محرومیوں نے رانی کا زندگی بھر پیچھا کیا – 27 مئی کو تیری یادیں ہمیں ستاتی ہیں
دنیا میں خوب صورتی کی کمی نہیں، بس دیکھنے والی نگاہ کا ذوق اعلیٰ ہونا چاہیئے۔ خوب صورت دلکشی کا نمونہ تاج محل آج بھی اس دنیا میں موجود ہے مگر ابتدائی مراحل میں تاج محل اتنا دلکش نہیں تھا، جتنا اب ہے۔ صدیاں بیت گئیں مگر آج بھی اس کا حسن چاند کی طرح چمکتا دمکتا ہے۔
ایسی ہی ایک اور مثال جو کبھی بہت حسین تھی اور الفاظ اس کے احترام میں دست بستہ آج بھی قطار بنائے کھڑے ہیں، جب وہ اپنے عروج کو پہنچیں تو دیکھنے والوں کی قطار تاج محل سے کم نہ تھی۔ جب تک کوئی آرٹسٹ اپنی تخلیقی صلاحیتوں میں حسن کے تمام رنگ نہیں بھردیتا اس کی تصویر ادھوری رہتی ہے۔
رانی مرحومہ کو ہم سے جدا ہوئے کئی برس گزر چکے ہیں۔ وہ خود اپنی ذات میں انجمن تھیں۔ ابتدائی دنوں میں رانی ایک عام سی لڑکی تھیں اور ناکامیاں ان کا مقدر ہو کر رہ گئی تھیں۔ ناکامی کی مختلف آوازیں ان کے کانوں پر دستک دیتی رہتی تھیں لیکن وہ پرامید تھیں کہ ایک دن وہ لاڈ والی اداکارہ بن جائیں گی اور پھر وہ واقعی لاڈ والی اداکارہ بن گئی تھیں۔
اداکارہ رانی نے 1941ء میں بلال ٹھڈا نامی شخص کے ہاں جنم لیا۔ اس گھر میں فاقوں اور غربت کا ڈیرہ تھا۔ ٹھڈا کی بیوی بالی نے رانی کی پیدائش کے بعد طلاق حاصل کر کے ایک شخص حق سے شادی کرلی جو لاہور کی ایک با اثر خاتون مختار بیگم کے ہاں ڈرائیور تھا۔ حق اپنی بیوی بالی اور اس کی بیٹی ناصرہ (رانی) کو مختار بیگم کے ہاں لے آیا تھا۔ مختار بیگم کے بارے میں بتا دیتے ہیں کہ ان کی بہن گلوکارہ فریدہ خانم ہیں۔ مختار بیگم بہت اثر و رسوخ والی خاتون تھیں۔ انہوں نے ناصرہ (رانی) کو بڑی محبت سے پالا، تہذیب اور شائستگی کے تمام پہلوﺅں سے روشناس کروایا۔
مختار بیگم ایشیاء کے نامور مصنف اور ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کی بیوہ تھیں۔ جب رانی 14 سال کی ہوئی تو اسے مختار بیگم نے انور کمال پاشا کے حوالے کردیا۔ انہوں نے اداکارہ رانی کو اپنی فلم ’محبوب‘ میں سیکنڈ ہیروئن کے طور پر حبیب، شمیم آراء اور یوسف خان کے بالمقابل کام کرنے کا موقع دیا اور یوں (ناصرہ) رانی بن کر فلم انڈسٹری میں داخل ہوگئی۔
یہ فلم بری طرح فلاپ ہوئی لیکن ابھی انڈسٹری کے کرتا دھرتاؤں کو معلوم نہیں تھا کہ وہ مختار بیگم کی منہ بولی بیٹی ہے، اسے تو فلمیں ملنی تھیں۔ ناکامی کے باوجود آغا جی اے گل نے اپنی فلم ’اک تیرا سہارا‘ میں پھر اسے موقع دیا۔ اس فلم میں شمیم آراء اور درپن تھے، جس کے ہدایت کار شمیم نقوی تھے، یہ فلم بھی ناکامی کا شکار ہوئی۔
سنہ 1964ء میں اداکار سید کمال اور رانی فلم ’چھوٹی امی‘ میں کاسٹ ہوئے، جس کے ہدایت کار وزیر علی تھے۔ اس فلم سے رانی اور کمال ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ اداکار کمال نے اپنی ذاتی فلم ’جوکر‘ میں رانی کو ہیروئن لیا تھا۔ جوکر فلاپ ہوگئی، اس کے بعد اداکار کمال نے رانی سے قطع تعلق کرلیا اور انہوں نے گھریلو خاتون سے شادی کرلی۔
راقم کی ایک ملاقات اداکارہ رانی سے آغا خان اسپتال میں ہوئی تھی، جب وہ بیمار تھیں۔ میں آج تک ان کی شفقت اور پرخلوص گفتگو کو نہیں بھول سکا۔ دھیمے دھیمے لہجے میں گفتگو ان کی شخصیت کی آئینہ دار تھی۔ انہیں اس وقت کے شوبزنس کے صحافیوں سے شکایت تھی کہ یہ نوجوان طبقہ سینئر آرٹسٹوں کو نہیں لکھتا۔
ان کی آنکھوں کی ویرانی بتارہی تھی کہ وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں مگر بڑی باہمت خاتون تھیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ میں کینسر کی مریضہ ہوں، چند دن کی زندگی ہے پھر نہ انجمن ہوگی اور نہ رانی کی تہذیب ہوگی۔ انہوں نے گلہ کیا کہ کراچی کے صحافیوں نے میری عیادت تک نہ کی، کتنا دکھ ہورہا ہے مجھے۔ سینئر صحافی جن میں الیاس رشیدی اور اسد جعفری شامل ہیں۔ بس یہی لوگ میرے غموں کو سہارا دینے آئے یا آپ آئے ہیں۔ (انہوں نے جذباتی ہو کر بیٹا کہا) اپنے قلم کو اپنا ایمان سمجھنا، جب انسان کا ایمان سلامت رہتا ہے تو وہ آخرت میں بھی سرخرو ہو کر اٹھتا ہے۔
ماضی کے حوالے سے دیکھا جائے تو رانی بہت زیادہ کامیاب زندگی نہیں گزار سکیں۔ ماضی میں ایک فلم ’اک دل اور دیوانے‘ ہدایتکار وزیر علی نے بنائی تھی، جس میں رانی نے مرکزی کردار ادا کیا تھا، یہ فلم بھی بری طرح فلاپ ہوئی جبکہ بھارت میں اس سے قبل ایک فلم ’پروین‘ بنائی گئی تھی، جس کا چربہ ’اک دل اور دیوانے‘ تھی نے بھارت میں سپرہٹ بزنس کیا تھا۔ یہ دور رانی کی زندگی کی ناکامیوں کا دور تھا۔ دوسرے پروڈیوسرز حضرات نے رانی کو وحید مراد کے ساتھ یکجا کرکے بھی دیکھا مگر وحید مراد بھی رانی کی وجہ سے ناکامی کا کئی مرتبہ شکار ہوئے۔
ایس اے حافظ نے ایک نئی فلم ’شبنم‘ بنائی، جس میں محمد علی اور زیبا کے علاوہ رانی کو بھی کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ اداکارہ رانی کے کیرئیر کی پہلی فلم تھی جو درمیانے درجے کا بزنس کرسکی، اس کے بعد پھر فلاپ فلموں کی لائن لگ گئی، جن میں ’یہ جہاں والے‘، ’عورت‘، ’صنم‘، ’شطرنج‘، ’سفید خون‘، ’عورت کا پیار‘، ’چھوٹی امی‘، ’بیس دن‘ اور ’جوکر‘ شامل ہیں۔ فلم ”جوکر“ کے زمانے میں ہی کمال اور رانی نے اعلان کیا کہ فلم کی نمائش کے دن رانی اور کمال نشاط سنیما آرہے ہیں. اس خوشی میں بینڈ باجے منگوائے گئے لیکن ان تمام تر کارروائیوں کے باوجود اقبال یوسف مرحوم کی ہدایت کاری بھی فلم کو نہ بچاسکی۔
سنہ 1968ء میں رانی کی زندگی میں بہار کا جھونکا بن کر حسن طارق مرحوم آئے اور چھا گئے۔ حسن طارق کا شمار نامور ہدایت کاروں میں ہوتا تھا۔ وہ بھی رانی کو لے کر ایک فلم ’تقدیر‘ بنانے کے لیے میدان میں اترگئے جس میں حسنہ بھی شامل تھیں مگر مزے کی بات دیکھیں کہ سنتوش کمار اور حسن طارق کی تقدیر بھی مل کر فلم ’تقدیر‘ کو کامیاب نہ کروا سکی لیکن اس فلم کے دوران حسن طارق نے اپنے دل کا حال رانی سے آنکھوں آنکھوں میں کہہ دیا۔ جس کی وجہ سے رانی، حسن طارق کے قریب سے قریب تر ہوتی گئیں جبکہ حسن طارق پہلے سے شادی شدہ تھے اور وہ اپنی پہلی بیوی ایمی نیوالا سے شدید محبت کرتے تھے مگر جب رانی مرحومہ ان کی زندگی میں آئیں تو ہواﺅں کا رخ بدل گیا اور حسن طارق رانی کے ہو کر رہ گئے۔
