The news is by your side.

مزاح نگاری‘ فحاشی کے زیراثر کیوں ہے؟

مزاح ہم سب کی زندگیوں کا ایک اہم حصہ ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ ہنسنا ہی اصل میں روح اور ذہن کو طاقت عطا کرتا ہے اور ہم پھر نئے سرے سے پریشانیوں سے نبرد آزما ہونا سیکھ لیتے ہیں ۔ کسی بھی معاشرے اور وہاں کے لوگوں کی اصلاح کے لئے بھی طنز و مزاح کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ذریعے لوگوں میں احتساب کا جذبہ پیدا کیا سکتا ہے اورحکومت کی کارکردگی پر بھی ایک نظر ڈالی جا سکتی ہے ۔

لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اردو ادب جس نے اتنے اچھے مزاح نگار پیدا کئے اور بہترین کامیڈین بھی ہمارے ملک کو دئیے آج اچھے اور معیاری مزاح سے محروم ہوتا جا رہا ہے ۔ وہ ادب جس میں ایک طرف پطرس بخاری کے کاٹ دار جملوں کی دھوم تھی تو دوسری جانب ابن انشا کے بیانئے کی بےساختگی کا اظہار تھا اب اپنی ناقدری پر نوحہ کناں ہے کیونکہ اب مزاح کے نام پر فحاشی کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔

سٹیج ڈرامے دیکھ لیں یا مزاح کی کتابیں آپ کو صرف سطحی جملے اور عامیانہ جگتیں ہی ملیں گی ، کیونکہ آج کل ڈرامہ پروڈیوسر کو صرف پیسے سے غرض ہے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ ان کے شائقین کو کیا پسند ہے اور انھیں تفریح اور مزاح کے نام پر کیا دکھایا جا رہا ہے ؟۔

ایک زمانہ تھا کہ روف پاریکھ ، مشتاق احمد یوسفی ، صدیق سالک ،کرنل محمد خان ، مرزا فرحت اللہ بیگ جیسے نام ہی طنز ومزاح کے بڑے نام تھے ، انور مسعود کا دور بھی بہت پرانا نہیں جنہوں نے اپنی پنجابی بے ساختہ شاعری سے لوگوں کے دل موہ لئے ، انور مقصود کا ذکر کریں تو ففٹی ففٹی اور آنگن ٹیڑھا کسی کو بھولا نہیں ، بھلا ان ڈراموں اور مکالموں میں کوئی بے ہودگی ہوتی تھی ، یقینا نہیں کیونکہ یہ ایسی تحریریں اور ڈرامے تھے جو کہ تفریح اور مزاح کی غرض سے بنائے جاتے تھے اور یہ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے جاتے تھے ۔

اسی طرح پاکستان کے مشہور مزاح نگار فاروق قیصربھی کئی پروگراموں میں اپنی پتلیوں کے ذریعے سے معاشرتی برائیوں کو اجاگر کرتے تھے اور اسی طرح کے دیگر پروگرام اور ڈرامے ناظرین میں مقبولیت کی سند پاتے تھے ۔

لیکن اب تو نہ مزاح نگاروں کے ہاں وہ بے ساختہ پن رہا ہے نہ ہی ذاتی تخلیق کی قوت ۔لیکن یہاں قصورشائقین اور ناظرین کا بھی ہے کیونکہ وہ بھی اس جگت بازی اور گھٹیاجملوں کے عادی ہوتے جا رہے ہیں اور دل کھول کر ایسی عامیانہ چیزوں کی فرمائش کرتے اور انھیں سراہتے ہیں ۔جس سے اس فحاشی کو اور رواج مل رہا ہے اور افسوس تو یہ ہے کہ لوگوں میں اچھے اور برے کی تمیز نہیں رہی اور جو اور جیسا آرہا ہے اسکو اسی طرح سے قبول کیا جا رہا ہے جو ہمارے معاشرتی انحطاط اور اخلاقی گراوٹ کی نشانی ہے ۔

مقام افسوس ہے کہ ادب کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ بے ادب لوگ ادب کی باتیں کر رہے ہیں ، جنہیں خود کسی دستور اور قاعدے کا علم نہیں وہ ناصح بن رہے ہیں اور ان کی مذمت کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے ۔ ادب تو ایک جنس ارزاں بن کر رہ گیا ہے ۔ اب تو وہ مشہور محاورہ بھی ماضی کی نذر ہو گیا کہ با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب ، اب تو جس کی جتنی زیادہ بدتمیزی کا لیول اتنے ہی قارون کے خزانے اتنی کی اس کی تعریف و توصیف ۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں شاعری ہو یا ڈرامے یا فنون لطیفہ کی کوئی اور صنف ان میں خواتین کے جسمانی خدوخال اور اوصاف پرلطیفے اور جگتیں بنائی جاتی ہوں ، اور اس سب کو فخر سے بیان کیا جاتا ہو وہاں ادب کی ترقی کا کیا تصور ہو سکتا ہے ؟۔

خواتین کو عزت دینے کا دعوی کرنے والے تو خواتین کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ ان سٹیج ڈراموں اور ڈائیلاگز میں بے حیائی کے دریا سے نکل ہی نہیں پاتے ، میں سب مردوں کی بات نہیں کر رہی لیکن ایک مچھلی ہی سارے جل کو گندہ کرتی ہےکے مصداق یہی حضرات کوئی بھی لڑائی جھگڑا ہونے پر گلیوں اور بازاروں میں گالیاں دیتے ہوئے مائوں بہنوں کا تقدس پامال کرتے ہیں۔

میرا یہ ماننا ہے کہ کوئی بھی شخص خواہ مرد ہو یا عورت پیدائشی طور پر برا یا اچھا نہیں ہوتا لیکن کیا ایسے ڈراموں ، گھٹیا شوز ، بے سر وپا تحریروں ، ویڈیوز پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی ؟ ۔

کیا ہم حقیقی معنوں میں فحاشی کو نہیں روک سکتے ، کیا ہم اپنے گھروں سے بچوں کو تہذیب نہیں سکھا سکتے ؟ یا صرف چند بینز اٹھا کر روڈ بلاک کر کے ، عوام کو مصیبت میں مبتلا کر ک کے لیے ہی احتجاج کیے جاسکتے ہیں ؟ ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں