”بدرمنیر کی جتنی فلمیں سپرہٹ ہیں، یہ ریکارڈ ایشیاءمیں کسی کے پاس نہیں“
کچھ لوگ زندگی میں بڑی جدوجہد کرتے ہیں اور ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے بلکہ وہ بعض اوقات ایسے کام کرتے ہیں، جسے دیکھنے کے بعد ذہن تسلیم نہیں کرتا کہ واقعی جو کام اس نے کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔
پشتو فلموں کے دلیپ کمار بدرمنیر اکتوبر2008ءمیں اپنے رب کی طرف لوٹ گئے، ان سے راقم کی بے شمار ملاقاتیں ہوئیں، طبیعت کے بادشاہ انسان تھے، وہ نچلی سطح سے آکر فلم کے بادشاہ بنے۔
بدرمنیر اداکار ہونے کے علاوہ ہدایتکار بھی تھے، بدرمنیر1940ءمیں مدین شنگرام میں پیدا ہوئے، وہ بہت سیدھے سادھے اور نیک طبیعت کے انسان تھے، کبھی ان کا کوئی اسکینڈل منظر عام پر نہیں آیا۔ بدرمنیر سے2003ءمیں لاہور میں ہماری شاید یہ نویں ملاقات تھی مگر چونکہ ایک بڑے ایوارڈ کی تقریب تھی اور ہم بھی ایوارڈز کی انتظامیہ میں ایک سینئر کی حیثیت سے کام کررہے تھے، وہ ہوٹل میں میرے کمرے میں فرصت کے اوقات میں آکر بیٹھ جاتے اور یوں رات گئے ان سے باتیں ہوتی رہتی تھیں۔
ان سے کچھ ان کی شخصیت کے حوالے سے ذاتی باتیں بھی ہوئیں، وہ اداکار وحید مراد (مرحوم) کے آفس میں کام کرتے تھے، اس زمانے میں ان کی اردو اتنی صاف نہیں تھی، بدرمنیر کے والد کا نام سید یاقوت میاں تھا وہ ایک ممتاز عالم دین تھے، وہ چاہتے تھے کہ بدرمنیر اسلامی تعلیم سے وابستہ ہوں، جس کے لئے انہیں چار سدہ کے ایک مدرسے میں داخل کیا گیا۔ ان کے ساتھ وقار خان جو ہماری انڈسٹری میں فلم ایڈیٹر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، وہ بھی تعلیم حاصل کررہے تھے، وقار خان (مرحوم) نے تو انڈسٹری جوائن کرلی اور بدرمنیر نوجوانی میں کراچی آگئے، یہاں آکر والد کو بتایا کہ میں کراچی میں ہوں اور ایسٹرن اسٹوڈیو میں بحیثیت ہیلپر کے کام شروع کردیا ہے۔
یہ زمانہ سنتوش، درپن، محمدعلی، وحید مراد اور ندیم کا تھا، اس کے بعد وحید مراد (مرحوم) پہلی مرتبہ فلم ”اولاد“ میں ہیرو آئے اور سپر اسٹار کہلائے، وحید مراد (مرحوم) نے معروف عکاس مددعلی مدن جو بھارتی اداکارہ سومی علی کے والد تھے، ان سے کہہ کر بدرمنیر کا اسکرین ٹیسٹ کروایا، بدرمنیر، وحید مراد (مرحوم) کے آفس کی دیکھ بھال کرتے تھے، مددعلی مدن، فلمساز نذیر حسین، شفیع قاضی جو ایسٹرن اسٹوڈیو میں لیبارٹری انچارج تھے، ان تینوں نے مل کر ایک فلم بنانے کا اعلان کیا، جس کا نام ”یوسف خان شیر بانو“ رکھا گیا۔
اور قارئین اب مزید باتیں بدرمنیر (مرحوم) کی زبانی بتاتے ہیں، بدرمنیر (مرحوم) نے بتایا کہ علی حیدر جوشی بہت پائے کے شاعر تھے اور پشتو زبان پر ان کو بہت عبور تھا، فلم کی کہانی، منظر نامہ اور گیت انہوں نے لکھے، یہ سب باتیں وحید مراد (مرحوم) کے آفس میں ہوتیں اور ماضی کے ایک ہدایتکار گوہرعلی انہیں لائن اپ کرتے۔ یہ گوہر علی وہ ہیں جب سنیما میں فلم شروع ہونے سے قبل کہا جاتا تھا (آپ پر لازم ہے کہ قومی ترانے کے احترام میں با ادب کھڑے ہوجائیں) یہ ان کی آواز میں ڈب تھا۔
فلم کے موسیقار لالی محمد اقبال (مرحوم) تھے، جو مددعلی مدن کے گہرے دوست تھے۔ ”فلم یوسف خان شیر بانو“ کے گلوکاروں میں ہدایت اللہ، ریحان یاسمین اور نگہت اکبر شامل تھیں۔ وحید مراد (مرحوم) اور مددعلی مدن نے ہیرو کے لئے بدرمنیر کو منتخب کیا اور شیر بانو کے کردار کے لئے یاسمین خان کو کاسٹ کیا، جو بہت کم گو اور اچھی حاتون تھیں۔ اس فلم کے کل آٹھ گانے تھے۔
بدرمنیر بتاتے تھے کہ اس فلم کا ایک گیت ”راشہ ہو راشہ خوشے میدان میں“ نے پاکستان میں تہلکہ مچادیا تھا، کراچی سے لے کر خیبر تک میری یہ فلم سپرہٹ ہوئی۔ یہ پاکستان کی پہلی پشتو فلم تھی ان کے فنکاروں میں یاسمین خان (مرحومہ، جنہیں 2 سال پہلے قتل کردیاگیا) نعمت سرحدی اس فلم کے ہدایتکار، عزیز تبسم، اب امریکہ میں ہیں۔ نعمت سرحدی تبلیغ سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ گلوکار ہدایت اللہ پشاور میں رہتے ہیں اور انہوں نے گلوکاری چھوڑ دی ہے۔ باقی تمام حضرات اور فنکار اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ بدرمنیر بتاتے ہیں کہ ایک اچھے مستقبل کے لئے میں نے اس فلم میں بلا معاوضہ کام کیا تھا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ میری پشتو فلم ”دیدن“ کو ماسکو فلم فیسٹیول میں بھیجا گیا تھا، جہاں اس فلم کو بہت پسند کیا گیا۔ باہر ممالک کے حوالے سے انہوں نے بتایا تھا کہ میں اسپین کے شہر بارسلونا گیا، وہاں ظفر نامی ایک صاحب نے ٹیلی فلم بنائی تھی جو اردو اور پشتو میں تھی۔ بارسلونا بہت خوب صورت شہر ہے پھر وہاں کی مسجد قرطبہ بھی جانے کا اتفاق ہوا، 1977ءکی بات ہے وہ مسجد آباد نہیں تھی، وہاں کی حکومت نے صرف صحن سیاح کے لئے چھوڑ دیا تھا، مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے وہاں نماز پڑھی کیونکہ اسپین میں مسلمانوں نے تقریباً 700 سال حکومت کی تھی، آج بھی وہاں اسلامی رنگ پایا جاتا ہے۔
بدرمنیر کھانوں میں سبزیاں بہت پسند کرتے تھے، ایوارڈز کی تقریب کے دوران اکثر ہم اور بدرمنیر رات کا کھانا ایک ساتھ ہوٹل میں کھایا کرتے تھے۔ وہ گوشت زیادہ رغبت سے نہیں کھاتے تھے، جس کی وجہ سے اکثر ان کے ساتھ بحث ہوتی تھی اور وہ برجستہ کہتے، م ش خ صحت کے لئے سبزیاں بہت ضروری ہیں، ہم کو یار یہ گوشت موشت زیادہ پسند نہیں ہے۔
آئیے ناظرین ویب اب اداکار بدرمنیر کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں، انہوں نے 75 ہدایتکاروں کے ساتھ کام کیا، بدرمنیر (مرحوم) کی529 فلموں میں سے6 فلموں نے ڈائمنڈ جوبلی، 5 فلموں نے پلاٹینم جوبلی (اس زمانے میں یہ بہت بڑی کامیابی ہوتی تھی)80 فلموں نے گولڈن جوبلی اور تقریباً 71 فلموں نے سلور جوبلی کی۔ قارئین یہ ریکارڈ ایشیاءمیں کسی بھی ایکٹر کے پاس نہیں۔۔۔ بدرمنیر کی پشتو فلم ”پڑانگ“ مردان کے ایک سنیما میں ہاؤس فل کے ساتھ ایک سال نمائش پذیر رہی۔
وہ بہترین مصنف بھی تھے، انہوں نے سپرہٹ فلم ”دلہن ایک رات کی“ کہانی بھی لکھی تھی۔ ان کی پشتو فلم ”ادوبل“ کی آمدنی سے تجارتی شخصیت ارشد نے ارشد سنیما بنایا۔ بدرمنیر کی ہیرو اور ولن ڈبل رول میں پہلی فلم ”خائستہ گل“ تھی، انہوں نے بطور پروڈیوسر11 فلمیں بنائیں اور بطور ہدایتکار فلم ”عجب گل“ بنائی۔
بدرمنیر نے ایک ہندکو اور ایک سندھی فلم میں بھی کام کیا، جن میں ہندکو فلم ”قصہ خوانی“ جبکہ سندھی فلم ”ہوجمالو“ تھی۔ انہوں نے ایک گھریلو خاتون سے شادی کی، ان کے 5 صاحبزادے تھے، جن میں دلبرمنیر اب بھی شوبزنس سے منسلک ہیں۔
پشاور کی معروف سڑک سنیما روڈ کا نام تبدیل کرکے بدرمنیر روڈ رکھا گیا۔۔۔ مرحوم کو بد از مرگ یعنی انتقال کے بعد صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔کاش ہمارے فنکاروں کو ان کی زندگی میں یہ اعزاز دے دیئے جائیں تو کتنی اچھی روایت ہو۔
اداکار بدرمنیر (مرحوم) نے144 بلیک اینڈ وائٹ، 382 رنگین اور50 سنیما اسکوپ فلموں میں اداکاری کی۔ پشتو، اردو، پنجابی فلموں کی53 اداکارائیں ان کی ہیروئن رہیں، بدرمنیر (مرحوم) سے ہمارا بہت دوستانہ رہا، وہ نفیس طبیعت کے انسان تھے۔ انہوں نے راقم کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ والدین سے محبت کا ثبوت دیں تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔۔۔ آمین
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں