The news is by your side.

آخربچوں کے نام کون رکھے ؟

ہمارا تاریخ دانوں کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ انسان اصل میں ہے شرپسند، اب آپ یہ مت سمجھیے کہ ہم نے خود کو اس صف سے خارج قرار دے دیا ہے ہم بھی انہی اصحاب میں شامل ہیں ، خیر ذکر ہے شر انگیزی کا تو انسان تو پیدا ہوتے ساتھ ہی اپنے خاندان میں جھگڑوں کی بنیاد رکھ دیتا ہے ادھر بنی آدم نے جنم لیا نہیں ادھر نام رکھنے کا قضیہ شروع ۔

اب ایک طرف باپ دادا ہیں تو وہ نام رکھنے پر مصر کہ جناب نسل تو ہم سے ہی چلنی ہے اس لیے ہم ہی نام رکھیں گے ، دوسری طرف ننھیال والے اپنی سی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ نہیں نہیں خالہ اور ماموں نے تو یہ نام سوچے تھے ۔ ماں بے چاری کا کوئی نہیں سوچتا کہ اتنی تکلیف سہنے کے بعد اس کا بھی کوئی دل چاہتا ہوگا کہ یہ نام رکھ دے لیکن نہیں ۔

اب جس کی وجہ سے یہ جنگِ عظیم ہو رہی ہوتی ہے وہ آرام سے پنگھوڑے یا پلنگ پر لیٹ کر یا تو انگوٹھا چوسنے میں مگن ہوتے ہیں یا پھر بٹ بٹ نظریں گھماتے رہتے ہیں ۔ کارستانی ساری انہی کی ہوتی ہے اور بنتے بڑے معصوم ہیں کہ جیسا کہ کچھ ہوا ہی نہیں ۔

جب نام رکھنے کی باری آتی ہے تو عجیب و غریب نام سننے کو ملتے ہیں کہیں سمندر خان ‘ تو کہیں آہل ‘کہیں تہذیب ‘ تو کہیں ورشہ ‘ کہیں نازنین اور روشان ‘ انعمتہ اور معلوم نہیں کیا کیا۔

مٹی میں کھیلنا آپ کے بچے کے لیے نقصان دہ؟

ہمارے ہاں گذشتہ دنوں ایک بزرگ تشریف لائے تو انھوں نے کہا کہ میرے ہاں پوتی کی پیدائش ہو ئی ہے اب نام پوچھنے پر معلوم ہوا کہ نام تو انھیں یاد نہیں ہاں البتہ یہ ضرور یاد ہے کہ وہ کوئی الہامی یا فرشتوں کا نام تھا ۔خیر یقین مانیں کہ ہم نے ان کے ساتھ کسوٹی کھیلی تو معلوم ہوا کہ بچی کا نام خیر سے ’’حوریہ ‘‘ ہے ۔

ایک تو ایسا رواج چل نکلا ہے کہ کچھ لوگوں کے نام کے ساتھ ایسے طویل نام بھی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید دو تین بندوں کا ذکر ہو رہا ہے ، جیسے کہ علی عباس طاہر یا اسی طرح کا کوئی اور نام ، ویسے ہمیں اس سے اختلاف ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے ؟ اجی نام میں ہی تو سب کچھ رکھا ہے ، نام ہو گا تو بدنام بھی ہوگا ۔

ہمارے محلے میں کئی بنٹو ‘ ببلو ‘ پنکی اور بٹو پائی جاتی ہیں ، لیکن ان کو سچ پوچھیں تو نام رکھنے کا کیا فائدہ ہوا کیونکہ جب بھی انھیں اپنا اصل نام بتانے کے لئے کہا گیا وہیں ان کے لبوں پر بنٹی اور پنکی آتے آتے رہ گیا بلکہ والدین نے بھی نہ صرف انھیں اسی نام سے پکارنا شروع کر دیا بلکہ ماں نے باپ کے نام کی جگہ بھی کہا کہ ’’ بات سننا پنکی کے ابا ‘‘ اور تو اور آپ کو وہ بینک والا لطیفہ تو یاد ہے ناں جس میں چیک کے آخر میں نام کی جگہ ’’ صرف اور صرف تمھاری پروین ‘‘ لکھنے کا ذکر تھا ۔

نام رکھنے کے حوالے سے اگر سنجیدہ بات کی جائے تو پرانے زمانے میں باقاعدہ نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم سے بچوں کے نام پوچھے جاتے تھے اور توحیدی ناموں پر ہی اصرار کیا جاتا تھا جیسا کہ عبد الرحمان ، عبد العزیز وغیرہ ۔، حسن اور حسین کے نام جو نواسائے رسول تھے وہ ایسے نام تھے جو کبھی عرب میں رکھے نہیں گئے اور نبی اکرم کے ان ناموں کے نہ رکھنے سے پہلے کوئی ان خوب صورت ناموں کی فضلیت نہیں جانتا تھا کہ یہ کتنے بامعانی ہیں ۔

برما میں کوئی مسلمان ’اسلامی نام ‘ نہیں رکھ سکتا

اسی طرح بعد کے ادوار میں خاندانوں کے بڑے بزرگ قرآن پاک سے دیکھ کر نام رکھا کرتے تھے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ علم الاعداد اور علم الاسما ءکے ماہرین سے بھی مدد لی جاتی تھی ۔

آج کل اگر دیکھا جائے تو نام کتابوں سے بھی دیکھے جاتے ہیں اور لوگوں سے پوچھے بھی جاتے ہیں اور کئی لوگ تو ایسے بھی ہیں جن کو جوان ہونے پر اپنا نام ہی پسند نہیں آتا اور پھر تبدیلی نام کے لئے باقاعدہ دستاویزی کارروائی مکمل کی جاتی ہے ۔

جاتے جاتے ہمیں یہ بھی یاد آگیا کہ بچے کے پیدا ہونے پر نام رکھنے کا مسئلہ تو ایک طرف رہا ، خواجہ سراؤں کا مسئلہ ایک الگ ایشو ہے کہ لوگوں کو یہ فیصلہ کرنے میں دشواری ہوتی ہے کہ پہلے بچے کا نام رکھا جائے یا خوشی کے اس موقع پر آنے والے ان خواجہ سراؤں سے نمٹا جائے ، یہ ایک الگ کہانی ہے جو ہم آئندہ کے لئے اٹھا رکھتے ہیں ۔ فی الحال ! آپ اپنے ہاں مستقبل میں آنے والے بچوں کے نام سوچیں ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں