اہم افراد کی سکیورٹی کے لئے دنیا بھر میں مختلف سکیورٹی پلان ترتیب دیئے جاتے ہیں ۔ ان میں سے عام طور پر کئی سکیورٹی پلان تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ہر بار لاگو ہوتے ہیں اور بعض اوقات حالات کی نوعیت کے مطابق نئے پلان بھی بنائے جاتے ہیں ۔ پاکستان میں عام طور پر اہم شخصیات کے سکیورٹی پلان میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اگر کوئی انہیں ٹارگٹ کرنا چاہے تو اس سلسلے میں ہونے والی ریکی اور اطلاعات کوناکام بنایا جائے ۔ اسی طرح یہ کوشش کی جاتی ہے کہ دوران سفر اجنبی لوگ ان کے نزدیک نہ ہوں ۔
اس سلسلے میں ایک تو روڈ پلان بنایا جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ پروٹوکول اور سکیورٹی پلان میں بہت فرق ہے اور ہم یہاں سکیورٹی پلان پر بات کر رہے ہیں ۔ بہرحال روڈ پلان میں ٹریفک پولیس کو لائن اپ کیا جاتا ہے ۔ اور ایسا پلان بنایا جاتا ہے کہ جس شخصیت نے اپنے گھر یا دفتر سے نکلنا ہے اسے خالی سڑکیں ملیں اور کہیں ہجوم میں پھنسنا نہ پڑے تاکہ کوئی ہجوم یا ٹریفک جام کا سہارا لے کر اس پر حملہ نہ کر سکے ۔ اس مقصد کے لئے ایک ایک سیکنڈ کا روڈ میپ بنتا ہے ۔ وہ شخصیت جب نکلتی ہے تو ایک منٹ پہلے اس کے راستے کے سوا اطراف کی سڑکوں پر اشارہ بند ہوتا ہے ۔ صرف اس کی سڑک کا اشارہ کھلا ہوتا ہے ۔ اس کے بعدوہ جس جس اشارے پر پہنچتا ہے اس سے اگلے اشارے پر وارڈن کو وائرلیس کے ذریعے باقی ٹریفک روکنے اور یہ راستہ کھولنے کا کہا جاتا ہے ۔ اس کی گاڑی گزرنے کے بعد پیچھے ٹریفک آنے دی جاتی ہے لیکن اس کی گاڑی کی سپیڈ اتنی رکھی جاتی ہے کہ ٹریفک آتی رہے لیکن اس تک نہ پہنچے ۔
زیادہ اہم شخصیت کے لئے ایسے دو تین راستوں کے ٹریفک پلان بنائے جاتے ہیں اور آخری وقت فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس نے کس راستے سے جانا ہے ۔ دوسرا سکیورٹی پلان یہ بنتا ہے (عام طور پر یہ شہر سے باہر سفر کے لئے ترتیب دیا جاتا ہے) کہ اس شخصیت کی گاڑی کی شناخت بدل دی جائے ۔ سفر کے لئے دو تین گاڑیاں مختص کی جاتی ہیں اور آخری وقت فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ کس گاڑی میں سفر کرے گا ۔ شہر سے نکلتے ہی گاڑی کی نمبر پلیٹ تبدیل کر دی جاتی ہے تاکہ اگر کسی نے شہر میں نمبر پلیٹ دیکھ کر اطلاع دی ہو تو وہ اطلاع غلط ثابت ہو جائے ۔ جتنا لمبا سفر ہو اتنی ہی نمبر پلیٹس تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور بعض اوقات کسی شہر میں گاڑی تک تبدیل کر دی جاتی ہے ۔ کس شہر میں کونسی نمبر پلیٹ لگائی جائے گی اس کافیصلہ پرسنل سٹاف کرتا ہے جو خود بھی اسی گاڑی میں ہوتا ہے ۔
آپ کو شہر میں بھی ایسی گاڑیاں نظر آئی ہوں گی جن کے نمبر جی ون ، جی تھری ، یا صرف اعدد پر مشتمل ہیں ۔ ان میں پولیس کے محافظ سکواڈ کی گاڑیوں کے نمبر بھی ہیں اور گورنر ہاؤس سے لے کر اہم دفاتر کی گاڑیوں کے نمبر بھی ہیں ۔ یہ ایک ترتیب سے کوڈ ہوتے ہیں جن کی شناخت کا علم سکیورٹی کو ہوتا ہے کہ کونسے ایسے نمبر کی گاڑی کہاں ہے ۔ مثلا گورنر ہاوس کی گاڑی جی سیریز کی ہوتی ہے ۔ مزنگ سکیورٹی کی گاڑی ایم ون نمبر کی ہو سکتی ہے ۔ اگر گاڑیوں کا قافلہ ہو تو زیادہ رسک کی صورت میں ایک ہی جیسی تین چار گاڑیوں میں سفر کیا جاتا ہے ۔ گاڑی کے شیشے کالے ہوتے ہیں اور یہ علم نہیں ہوتا کہ اہم شخصیت ان میں سے کس گاڑی میں ہے ۔ پاکستان میں کئی اہم شخصیات اسی سکیورٹی پلان کی وجہ سے بم دھماکوں میں زندہ بچی ہیں۔
ایسا پلان تک ترتیب دیاجا چکا ہے کہ ایک سکیورٹی تھریڈ کے دوران وزیر اعلی ٰ کا سکواڈ چلا تو درمیان میں تین مرسیڈیزتھیں جن میں سے کسی ایک میں وزیر اعلیٰ نے بیٹھنا تھا اور باقیوں میں ان کا ڈمی سٹاف ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعلی ٰان میں سے کسی ایک میں بھی نہیں تھے ۔ ان کے سکیورٹی سٹاف نے عین وقت پر انہیں پیچھے چلنے والی ایک پولیس جیپ میں بٹھا دیا تھا کیونکہ ٹارگٹ ہوتا تو پولیس سکواڈ کی اس بے ضرر سی جیپ کی بجائے مرسڈیزپر ہوتا۔
مریم نواز، بی ایم ڈبلیو موٹر سائیکل کے نام پر رجسٹرڈ ہونے کا انکشاف
ہمارےہاں ایک عام آدمی تو درکنار صحافیوں سے بھی اکثر اوقات ایسی باتیں چھپائی جاتی ہیں۔ شاید مجھے بھی علم نہ ہوتا اگر ماضی میں میرے والد محترم دوران سروس گورنر ہائوس تعینات نہ ہوئے ہوتے ۔ یہ سکیورٹی پلان عام طور پر دفاتر کے عام ستاف کے علم میں بھی نہیں ہوتے البتہ گورنر یا دیگر شخصیات کے پرسنل سٹاف اور سکیورٹی کو ان کا علم ہوتا ہے ۔
شاید آپ کو یاد ہو گا کہ ایک بار افتخار چودھری کے حوالے سےایسی ہی خبر چلی تو کسی رپورٹر نے ان سے سوال کر لیا ۔ ان کا جواب تھا کہ مجھے کیا پتا میرے سکیورٹی سٹاف سے پوچھیں کہ کیوں لگائی ہے ۔ چونکہ ہمارے صحافیوں کو اس سب کا علم نہیں تھا لہذا یہ ٹکرز بھی چلتے رہے کہ سابق چیف جسٹس کو اپنی ہی گاڑی کے نمبر کا علم نہیں ۔یہ شور میڈیا تک ہی رہا اور کسی ادارے نے اس پر ایکشن نہیں لیا کیونکہ انہیں معلوم ہے یہ روٹین کی سکیورٹی پریکٹس ہوتی ہے ۔
آپ پرویز خٹک سے لے کر نواز شریف تک کی گاڑیوں کے نمبر چیک کرتے جائیں آپ کو ہر بار ان کی گاڑی کا نمبر تبدیل شدہ ملے گا۔ حساس اداروں کو یہ تبدیل شدہ نمبر ہی بتائے جاتے ہی۔ جس شہر میں نمبر تبدیل کیا جائے وہاں کی سکیورٹی کو بھی تبدیل شدہ نمبر بتایا جاتا ہے اور شہر یا ریجن کی حدود سے نکلتے ہی ایک بار پھر نیا نمبر لگا دیا جاتا ہے تاکہ جنہیں پہلا نمبر معلوم تھا اب انہیں بھی علم نہ ہو ۔ مریم نواز کی گاڑیوں کے نمبر بھی اسی لئے تبدیل تھے ۔ باقی اہم شخصیات کی گاڑیوں کے نمبر بھی تبدیل کئے جاتے ہیں ۔
گاڑیوں کے نمبر ، سکیورٹی سکوارڈ ، اسلحہ کے معیار اور روٹ پلان کا تعلق شخصیات سے نہیں بلکہ سکیورٹی سٹاف سے ہوتا ہے ۔ یہ لوگ جب کسی تقریب میں تاخیر سے پہنچتے ہیں تو اصل ذمہ دار ان کا پرسنل سیکرٹری یا تقریب انتظامیہ ہوتی ہے جو انہیں اصل وقت کی بجائے کچھ دیر سے آنے کا بتاتی ہے ۔ یہ لوگ اپنے وقت پر ہی ہوتے ہیں ۔ وہ وقت جس کے مطابق انہیں پہنچنا ہوتا ہے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں۔