انہوں نے رانی کی محبت میں سرشار ہو کر ایمی نیولا سے ناطہ توڑ لیا اور رانی سے شادی کرلی۔ یہ رانی کی پہلی شادی تھی۔ فلم ’تقدیر‘ کی ریلیز کے بعد رانی کی کئی فلمیں اوپر تلے فلاپ ہوگئیں۔ اس کے باوجود رانی نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل جدوجہد میں لگی رہیں۔
اداکارہ رانی کی ایک فلم ’دیور بھابی‘ جس میں ان کے ہمراہ وحید مراد اور سنتوش بھی تھے نے سپرہٹ بزنس کیا۔ لوگوں نے کہا کہ حسن طارق سے جوڑی بن جانے کے بعد اب رانی ناکامی کے سحر سے نکل گئی ہیں مگر یہ لوگوں کی خام خیالی تھی۔ ’دیور بھابی‘ کے بعد فلم ’کافر‘، ’بے رحم ظالم‘، ’چھین لے آزادی‘، ’ندامت‘ نامی فلمیں بری طرح فلاپ ہوئیں۔
سنہ 1969ء میں رانی کی ایک اور فلم ’دیا اور طوفان‘ جس کے ہدایت کار، اداکار رنگیلا تھے ریلیز ہوئی اور اس فلم نے ریکارڈ بزنس کیا۔ اس فلم کی کامیابی کا سہرا صرف اور صرف رنگیلا کے سر تھا۔ اس فلم نے ’رنگیلا‘ کو بڑے ہدایت کاروں کی صف میں لاکھڑا کیا مگر رنگیلا نے ہر شخص کو حقیر سمجھنا شروع کردیا لیکن تکبر خدا کو پسند نہیں آیا پھر وہ وقت بھی آگیا کہ رنگیلا کی ’کبڑا عاشق‘ ریلیز ہوئی اور بری طرح ناکام ہوگئی، جس کے بعد فلم سازوں نے رنگیلا کا نام لینا چھوڑ دیا۔
رانی کی کامیاب فلموں میں ایک کامیاب فلم کا بڑی مشکل سے اضافہ ہوسکا۔ اس فلم کے بعد رانی کی ایک اور فلم ’مکھڑا چن ورگا‘ آئی۔ رانی کی کامیاب فلموں کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی وابستہ رہی۔ فلم ’مکھڑا چن ورگا‘ کی کامیابی کے پیچھے نغمہ اور حبیب کی رومانس کی خبریں روزانہ پریس میں شائع ہو رہی تھیں۔ اس فلم میں نغمہ نے حبیب کے ساتھ بڑی آزادانہ اداکاری کی تھی اور یہی وہ فلم تھی جس میں ان دونوں نے شادی کرلی تھی۔
پنجابی فلموں میں بھٹی برادران کی فلم ’چن مکھنا‘ نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس میں رانی کے ہیرو عنایت حسین بھٹی تھے۔ یہ فلم صرف اور صرف رانی کے بل بوتے پر کامیابی سے ہمکنار ہوئی، اس کے بعد تو رانی کی کامیابی کی ایک طویل فہرست ہے، جسے بیان کرنا مشکل ہے۔ ’انجمن‘، ’امراؤ جان ادا‘ اور ’ثریا بھوپالی‘ میں رانی نے منفرد اداکاری کی۔ ’ثریا بھوپالی‘ کو وہ پذیرائی حاصل نہ ہوسکی مگر ’انجمن‘ اور ’امراؤ جان ادا‘ کی سپر ہٹ کامیابی نے رانی کو صف اول کی اداکارہ بنادیا۔ رانی کو صف اول کی ہیروئن بنانے میں حسن طارق مرحوم کا ہاتھ تھا جبکہ اس کے برعکس ماضی میں کوئی فلمساز و ہدایتکار صرف رانی کے بھروسے پر فلم نہیں بناتا تھا۔
رانی کے کیرئیر میں ’بیگم جان‘ اور ’مریم مارگریٹ‘ جیسی فلمیں بھی ہیں، اس کے علاوہ ’ایک گناہ اور سہی‘ رانی کی زندگی کی لازوال فلموں میں شمار کی جاتی ہیں۔ فلم ’ناگ منی‘ میں اداکار وحید مراد کے ساتھ اداکارہ رانی امر ہوگئیں۔ رانی کے نصیب میں ناکامیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، جس طرح شروع شروع میں فلمیں فلاپ ہوئیں، اسی طرح رانی کی پہلی شادی جو حسن طارق کے ساتھ ہوئی تھی، وہ بھی ناکام ہوئی۔
اداکارہ رانی دل برداشتہ ہو کر خاموشی کی زندگی گزار رہی تھیں کہ فلم ساز (فیصل آباد) جاوید قمر نے رانی سے شادی کرلی۔ جاوید قمر سے شادی کے بعد رانی بیمار ہوگئیں اور جاوید قمر نے رانی کو طلاق دے دی۔ رانی علاج کی غرض سے لندن چلی گئیں۔ ابھی غریب کے نصیب میں ٹھوکریں باقی تھیں کہ ایک ٹھوکر سرفراز کی صورت میں اور لگی، لندن میں رانی کی ملاقات کرکٹ کے نامور کھلاڑی سرفراز نواز سے ہوئی اور یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے۔
سنہ 1983ء میں اداکارہ رانی نے تیسری اور آخری شادی سرفراز نواز سے کرلی۔ رانی کی ایک بیٹی رابعہ حسن ہیں جو حسن طارق سے ہے اور شادی شدہ ہے۔ رانی اور سرفراز نواز کی زندگی پرسکون گزر رہی تھی کہ نہ جانے کیسے رانی کے فن نے دوبارہ انگڑائی لی۔
سنہ 1992ء میں رانی دوبارہ شوبزنس سے وابستہ ہوگئیں اور پی ٹی وی کی سیریل ’خواہش‘ سے اپنے فن کا دوبارہ آغاز کیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ سرفراز نواز، رانی کے شوبزنس میں آنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، یہاں ان دونوں کے درمیان اختلافات ہوگئے۔ ابھی یہ ڈرامہ آن ایئر بھی نہیں ہوا تھا کہ ان دونوں کی طلاق کی خبریں آنا شروع ہوگئیں پھر دونوں طرف سے اس کی تردید بھی ہوئی، اس دوران رانی نے اپنی بیٹی رابعہ حسن کی شادی کردی۔ شادی کے فوراً بعد سرفراز نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے رانی کو طلاق دے دی۔
یہ صدمہ کم نہیں تھا (شوبزنس میں فلم خواہش کا نام بہت سے گھر اجاڑ گیا، جس میں فلم خواہش کے ہدایت کار نذرالاسلام مرحوم، اقبال یوسف بھی فلم خواہش کا کام لندن میں کر رہے تھے کہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور سیریل خواہش نے ہم سے رانی کو چھین لیا) سیریل خواہش کے بعد رانی نے ایک اور سیریل ’فریب‘ میں کام کیا۔ اس سیریل میں انہیں کینسر ہوچکا تھا۔ یہ بات رانی نے خود ہمیں بتائی تھی۔
مئی کے اوائل میں رانی کراچی کے آغا خان اسپتال میں داخل ہوگئیں۔ وہ بستر مرگ پر تھیں۔ چند دنوں میں کینسر جیسے موذی مرض نے رانی کو چاروں طرف سے گھیرلیا اور آخر کار انڈسٹری کی رانی جو اس جہاں کی رانی تھیں، مورخہ 27 مئی 1993ء کی رات ساڑھے بارہ بجے اس معاشرے کی انجمن اور تہذیب کو چھوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔
بقول شاعر کے۔۔
مقدر میں جو سختی تھی وہ مر کر بھی نہیں نکلی
لحد کھودی گئی میری تو پتھریلی زمین نکلی
اداکارہ رانی جدوجہد کی کتاب تھیں، جو ہمیشہ ناکامیوں اور نامرادیوں کے حصار میں رہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ مرحوم وحید مراد اور رانی کی موتیں کتنی ملتی جلتی ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ خداوند کریم انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔۔ آمین!