The news is by your side.

عوام رُل گئے لیکن بجٹ میں سب اچھا ہے

کالم کو کس طرح شروع کیا جائے اور اس کا آغاز کہاں سے کیا جائے کیونکہ عوام اس ملک میں رہنے والے افسروں اور عوامی نمائندوں کی قابلیت اور صلاحیت سے محروم ہوچکی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مفادات کے لئے اور حصول کے لئے اپنے قبلے کا تعین کرلیا ہے۔ سویلین افسران اور وہ نمائندے جنہیں آپ کندھوں پر بٹھا کر اسمبلی کا دولہا بناتے ہیں وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے مصلحت کی چادر اوڑھ کر مفادات کی لکیریں گن رہے ہیں اور قوم یہ سوچ رہی ہے کہ خواہشات کی رسی کتنی دراز ہوگی۔

اپوزیشن کے پاس شور مچانے کے علاوہ کوئی کام نہیں اور وہ اپنے ووٹرز کو یہ باور کراتی ہے کہ تمہارے مفادات کے لئے ہم نے جان کی بازی لگادی ہے، جو برسرِ اقتدار ہیں وہ سوچتے ہیں کہ جب ہم اپوزیشن میں آئیں گے تو گن گن کر بدلے لیں گے، فی الحال تو موج کرو۔ اپوزیشن عوام کی طرف سے بے مقصد تصادم کرکے اپنا اظہار رائے کرتی رہتی ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ الیکشن کے زمانے میں یہ منہ اور مسور کی دال کس منہ سے ووٹر کے پاس جائے گی۔

اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کا فقدان ہے، ان جاگیرداروں اور وڈیروں نے گاؤں اور دیہاتوں میں تعلیمی ڈھانچے کو تہس نہس کرکے رکھا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کی عوام تعلیمی شعور سے نا آشنا رہی اور ان معصوم لوگوں کی وجہ سے وہاں رہنے والوں کے ووٹوں کی مقناطیسی کشش کے تحت یہ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

شہر میں جو لوگ ہیں وہ یا تو ووٹ نہیں ڈالتے یا ڈالتے ہیں تو سیاسی فہم و فراست کے تحت جن کی زندہ مثال کراچی کی ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں یہاں کے لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیئے۔ 25 سال کے بعد ایک تبدیلی آئی کہ اس شہر سے عمران خان کے امیدوار اسمبلیوں میں پہنچ گئے مگر عمران خان قومی اسمبلی میں اچھی خاصی نشستیں ہونے کے باوجود اپنے حلقے کے لوگوں کی آواز موثر طریقے سے اسمبلی میں نہ اٹھاسکے اور نہ اچھی اپوزیشن کرسکے، جب وہ بلدیاتی الیکشن کا رُخ  کرنے پاکستان کے شہروں کی طرف آئے، جن میں کراچی سرِ فہرست تھا تو تعلیم یافتہ اکثریت نے انہیں2013ء والے ووٹ نہیں ڈالے مدِ مقابل امیدوار بھی کوئی بہت بھاری اکثریت سے نہ جیت سکے اور وہ تعلیم یافتہ طبقہ ووٹ ڈالنے گیا ہی نہیں۔

یہ جو کچھ عذاب اس قوم پر آرہا ہے وہ صرف اور صرف اس لئے ہے کہ معصوم اور سادہ عوام جو دیہاتوں میں رہتی ہے ان کی وجہ سے یہ پھر اسمبلیوں میں پہنچ کر شادیانے بجاتے ہیں اور پھر مسائل اپنی جگہ رہتے ہیں۔ قوم کے لئے تو اپوزیشن اور برسرِ اقتدار لوگ ایک نہیں ہوتے، ہاں سیاست کرنے کے لئے اپوزیشن اپنا کردار برابر ادا کرتی ہے جو مصنوعی ہوتا ہے، جب اسمبلی ممبران کی مراعات کی بات ہوتی ہے تو یہ عوامی مفادات پسِ پشت ڈال کر ایک ہوجاتے ہیں۔ یہاں تعلیم یافتہ طبقے کے سامنے ان کی قلعی کھل جاتی ہے کہ چاچا، ماما ایک ہوئے، کسی اپوزیشن لیڈر نے قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کی مراعات کے حوالے سے کبھی یہ نہیں کہا کہ اتنی مراعات پر ملک میں بحرانی کیفیت پیدا ہوگی جو اقتدار میں ہی ہیں وہ اسپیکر کے سامنے ڈیسک بجاتے ہیں مراعات پر اور جو اپوزیشن میں ہیں وہ بھی بغلیں بجاتے ہیں۔ آج کل اپوزیشن کے پاس کوئی موضوع نہیں تھا کہ بجٹ کا اعلان ہوگیا اور ان سب کی لاٹری نکل آئی کہ شکر ہے کہ ایک ماہ کا راشن تو مل گیا کیونکہ پاناما لیکس کا معاملہ برف ہوا۔

اب آتے ہیں بجٹ کی طرف کیونکہ راقم سیاسی لیڈر تو ہے نہیں۔ ہاں کچھ چیزوں پر روشنی ضرور ڈالوں گا کہ یہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور کیا اپوزیشن لیڈروں نے اس پر ایک لفظ بھی کہا جبکہ یہ ان کا کام تھا مگر ان اپوزیشن والوں کو معلوم ہے سامنے والے بھی جو برسرِ اقتدار ہیں، یہ ہمارے قبیلے کے لوگ ہیں۔ ہاں ایک جملہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ بجٹ عوام دشمن ہے۔ اب ان کو اس میں سے عوام کے لئے کچھ نکالنے کو نہیں مل رہا، بس جملہ ایک ہے کہ بجٹ مایوس کن ہے۔ اب اس میں کیا مایوسی کے پہلو ہیں وہ اپوزیشن کو تو نظر نہیں آرہے، کچھ باتیں ہم بتاتے ہیں کہ ہم بھی اس پسی ہوئی عوام کا ایک ذرہ ہیں۔

اپوزیشن نے فرینڈلی کردار ادا کیا ہے، کیا اپوزیشن اس پر روشنی ڈالنا پسند کرے گی۔ بجٹ میں کچھ اہم نکات ہیں اس پر نظر ڈالیں، دودھ مہنگا کردیا گیا، یہ دودھ6 ماہ کے بچے سے لے کر عمر رسیدہ فرد تک کے لئے زندگی میں بہت ضروری ہے اور اب دودھ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کریں گی، جس کے سدِ باب کا کوئی طریقہ کار نہیں ہوگا۔ پولٹری اور اسمارٹ فون سستے کردیئے گئے، مرغی اب بھی مہنگی فروخت ہوگی، کچھ دن کی بات ہے پھر یہ گائے کے گوشت کی قیمت میں فروخت ہوگی۔ اسمارٹ فون کا غریب سے کوئی تعلق نہیں، جسے یہ سیاست دان عام آدمی کہتے ہیں وہ تو غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔روز مرہ کی اشیاء پر وِدہولڈنگ ٹیکس کی شرح کو3.5 سے کم کرکے2.5 کردیا گیا جبکہ وزیر خزانہ عام آدمی سے ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ٹیکس ہر شہری کو دینا چاہیے یہ حب الوطنی کی نشانی ہے مگر عوام کو ریلیف بھی دیا جائے۔ قانون اپنی موت مرچکا، ہر جگہ لاقانونیت کے بادلوں نے بسیرا کر رکھا ہے جو ٹیکس دیتے ہیں وہ بھی اور جو نہیں دیتے وہ بھی لاقانونیت کے تحت زندہ ہیں۔

بجٹ میں 850 سی سی گاڑیوں پر عائد10 ہزار سے کم کرکے7500روپے ہزار سی سی کی گاڑیوں پر عائد شرح20 ہزار سے کم کرکے 15 ہزار روپے کردی گئی۔ 1300 سی سی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح30 ہزار سے کم کرکے25 ہزار روپے کردیا۔ اب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، غریب کا ان ٹیکسوں سے کیا واسطہ، مراعات یافتہ طبقے کو مراعات دے دی گئیں۔ پولٹری کی مشینری پر سیلز ٹیکس کی شرح کو17 فیصد سے کم کرکے7 فیصد کردیا، بتائیے 10 فیصد کی چھوٹ سے ہمارے کرتا دھرتا سمجھتے ہیں کہ مرغی کی صنعت پر بہت بڑا انقلاب آئے گا۔

یاد رکھیں مرغی کی قیمتیں پھر بھی کم نہیں ہوں گی کیونکہ چیک اینڈ بیلنس کرنے والے ادارے اپنی مستی میں مست ہیں۔ حکومت کچھ بھی کرلے چیک اینڈ بیلنس کا نظام تباہی کے کنارے لگ چکا ہے، کوئی پرسانِ حال نہیں۔ سیکیورٹی کے نام پر14کروڑ روپے کی اضافی گرانٹ مانگی گئی ہے، جس میں صدرِ پاکستان شامل ہیں جو وزیراعظم اور غیر ملکی سربراہان کے لئے استعمال کی جائے گی۔

یہاں اس ملک میں3 ہزار کے موبائل کے لئے گھروں کے چراغ بجھادئیے جاتے ہیں، قاتل پھر بھی گرفتار نہیں ہوتے۔ عوام کی سیکیورٹی ان کو نظر نہیں آرہی لوگ روز مرتے اور زخمی ہوتے ہیں۔ پنشن کی مد میں10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جو شخص5 گریڈ میں ریٹائر ہوا، اس کی تنخواہ میں 10 فیصد کی کیا حیثیت ہے۔ ایک محترم عمر رسیدہ صاحب نے مجھے بتایا کہ مجھے 14000 ہزار روپے پنشن ملتی ہے، اب اس 10میں فیصد کے اضافے سے انہیں1400 روپے بڑھتی ملیں گے۔ مہنگائی کا جن غربت کے مارے عوام کی نسوں میں رچ بس گیا ہے یعنی اب ان محترم کو15400 ملیں گے۔
اپوزیشن انتظار میں ہے کہ کب نیا شوشہ میدان میں آئے تاکہ قوم کے لئے پھر اس پراجیکٹ پر کام کیا جائے کیونکہ 2018ء کے الیکشن سر پر ہیں۔ جتنے بھی صبر کے نسخے ہیں وہ ان عمر رسیدہ لوگوں پر آزمائے جاتے ہیں، یہ عمر رسیدہ لوگ ایک خاموش اور صبر کرنے والا طبقہ ہے، یہ صرف آبدیدہ ہو کر اس کھوکھلے معاشرے کی مذمت کرسکتے ہیں۔

مضمون کے آخر میں ایک لطیفہ بھی آپ کو سنائے دیتے ہیں، پاکستان کی عوام کے لئے ایک بجٹ وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب نے پیش کیا مگر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کا شمار شاید پاکستانی عوام میں نہیں ہوتا یا پھر وہ اس اہمیت کے قابل نہیں تھے۔ EOBI اس بجٹ میں ایسے رہے جیسے دودھ میں سے مکھی نکالی جاتی ہے۔ یہ عمر رسیدہ افراد (پنشنر) اس اضافے سے محروم رہے۔ شاید اس بجٹ کے بعد مہنگائی کو بریک لگ جائے گا یا لگام دے دی جائے گی۔

بھلا بتائیے5250 روپے لینے والوں کو شاید وزیر خزانہ نے حقیقی امیر یا پھر مفلس سمجھ کر نظر انداز  کردیا، وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ یہ اختیار ان کے پاس صرف دنیا میں ہے مگر رب کو کیسے جواب دیں گے۔ اس نا انصافی پر EOBI ممبران نے ساری عمر اپنی تنخواہ سے ایک خطیر رقم حکومت پاکستان کو دی ہے اور اس بجٹ میں انہیں نظر انداز کیا گیا تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ ٹیکس اِس ملک میں غریب دیتا ہے اور عیاشی بیورو کریٹ، سیاست دان اُس مد میں کرتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں