے باجود امریکہ اور اسرائیل شام میں اپنے کسی ایک ایجنڈے(مثلاً فلسطینی تحریکوں کو شام سے بھگانےاور شام کی ایران سے سفارتی دوری وغیرہ) کو بھی عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے ہیں۔ اُدھر صیہونی غاصب ریاست یعنی اسرائیل جو کہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں (شام کو بطورِ کوریڈور استعمال کرتے ہوئے) اپنے قبضے کے ناپاک خواب دیکھ رہی تھی وہ بھی چکنا چور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جس کی مثال پلمیرا(شام) میں اسرائیلی طیاروں کے حملے کی کوشش ہے جس کو شام نے جوابی کاروائی کے نتیجے میں دو اسرائیلی طیاروں کو نقصان پہنچاتے ہوئے ناکام بنا دیا۔

مفسرین اور تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق شامی فوج کے شانہ بشانہ کئی ممالک کی عوام بغاوت کو کچلنے کیلئے سرگرم عمل ہے جن میں افغانستان، یمن، ایران، لبنان اور عراق سر فہرست ہیں۔ خیال رہے کہ ایران شام کا بہت قریبی اتحادی ملک ہے جو شامی حکومت کو بچانے کیلئے فوجی و مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔ اِسکے برعکس ُترکی شام میں کُرد باغیوں سے متعلق اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے پیش نظر مصروفِ عمل ہے کہ کہیں شام نسلی بنیادوں پر منقسم نہ ہو جائے اور شامی کُرد، تُرکی کےکُردوں کے ساتھ مل کرکہیں علحیدگی کی مہم نہ شروع کر دیں، خیال رہے کہ کُردوں کی ایک بڑی تعداد ترکی کی جنوبی سرحد کی ساتھ بھی آباد ہے۔

واضح  رہے کہ شامی بُحران سے اِس کی نصف سے زائد آبادی متاثر بتائی جاتی ہے ۔ ایک شامی تھنک ٹینک “سیریئن سینٹر فار پالیسی ریسرچ” کے مطابق شام میں جاری خانہ جنگی کیوجہ سے اَب تک تقریباً چار لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اور اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق تقریباً  4.8 ملین شامی  اِس بحران کی وجہ سے دیگر ممالک میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے جن میں شام کے ہمسایہ ممالک لبنان، ترکی، عراق، اُردن وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ دیگر مہاجرین نے یورپ کا رُخ کیا۔ اِسی لئے کہا جاتا ہے کہ شام کے ہمسایہ ممالک شامی خانہ جنگی سے براہ راست متاثرہو رہے ہیں۔ کیونکہ یہ ممالک اِن مہاجرین کی دیکھ بھال کیلئے اضافی مالی بوجھ برداشت کرنے کے علاوہ انتظامی نوعیت کے بحرانوں سے بھی گزر رہے ہیں۔ مثلاً عالمی بینک کے مطابق اُردن اِن مہاجرین کیوجہ سےتقریباً 2.5 بلین ڈالر کا اضافی بوجھ برداشت کررہا ہے۔  لبنان اور عراق کی معاشی حالت کا تو سب کو علم ہی ہے مگر یاد رہے کہ تُرکی بھی مزید  شامی مہاجرین  کو پناہ دینے سے معذرت کر چکا ہے۔

علاوہ ازیں،عالمی بینک کی سنہ 2014ء کی ایک رپورٹ کے مطابق شام کے چھ شہروں (حلب، حمص، درعا، ادلب، لاذقیہ اور حما) میں ہونے والے نقصان کا تخیمہ تقریباً 3.6 سے 4.5 بلین ڈالر تک لگایا گیا ہے۔ جو کہ وہاں پر موجود ایک بڑے انسانی و مالی بُحران کی طرف یقینی طور پر اشارہ کرتا ہے۔ بلا شبہ شام میں لوگ غذائی قلت اور جان بچانے والی ادویات کی کمی کا شکار ہیں۔ اور اِسی وجہ سے خانہ جنگی سے متاثر شدہ شامی عوام عالمی توجہ اور فوری امداد کی منتظر دکھائی دے رہی ہے۔

مزید براں، شام کے بُحران میں حالیہ تین بڑے واقعات جو کہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر طاقت کے توازن کے تعین کے اعتبار سے انتہائی اہم گردانے جارہے ہیں جن میں پلمیرا میں ناکام اسرائیلی حملہ ،خان شیخون کاکیمیکل پروپیگنڈہ،اور الشعیرات ائیربیس پر ناکام امریکی میزائل حملہ شامل ہیں۔ ایک بات جو تواتر کے ساتھ متعدد   جید تجزیہ نگاروں کی جانب سے دہرائی جاتی رہی ہے وہ یہ ہے کہ اَب پوری دنیا کے مستقبل کا فیصلہ شامی بُحران سے جڑا ہوا ہے۔  ٹوٹتے، بگڑتے اورنئے بنتے اتحاد، دنیا کی مرکزیت بشمول طاقت کے توازن کا انحصار الغرض سب کچھ  اَب شامی بحران کے ساتھ منسلک سمجھا جا رہا ہے کیونکہ مشرقِ وسطیٰ اَب امریکہ اور اُسکے اتحادیوں کی شام میں براہ راست مداخلت کے باوجود، اُنکےہاتھوں سے پھسلتا ہوا معلوم ہو رہا ہے۔ جبکہ اِسکے برعکس روس بڑے طویل عرصے کے بعد عالمی منظر نامے کا رُخ بدلنے کیلئے مشرق وسطیٰ میں ایک اہم کردار کے طور پر سامنے آیا ہے۔

یاد رہے کہ مغربی ممالک کی کڑی تنقید کے باجود روس نے شام میں اپنی فوجی کاروائیوں کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ روس کی موجودگی کیوجہ سے مغربی قوتیں شام میں باغیوں کی  بھر پور مدد نہ کر سکیں۔ اِسی بات کی تائید ماسکو (روس) کے ایک تھنک ٹینک”کارنیگی سینٹر”  نےیہ انکشاف کرتے ہوئےکی کہ روسی جنگی مشیر بھی اپنے انتہائی مفید مشوروں کے ساتھ جنگی حالات میں شامی فوج کی راہنمائی کر رہے ہیں نیز گزشتہ سال روس ہی کی بھرپور ہائی ٹیک فضائی قوت کے استعمال کیوجہ سے حلب(شام) پر شامی فوج کی چڑھائی اور قبضہ ممکن ہوا۔ اور جسے روس نے اکتوبر میں انسانی ہمدردی کے پیشِ نظر روک دیا تھا مگر اُس وقت تک باغیوں کی جڑیں اِس قدر ہل چکیں تھیں کہ وہ اپنے مورچوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور اِس سے شامی حکومت کو  کافی حوصلہ ملا۔

المختصر، روس مشرقِ وسطیٰ میں گز شتہ چند سالوں میں پھر سے ایک اہم فریق بن کر اُبھرا ہے جو کہ (جنوری 2017ء کے اوائل میں )روسی افواج کے چیف آف جنرل سٹاف ویلری گریسیموو کے بیان سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ روسی ایویشن شام میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پراَب تک تقریباً19160کومبیٹ مشن اور 71000 کے قریب فضائی حملے کر چکی ہے۔ جس سے شام میں بڑھتے ہوئے “روسی عسکری کردار” کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ مگر خیال رہے کہ اِن عالمی اور علاقائی طاقتوں کے شام میں اپنے اپنےمفادات سے قطع نظر، اَب بین الاقوامی برادری بالخصوص اُمتِ مسلمہ کو شام میں خانہ جنگی سے جنم لینے والے انسانی بُحران سے نمٹنے کیلئے فی الفور اقدامات لینے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ شام میں تقریباً 5 لاکھ لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں جس کے باعث سینکڑوں افراد کی موت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔  اور واضح رہے کہ متعدد عالمی جریدے اِس بُحران کو  تیسری عالمی جنگ کے آغاز کے پسِ منظر میں رپورٹ کر رہے ہیں جو یقینی طور پر معاملے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے کہ شامی بُحران کس طرح عالمی امن کیلئے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں