The news is by your side.

ملالہ کی جینز سے پریشانی کیوں؟

میں جانتا ہوں کہ تمہاری پرواز اونچی ہے ‘ دیکھو رکنا نہیں ‘ پروں کو سمیٹنا نہیں ۔ ذہنی مریضوں ‘ چوروں اور لٹیروں کی باتوں کو سننا نہیں‘ تم نے ابھی بہت کام کرنا ہے تم دنیا بھر میں پاکستان کی آواز ہو‘ تم پوری دنیا میں لڑکیوں کے حقوق کی‘ خواتین کے شعور کی پکار ہو۔ ابھی تو تمہارا اعلیٰ تعلیمی سفر باقاعدہ شروع ہوا ہے اور تمہارے اس باقاعدہ سفر کے شرعو ہونے سے القاعدہ اور اس کے بچوں کو جتنی تکلیف ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا ۔

ان کی جنگ ہی تم سے اور تمہاری سوچ سے ہے ‘ تمہاری آواز سے تمہاری پرواز سے ہے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ جن اسکولوں کو وہ بموں سے اڑا رہے ہیں‘ ان ہی کی خاک سے وہ سورج طلوع ہوگا جو جس سے ان کا پورا نظریہ دھول میں اٹ جائے گا‘ رکنا نہیں ہے‘ چلتے رہنا ہے ۔ ان میں اگر ہمت ہوتی تو یہ چھپ کر وار تھوڑا ہی کرتے۔یہ بزدل ہیں اسی لئے راہ چلتے بنی تصویر کو بتنگڑ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اپنی ماں بہن بیٹی کو اپنے افکار کے تہہ خانوں میں دفن کرنے کے بعد اب یہ ہر اس روشنی کو اندھیرے میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں ۔

میں اتنی لمبی تمہید نہیں باندھتا لیکن مجھے اپنے بہت سے لکھاری دوستوں کو آج اپنا دوست لکھتے ہوئے جتنی شرم ٓا رہی ہے اتنی کبھی نہیں آئی ۔ ملالہ صرف ایک لڑکی نہیں ہے ، وہ لاکھوں کے دلوں کی آواز ہے ۔ مجھ سمیت بہت سے پاکستانی اس کو ووٹ دے چکے ہیں ۔ جب کبھی بھی ملالہ پاکستان آئی اوراگر اس نے سیاست میں قدم رکھا تو پھر زندہ باد۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم پر آکسفور سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک نوبیل انعام یافتہ سیاستدان حکومت کرے ۔ ایک ایسی لڑکی ہم پر حکومت کرے جس نے گالی اور گولی دونوں برداشت کی ہیں ۔

کتنی عجیب بات ہے کہ آج ہمارے مسائل قندیل بلوچ اور مفتی قوی ہیں ‘ جس میں بے چاری قندیل ماری جاتی ہے ۔ ہمارا مسئلہ ایک چھرا مار ہے ‘ یعنی ہزاروں پولیس اہلکار ایک طرف اور چکمہ دے کر فرار ہوجانے والا ایک چھرا مار دوسری طرف۔ ہمارا مسئلہ بجلی‘ پانی اور گیس ہے ‘ ٹوٹی ہوئی سڑکیں ہیں‘ ،،بیماریاں اورلاچاریاں ہیں۔

دنیا پولیو فری اور ہم ویری فری ان پولیو، دنیا مین امیر ٹیکس دیتے ہیں اور غریب مراعات حاصل کرتے ہیں ۔ہمارے ملک میں غریب ٹیکس دیتے ہیں اور امیر مراعات حاصل کرتے ہیں ۔ دنیا میں قومی ائیرلائن کے جہاز اڑتے ہیں اور ملک زرِ مبادلہ کماتے ہین ۔ ہمارے ملک میں جہاز پارکوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسافر غیر ملکی ائیر لائنز میں سفر فرماتے ہیں ۔

صحت کا حال یہ ہے کہ دنیا میں بچے ہسپتالوں میں پیدا ہوتے ہیں ہمارے ہاں ہسپتالوں کے لان میں‘ رکشے میں اور کبھی کبھی سڑک پر پیدا ہو جاتے ہیں۔ دنیا گدھے بار بر داری کے لیے استعمال کرتی ہے‘ ہمارے ہاں خوراک کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ جو قوم گدھے کے گوشت کی کڑھائی ، کتے کے گوشت کے چپلی کباب اور چوہے کے گوشت کے قیمے والے سموسے کھائیں ۔ جو مرے ہوئے پریشر زدہ جانوروں کا گوشت کھائیں ۔ مری ہوئی مرغیوں ‘ مچھلیوں اور گائے کا خون ،فیڈ کے طور پر استعمال کرنے والی برائلر مرغیاں کھائیں‘ جو چائے کی پتی میں رنگے ہوئے دیسی انڈے‘ برادے سے بنی ہوئی مرچیں کھائیں‘ جہاں مرے ہوئے جانوروں کی چربی نکال کر کوکنگ آئل اور گھی بنایا جارہا ہو اور جہاں گندے نالے کے پانی میں سبزیاں اور پھل لگائے جا رہے ہوں اس قوم کو پہلے ان سب چیزوں کو درست کرنا ضروری ہے‘ ملالہ اس کے بعد آتی ہے ۔

جہاں اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے ڈھٹائی سے کہیں کیوں نکالا مجھے ؟‘ جہاں وفاداری بدلنا قومی کھیل ہو اور رشوت قومی طریقہ واردات۔ جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو اہو ۔ جہاں مدارس پر عقائدی ٹولے قابض ہوں‘ جہاں سوال کرنا جرم ہو اور جواب مانگنا اس سے بڑا جرم بن جائے ۔جہاں حج اور عمرہ انڈسٹری ہوں ‘ وہاں کے لکھاریوں کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ ملالہ کے جینز اور لانگ بوٹ پہننے پر سوال اٹھائیں ۔

واٹر کولر پر ٹونٹی کے ساتھ زنجیر سے بندھا ہوا گلاس یا مگ ہمارےمعاشرتی رویوں کا عکاس ہے ۔ بس کردیں ! خدارا اس قوم پر رحم کر دیں ۔رتھ فاؤ، محترمہ فاطمہ جناح‘ رعنا لیاقت علی خان اور ملالہ یوسف زئی میری بیٹی ‘ آپ کی بیٹی ہے برائے مہربانی اپنی اور میری بیٹیوں کو زندہ رہنے اور زندگی جینے کا حق دیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں