The news is by your side.

مجموعی ملکی صورتحال آخر اَب کس بات کی متقاضی ہے؟

واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان آئندہ 5 سے 10 برسوں کے دوران امریکہ اور روس کے بعد جوہری ذخائر رکھنے والا تیسرا بڑا ملک بن جائے گا۔ مگر پھر بھی یہ تلخ حقیقت ہمارا منہ چڑھانے کے لئے کافی ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں بھی بجلی جیسی بنیادی ضرورت کی عدم دستیابی کے باعث ہر سال گرمیوں میں جھلستے رہتے ہیں۔ اور بجلی ہے کہ دن بدن نایاب اور مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ پاکستان کے  برعکس بھارت پلوٹونییم ،جو کہ زیادہ طاقت والے وار ہیڈ کے لئے درکار ایندھن تصور کیا جاتا ہے کا زیادہ استعمال مقامی سطح پر توانائی کی پیداوار کے لئے کرریاہے۔

اور یہی نہیں پاکستان دن بدن قرضوں کے بھاری بھرکم بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ آئی یم ایف کے مطابق ہر پاکستانی اوسطً ایک لاکھ چار ہزار روپے کا مقروض ہے جبکہ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان پر واجب الادا قرضوں کا بوجھ رواں مالی سال کے اختتام پر 79  ارب ڈالر تک پہنچ جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ جب کہ موجودہ دور حکومت میں پاکستان پر واجب الادا قرضوں میں مجموعی طور پر 14 ارب ساٹھ کروڑ ڈالر  کا اضافہ ہوا ہے جو کہ ملکی معاشی کمزوری اور ناکام اقتصادی پالیسیوں کا مظہر ہے۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی فضاء بلا شبہ پاکستانی معیشت کے لئے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے نیز ترسیلات زر ، برآمدات میں کمی اور درآمدات اور حکومتی قرض گیری میں اضافے کے باعث ملکی بیرونی کھاتوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے ۔جس کی وجہ سے  موڈیز نے پاکستان کی مالیاتی پوزیشن کو نہ صرف منفی بلکہ اسے ہائی رسک قرار دیا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود ہمارے اعلٰی ایوانانِ اقتدار میں اس گھمبیر صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی ہلچل تاحال دکھائی نہیں دی ‘ ماسوائےاس کے کہ مہنگائی کی چکی میں پسے  ہوئی عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا جائے۔

اس ناقص معاشی صورتحال کے ساتھ ساتھ پاکستان کو نازک داخلی اور شرمناک خارجی صورتحال کابھی سامنا ہے۔جس کا ادراک بڑے پیمانے پر ملکی اور غیر ملکی جرائد نے اپنے متعدد شماروں میں بھی کیا  ہے۔ حالیہ اسلامی کانفرنس میں افغان صدر اور بنگلہ دیشی وزیراعظم سعودی حکمرانوں کے بغل گیر رہے مگر اسلامی ممالک میں واحد جوہری طاقت رکھنے والے ملک کے وزیر اعظم دوردور  تک کہیں پر بھی دکھائی نہیں دیے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات تو دور ان کی اسلامی کانفرنس میں تقریر بھی منسوخ کر دی گئی۔ جو یقیناً پاکستان کے لئے باعث شرمندگی ہے۔ چونکہ  اس اسلامی کانفرنس کا منشور انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے تھا اور پاکستان نے جس طرح پہلے سوات پھر اپنی قبائلی ایجنسیز سے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ لہٰذا  ان حقائق کے پیش نظر پاکستانی وزیر اعظم کی تقریر اتنے بڑے فورم پر انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستانی کاوشوں کو اجاگر کرنے میں نہایت معاون ثابت ہوتی ۔

یاد رہے کہ اس سے قبل ورلڈ اکنامک فورم ڈیوس میں تقریباً 45 ممالک کے سربراہان مملکت نے تقریر کی تھی۔  مگر جب ہمارے وزیراعظم کی باری آئی تو ان کی تقریر منسوخ کرا دی گئی کیونکہ وہاں زیربحث موضوع ’کرپشن‘ تھا۔یہی نہیں ہمارے محترم وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے ساتھ بھی گزشتہ سال امرتسر (بھارت) میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے بعد بدسلوکی کی گئی جس کی وجہ سے انہیں فوراً وطن واپس آنا پڑا تھا۔

پاکستان کی اس جگ ہنسائی کے پیچھے بہت سے محرکات کارفرما ہیں جن میں سرفہرست ذاتی و ریاستی معاملات میں تفریق نہ کرنا ہے۔ یہ نہایت ضروری امر ہے کہ کسی بھی ملک کا لیڈر اپنے نجی تعلقات کو پس پردہ رکھ کر عالمی فورمز پر محض اپنے ملک کی عوامی امنگوں کے مطابق نمائندگی کرے۔

مزید براں، پاکستان کی داخلی و سیاسی صورتحال بھی کشمکش میں مبتلا دکھائی دیتی ہے جن میں کرپشن، ڈان لیکس، پانامہ کے معاملات کے علاوہ سوشل میڈیا کے حوالے سے متعلقہ قوانین آج کل ہرجگہ زیر بحث دکھائی دیتے ہیں۔ جس سے غیر ملکی سرمایہ کار بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہیئے کہ فی الفور ان مسائل کا عوامی خواہشات کے عین مطابق حل تلاش کرے تاکہ وطن عزیز کو مزید سفارتی و خارجی نقصانات  سے بچایا جا سکے۔ اورمیڈیا سمیت ریاستی مشینری اپنی تمام تر توانائیاں اورتوجہ عوامی بہبود سے متعلقہ مسائل کے نشاندہی اوران کے  حل کی جانب مرکوز کرسکیں۔

واضح رہے کہ دنیا کی بہترین 100 جامعات کی لسٹ میں کوئی بھی پاکستانی یونیورسٹی ابھی تک اپنی جگہ نہیں بنا پائی۔ اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ایچ ای سی( ہائرایجوکیشن کمیشن) کے زیر سایہ پی ایچ ڈی کرنے والے  تقریباً اڑھائی سو کے قریب  نوجوان نوکری نہ ملنے کی وجہ سے خود سوزی کی دھمکیاں دیتے  دکھائی دے رہے ہیں۔یقینی طور پر یہ صورتحال اس نظام کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے اور یہی بے روزگاری ،احساس محرومی جیسے عوامل نوجوان نسل کو ملک دشمن قوتوں کے چنگل میں دھکیلنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہماری تمام تر سیاسی جماعتیں ملک کو افراتفری میں جھونکنے سے نہ صرف گریز کریں بلکہ ملک کی معیشت کو بہتر کرنے کیلئے اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

کیونکہ یہ ملک کسی ایک سیاسی جماعت ،گروہ یا ادارے کا نہیں ہے بلکہ ہم سب کا ہے۔لہٰذا سب کو مل جل کر اپنے ملک کی ترقی کیلئے کام کرنا ہو گا۔ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا، الزام تراشی اور دوسرے کی خامیوں کو اچھال کر اپنی ذاتی پوائنٹ سکورنگ کرنے جیسی منفی سیاسی روش کو اب اپنی جمہوریت سے ہمیں نکال پھینکنا ہوگا۔پوری دنیا  اس وقت اپنی صنعت و تجارت کے استعداد کار کو بڑھانے اور تجارتی منڈیاں تلاش کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے کے مقابل نظر آتی ہے۔ اور ہم ہیں کہ ہمارے سیاسی مسائل ہی حل نہیں ہوتے۔ اس سب سے صرف نقصان پاکستان اور اس کی عوام کو پہنچ رہا ہے۔ یہ وقت ہے ہوش کے ناخن لینے کا نہ کہ ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کا۔

یہ بات  انتہائی قابل توجہ ہے کہ ہمارے تین سرحدیں( پاک بھارت، پاک افغانستان اور پاک ایران)  اب محفوظ نہیں رہیں۔ ایسے میں ہم کسی طور پر  اندرونی خلفشار کو فروغ دینے کے متحمل ہرگز نہیں ہو سکتے جس کا فائدہ سراسر ہمارے ازلی دشمن بھارت کو ہو جو پہلے سے ہی موذوں موقعے کی تلاش میں گھات لگائے بیٹھا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں