The news is by your side.

امن کی تلاش میں نکلے قانون شکن

    یہ کچھ پرانی بات ہے ۔ ہم چند صحافی اپنی ہی ریاست میں کسی اور ریاست کے مہمان تھے ۔ ابو ظہبی کے سلطان کی اس مہمان نوازی کی وجہ لگ بھگ ایک سال سے ہونے والا وہ مکالمہ تھا جس کا بنیادی موضوع ہوبارہ یعنی تلور کا شکار تھا ۔ان دنوں خاص طور پر پاکستانی میڈیا پر عرب شہزادوں کے پاکستان آنے اور شکار کرنے کے حوالے سے بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی تھیں ۔ پاکستان کے عرب ممالک سے سفارتی تعلقات خراب ہوتے نظر آرہے تھے جبکہ نریندرا مودی عرب ممالک میں بھرپور سفارت کاری کے جھنڈے گاڑ رہے تھے ۔

بطور صحافی ہماری ملاقاتیں چونکہ شیخ زید بن النیہان کے پاکستانی نیٹ ورک سے تھیں لہذا ہم ان سے شدید احتجاج کرتے تھے۔ جم خانہ کلب میں ہونے والی ان نشستوں میں کرنل رانا کمال الدین کئی نئی باتیں بتاتے لیکن ہم نہ تو ان کی سننے کے موڈ میں تھے اور نہ ہی بریگیڈیئر مختار کی باتوںپر یقین کرنا چاہتے تھے ۔ ہمارا کہنا تھا کہ پراپیگنڈے کے اس دور میں سنی سنائی باتوں اور چند تصاویر کے بل پر رائے قائم کرنا ممکن نہیں لہذافیصلہ ہوا کہ ہم خود صورت حال دیکھ کر آئیں گے ۔ ابو ظہبی سے سلطان کے نمائندے بھی پاکستان آ گئے۔

سچی بات یہ ہے کہ ہم لوگ انہیں جھٹلانے کے لئے گئے تھے لیکن قائل ہو کر واپس آ گئے ۔ وہیں ہمیں معلوم ہوا کہ عرب شہزادے اگر ایک سو تلور شکار کرتے ہیں تو ہزاروں  کی بریڈنگ کر کے انہیں رہا بھی کرتے ہیں۔ چولستان کے تپتے صحرا میں بھی ہمارے سامنے درجنوں باکس رکھے ہوئے تھے جن میں ابو ظہبی سے پاکستان لائے گئے ایک ہزار تلور تھے اور ہم اپنے ہاتھ سے یہ تلور آزاد کرتے رہے ۔

یہاں تک کہانی صرف تلور کی افزائش اور شکار سے متعلق تھی لیکن اصل کہانی اب شروع ہوتی ہے ۔ ہم نے لگ بھگ ایک ہفتہ چولستان میں گزارا اور کچے کے علاقہ تک سفر کیا ۔ اس دوران ریگستان کے درمیان سے گزرتی خوبصورت سڑک ، پسماندہ علاقوں میں بنے ہسپتال ، مردہ خانے ، سکول ، کالجز ، طلبا کے لئے بنائے گئے ہاسٹلز اور ٹیکنیکل کالجز سمیت دریا پر بنے پل دیکھے ۔ ہم نے ریگستان میں دور دور تک پانی پہنچانے کا نظام اور مصنوعی ٹوبے بھی دیکھے اور ان مقامی لوگوں سے بھی ملے جو اپنے اونٹوں کو پانی پلانے یہاں لائے تھے ۔

یہ سب ابو ظہبی کی جانب سے حکومت پاکستان کو تحفہ دیا گیا تھا ۔ یہاں سے ہمارے نئے سوال شروع ہو گئے کہ اس قدر سرمایا خرچ کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ میرا سوال تھا کہ لاہور میں صرف ایک شیخ زیدہسپتال ہے لیکن اس صحرا میں ہر طرح کے پراجیکٹس شروع کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب ملا کہ شہزادوں کی بنیادی دلچسپی تو ریگستان میں ہے ۔ وہ دنیا بھر میں رائج قوانین کے مطابق طے شدہ شکار کرتے اور اس کا معاوضہ ادا کرتے ہیں لیکن وہ اپنی اس تفریح کے بدلے اس کلچر ، تہذیب اور صحرائی زندگی کو بچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے مقامی آبادی کو سہولیات زندگی کے ساتھ ساتھ روزگار کی فراہمی کے لئے اربوں روپے خرچ کرتے ہیں تاکہ صحرا کا قدیم کلچر اجڑنے سے محفوظ رہے ۔ وہ تفریح کے نام پر مقامی شکاریوں اور وڈیروں کی طرح سب کچھ اجاڑ دینے کے قائل نہیں ۔ یہاں تک کہ جو جانور یہاںختم ہو رہا ہو اس کی افزائش پر بھی اربوں روپے خرچ کرتے ہیں ۔

عرب شہزادوں کی کہانی طویل ہے لیکن چولستان کا یہ سفر مجھے ایک نئی داستان سے بھی روشناس کروا گیا ۔ میں خود سے سوال کرنے پر مجبور تھا کہ کیا ہم میں بھی اتنا احساس ذمہ داری ہے ؟ کیا ہم بھی یہ جانتے ہیں کہ بطور شہری ہمارے کیا فرائض ہیں اور ہمیں اپنے ملک و قوم کی بقا اور ترقی کے لئے کیا کرنا ہے ۔ عید سے قبل احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر الٹا تو کتنے لوگوں نے تیل بچانے ، ڈرائیور کو ہسپتال پہنچانے اور کھیت کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی ؟ تیل چوری کرنے والوں کے بھیانک انجام کے بعد حیدر آباد کے قریب آئل ٹینکر کو حادثہ پیش آیا تو وہاں بھی لوگ سب کچھ بھول کر تیل چوری کرتے نظر آئے ۔

لاہور میں مشروب ساز ادارے کا ٹرک الٹا تو لوگ راستہ کلیئر کروانے کی بجائے لوٹ مار میں مصروف نظر آئے ۔ یہ بھی کہا گیا کہ احمد پور شرقیہ میں پولیس کی نفری کم تھی جولوگوں کو روک نہ پائی ۔ سوال یہ ہے کہ پولیس کی نفری کی کمی کا شکوہ تو تب ہوتا ہے جب چور ، ڈاکوؤں اور مجرموں کو روکنا ہو ۔ مہذب دنیا میں تو ایک کانسٹیبل ہی کافی ہوتا ہے جو احکامات سے آگاہ کرتا ہے ۔ کیا ہر پاکستانی چور ڈاکو بن چکا ہے جو حادثات میں بھی لوگوں کو ہٹانے کے لئے لاٹھی چارج یا گرفتاری کو ترجیح دی جائے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ ون ویلنگ اور امن و امان کے حوالے سے لگ بھگ ہر روز ہی آئی جی پنجاب کے احکامات کی خبریں شائع ہوتی ہیں لیکن لوگ تب تک نظر انداز کرتے ہیں جب تک سختی نہ کی جائے ۔

اشارے پر کھڑے وارڈن سے نظر بچا کر اشارہ توڑ دیا جاتا ہے حالانکہ وارڈن کا اصل کام تو ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے اور لوگوں کو حادثات سے بچاؤ کے لئے آگاہ کرنا ہے لیکن ہم قانون شکنی کی بدولت اسے بھی کوتوال بننے پر مجبور کئے ہوئے ہیں۔ مجھے دبئی  میں پاکستان کی طرح جگہ جگہ ٹریفک پولیس نظر نہیں آئی ۔ وہاں موجود لوگوں کو علم ہے کہ اشارے پر رکنا کتنا ضروری ہے ۔ یہی صورت حال یورپ میں بھی نظر آتی ہے ۔یہ ہم ہی ہیں جو قانون شکنی پر آمادہ رہتے ہیں اور پھرامن بھی چاہتے ہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم صرف اپنے حقوق سے آگاہ ہیں ۔ ہمارے فرائض کیا ہیں اس کی ہمیں خبر نہیں ۔ اسی طرح ہم تنقید تو کرتے ہیں لیکن تعریف نہیں ۔ ہم سب کو یاد ہے کہ عید سے قبل لاہور سمیت پنجاب میں خودکش حملوں کا ریڈ الرٹ جاری ہوا تھا ۔ مجھے اندازہ ہے کہ آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) محمد عثمان خٹک نے رمضان میں ہی روزانہ کی بنیاد پر پنجاب بھر میں جس کومبنگ و سرچ آپریشن کا آغاز کر کے جو کامیاب حکمت عملی اپنائی اس کی تعریف کوئی نہیں کرے گا ۔ ان تھانیداروں اور کانسٹیبلز کو بھی کوئی نہیں سراہے گا جنہوں نے اپنی عید ہمارے لئے قربان کی لیکن خدانخواستہ دہشت گرد کامیاب ہو جاتے تو سب سے پہلے انہی پر تنقید کی جاتی ۔

آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عثمان خٹک ، سی سی پی او لاہور کیپٹن امین وینس اور ایس ایس پی ایڈمن رانا ایاز سلیم شہر کی سکیورٹی چیک کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس شہدا ءکے گھر وں میں گئے اور ان فیملیز کو مٹھائی ، کیک اور عیدی دیتے ہوئے یقین دلایا کہ پولیس شہدا ءکے خاندانوں کی سرپرست ہے ۔ اسی طرح پنجاب کے اکثر ڈی پی اوز عید پر گھر جانے کی بجائے اپنے اپنے اضلاع میں متحرک رہے ۔ سوشل میڈیا پر ڈی پی او بہاولنگر کیپٹن (ر) ملک لیاقت کی تصاویر گردش کرتی رہیں جنہوں نے اپنے بچوں کے پاس جانے کی بجائے انہیں بلوا لیا اور ان کو ساتھ لے کر اپنے عملے اور شہدا کے بچوں سے عید ملتے رہے۔ اس بھرپور ٹیم ورک کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو ون ویلنگ ہو سکی اور نہ ہی دہشت گردوں کو اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل ہوئی ۔

سوچتا ہوں کہ عرب امارات کے حکمران تو جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے پاکستان کچھ دن کی تفریح کیلئے آناہے تو یہاں کا ماحول اور کلچر بھی محفوظ رکھنا ہے لیکن ہم جیسے عام شہری نہیں جانتے کہ ہم جس ملک کو کرپشن سے پاک کرنے نکلے ہیں اس ملک کی انتظامیہ اور پولیس کے احکامات پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔ ہم صرف اپنے حقوق جانتے ہیں فرض نہیں ۔اسی لئے غلطی کے باوجود ٹریفک چالان پر احتجاج کرتے ہیں اور حادثات کے بعد ٹرک لوٹ لیتے ہیں چاہے جل کر راکھ ہی کیوں نہ بننا پڑے۔ سچ کہوں توہم وہ قانون شکن ہیں جو ستر برس قبل امن کی تلاش میں نکلے تھے لیکن لوٹ مار اور ذاتی مفادات کے چکر میں اپنے ہی فرائض بھول بیٹھے ہیں ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں