نورین لغاری کا داعش میں شامل ہونا،عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کو تشدد کا نشانہ بنانا، سبین محمود کے قتل کے علاوہ اب دہشت گرد تنظیم ‘انصار الشرعیہ پاکستان’ میں اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ملوث پایا جانا،ایسے واقعات ہیں جو ہماری نوجوان نسل کو دہشت گردقوتوں کی تشدد پسندانہ سوچ کے سامنے غیر محفوظ ثابت کرتے ہیں۔ اور یہی واقعات اس تلخ حقیقت کی بھی عکاسی کرتے ہیں کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا انتہا پسندی کی طرف بڑھتا ہوا جھکاؤ، پاکستان کو درپیش سیکورٹی خطرات میں ایک نیا چیلنج بن کر ابھرا ہے جس سے نمٹنے کے لئے فی الفور کسی ایسی جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جو کہ ایک مؤثر تحقیق پر مبنی ہو۔
یقیناً خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ کیونکہ اب ہمارے سکولوں ،کالجوں، اور جامعات کو بھی نشانہ بنا کر ہماری نظریاتی سرحدوں پرتابڑ توڑ حملے کیئے جا رہے ہیں۔ جو کہ پاکستان کو درپیش ایک گھمبیر صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بظاہر پاکستان کی سرزمین سے ان شر پسند آماج گاہوں کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے جس میں کلیدی کردار پاکستانی افواج کا ہے۔ مگر پھر بھی یہ خطرناک صورتحال ہمارے پالیسی ساز اراکین، سیاستدانوں،جامعات کے چانسلروں اور ماہرین تعلیم، دانشوروں اور ادیبوں کی کارکردگی پر سوال اٹھاتی ہے جو نظریاتی سرحدوں کے اولین سپاہی سمجھے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی موجودہ اشکال فرقہ واریت، خطے کی سیاست، متفرق قومیتوں اور نسلی تضادات کا مجموعہ ہے جس کی بنیاد داخلی اور خارجی دونوں طرح کے محرکات سمجھے جاتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت ہم پر آشکار ہوتی ہے کہ انتہا پسندی نے اپنی ’پیدائش‘ سے لے کر’افزائش‘ تک ایک مکمل فطری راستہ اختیار کیا اور بدقسمتی سے ہم اس دوران گونگے اور بہرے بنے رہے۔ مثلاً اختلافات کا پیدا ہونا، پھر ان کا نفرتوں میں بدلنا،اور ان نفرتوں کا بتدریج انتہا پسندی کی شکل اختیار کرنا، پھر تشدد پسند انتہا پسندی اور آخرکارخودکش حملوں کا روپ دھار لینا۔
اگر سنہ1950ء سے سنہ 1990ء کی دہائی پر نظر دوڑائیں تو نہ صرف اساتذہ کا معاشرے میں تعمیری کردار نظر آتا ہے بلکہ پاکستان کے محلوں، قصبوں، سکول، کالج یونیورسٹیوں کے علاوہ فنون لطیفہ، تھیٹر، ثقافت، کھیلوں کے ذریعے ہمارے معاشرے میں مثبت سوچ کی افزائش ہوتی ہوئی بھی دکھائی دیتی ہے۔
ماضی کے برعکس،اب ہمارے معاشرے میں استاد اور طالبعلم کا رشتہ سرے سے یا تو غائب ہو چکا ہے یا پھر بدقسمتی سے سماجی اور معاشی رشتے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایک دانشور بوب ٹیل برٹ کا مشہور قول ہے کہ’’اچھے استاد مہنگے ضرور ہوتے ہیں مگر برے استاد بہت مہنگے پڑتے ہیں‘‘۔
علاوہ ازیں‘ اب ہمارا معاشرہ بچوں کی پرورش، اخلاقیات اور محتاط رویوں کو اپنانے سے متعلق ان کی تربیت سازی میں نہایت سست روی کا شکار ہے۔ نیز یہ عوامل والدین کی جانب سے اپنے فرائض میں برتے جانے والی کوہتائیوں کی قلعی کھول کر رکھ دینے کے لئے کافی ہیں۔ جس کے باعث بچوں کے رجحانات میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اب کھیل، ثقافت، غرض فنون لطیفہ سب ناپید ہو گئے ہیں اوران کی جگہ انفرادی سرگرمیوں نے لے لی ہے جن میں انٹرنیٹ اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس کا غیر ضروری اور بےجا استعمال شامل ہے۔
تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ غربت اور دہشت گردی کی آپس میں کوئی مناسبت نہیں۔ اسی طرح گزشتہ دہائی کا یہ بیانیہ کہ مذہب اور دہشت گردی کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے وہ بھی اب بے وزن اور بے وقعت ہوتا نظر آرہا ہے۔
اب طالب علموں اور اساتذہ میں شارٹ کٹ اختیار کرنے کا رجحان رواج پکڑتا جا رہا ہے۔ جس میں چھ ماہ کے سمسٹر کو تین ماہ میں مکمل کرنے کی روش شامل ہے۔ طالب علم اپنے اساتذہ کی ہدایات کے پیشِ نظر اپنے مطلوبہ نوٹس کے لئے فوٹو سٹیٹ کی دکانوں کی طرف بھاگتے ہیں۔ تحقیق اور کتب خانوں کا کلچر بھی بمشکل ہی کہیں کسی تعلیمی ادارے میں زندہ ہو۔ ہمارے ہاں ای پیپرز کی خاطر خواہ سہولت میسر ہونے کے باوجود اخبارت پڑھنے کے رجحان کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔
انہی مذکورہ بالا وجوہات کے پیش نظر کسی بھی معاشرے میں تنقیدی سوچ اور موذوں دماغوں کی افزائش میں کمی ایک فطری سی بات ہے۔ لہٰذا نوجوانوں کو انتہا پسندی سے محفوظ رکھنے کے لئے متوازن تعلیم کے ساتھ ساتھ والدین کے فعال کردار کی بھی ضرورت ہے۔ جامعات میں تشدد کے کلچر کے مکمل تدارک کے لئے وہاں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہونی چاہیئے۔
نیز نصاب کی تبدیلی کی بجائے اس پر منصفانہ عمل درآمد کو یقینی بنایا جانا چاہیئے۔ نوجوانوں میں مثبت سوچ کو فروغ دینے کے لئے بحث و مباحثے کے کلچر کو عام کرنا بھی وقت کی پکار ہے۔ اس کے علاوہ ریاست کے ہر ایک ستون کواب نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اورانہیں پاکستان کا مفید شہری بنانے کے ضمن میں ریاست کا ساتھ دینا ہو گا کیونکہ اکیلی ریاست کچھ نہیں کر سکتی۔