The news is by your side.

شخصیات کے گرد گھومتی – مجبوریت

آئین ِپاکستان کو اپنی اصل حالت میں بحال کرنے کا جو فریضہ پیپلزپارٹی نے سرانجام دیا‘ اس میں ایک ایسی تبدیلی کی گئی جس میں پارلیمان کے اندرشخصی حکمرانی مزید مضبوط ہوئی اور جمہوریت کا گلہ گھونٹ دیا گیا۔

قومی اسمبلی کا کوئی بھی ممبر پارٹی قیادت کے اشاروں کے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتا، اپنی قیادت سے اختلاف نہیں رکھ سکتا اورنہ ہی ممبر قومی اسمبلی رہتے ہوئے نظریاتی اختلافات کی بنیادیا ضمیر کی آواز پر حکومت سے اپوزیشن اوراپوزیشن سے حکومت میں جاسکتا ہے، کیونکہ ان کی ڈور پارٹی کے ہاتھ میں ہے اور پارٹی کی ڈور اس کی قیادت کی مرضی سے ہلتی ہے۔

ہماری بدقسمتی ہے ہمارے ہاں کہنے کو تو جمہوریت ہے مگر جمہوری روایات، طور طریقوں اور جمہوری معاشرے سے ہم کوسوں دور ہیں۔ بات کریں مسلم لیگ ن کی تو جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے یہ ”ن“ کے بغیر ادھوری ہے، اتنی نامکمل ہے کہ اس کے وجود کو مکمل کرنے کیلئے نوازشریف کی سیاست میں واپسی کا راستہ بنایا گیا ، اور الیکشن اصلاحات بل میں باقاعدہ ایسے شخص کیلئے پارٹی سربراہ بننے کے راستے کھولے گئے جو اسمبلی ممبر بننےکیلئے چاہے نااہل ہی کیوں نہ ہو، اس پر بہت بحث ہوچکی کہ یہ قانون درست ہے یا غلط ، مگر میرا سوال یہ ہے کہ نوازشریف ہی مسلم لیگ ن کی مجبوری کیوں ہیں ؟ ان کی جگہ ان کے بھائی شہباز شریف بھی نہیں لے سکتے اور رفیق خاص چوہدری نثار تو سوچ بھی نہیں سکتے۔

ہم بہت خوش ہوئے جب نوازشریف کی نااہلی کے بعد اقتدار ان ہی جماعت کے پاس رہا ، انتشار نہیں پھیلا اور جمہوری طریقے سے نئے وزیراعظم کا انتخاب ہوا، لیکن یہ خوشی محض اس عمل تک محدود تھی۔ فعل یہ ہے کہ 45کے قریب وزراءکی فوج ظفر موج صرف وقت گزار رہی ہے اور شاہد خاقان عباسی عملی طور پر وزیراعظم نہ بن سکے نہ ہی مسلم لیگ ن ان کو ماننے کو تیار ہے۔

جمہوریت کی علمبردار کہلانے والی جماعت پیپلزپارٹی بھی اندر سے کس قدر غیر جمہوری ہے۔ پارٹی کے سٹرکچر پر نگاہ دوڑائیں تو پاکستان کی سیاست کاصفر تجربہ رکھنے والے نوجوان بلاول زرداری کے پیچھے ہاتھ باندھے ہمارے بزرگ سیاسی رہنماؤں کی ایک صف نظرآتی ہے ، جس میں سینیٹر فرحت اللہ بابر ، میاں رضاربانی، اعتزازاحسن، میاں منظور وٹو اور قمر زمان کائرہ جیسی شخصیات شامل ہیں۔ ملک کی تیسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو تبدیلی کے نعرے سے جوڑا جاتا ہے ، مگر پارٹی کے اندر چیئرمین کی تبدیلی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔

تحریک انصاف کے اندر ”عمران خان “ کی موجودگی ہی سے جماعت کا وجود قائم و دائم ہے، گزشتہ دنوں جب قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کی ناکام کوششیں کی گئیں تو اس کے شاہ محمود قریشی کا نام سامنے آیا، مگر تحریک انصاف کے قائدین کے اندر اس بات پر پھوٹ پڑگئی، ایک سینئر رہنما نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھ بھی دیا کہ ”وزیراعظم ہوگا تو صرف کپتان، قائد حزب اختلاف بھی ہوگا تو صرف عمران خان “، گویا عمران خان کے گرد ہی پوری جماعت گھومتی ہے۔

دیگر جماعتوں کا سرسری جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ ق چوہدری برادران، فنگشنل پیرپگاڑا، عوامی تحریک کا دائرہ کار ڈاکٹر طاہرالقادری ہی کے گرد گھومتا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت بھی مائنس ون ہونے سے قبل اپنی سانسیں بھی بانی ایم کیو ایم کے مشورے سے لیا کرتی تھی۔ تاہم مائنس ون ہونے کے بعد ابھی وہ انتخابات کے امتحان سے نہیں گزری ، جس سے یہ تعین کیا جاسکے کہ کیا پارٹی واقعی اپنے بانی کے بغیر فاروق ستار کی قیادت پر متفق ہے، یا معاملات اب پہلے جیسے نہیں ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ فاروق ستار اب مطلق العنان ہیں، ان کی تبدیلی کا بھی سوچا نہیں جاسکے گا۔

جماعتِ اسلامی ایک ایسی جماعت ہے جس میں شورائی نظام کے تحت امیر کا تقرر ہوجاتا ہے اور امیر کا اپنے بانی سے خونی نہیں نظریاتی رشتہ ہے مگر جماعت اسلامی کے اندر بھی ایک مضبوط لابی قائم و دائم ہے اور وہ شخصیات ہم پچھلے27سال سے دیکھ رہے ہیں جن میں فرید پراچہ اور لیاقت بلوچ شامل ہیں۔

یہ تو پارٹی کی مرکزی قیادتوں کا احوال تھا جن کے بغیر پارٹی کا جسم مردہ ہوجاتا ہے، کیا ایسی جماعتیں جمہوری جماعتیں کہلاسکتی ہیں؟ اگر ہم اسی ترتیب سے نیچے آتے جائیں تو ہمیں صلاحیتوں کے بل بوتے پر عہدیدار کہیں نظر نہیں آتے ، بلکہ سیاسی جماعتو ں کے اندر بڑا عہدہ ملنے کا پیمانہ بڑی گاڑی، بڑا بنگلہ، بڑا پیسہ ، بڑے رابطے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ٹکٹوں کی تقسیم کا معیار بھی جداگانہ ہے، ٹکٹوں کی تقسیم میں تعلیمی قابلیت، سیاسی فہم و فراست ، عوام کی خدمت کا جذبہ اور صلاحیتوں سے کہیں بڑھ کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ علاقے میں رعب و دبدبہ کتنا ہے ۔ہمارے ہاں رائج الوقت نظام جمہوریت میں عوام کا کردار پانچ سال بعد پرچی ڈالنے کا ہے، باقی سیاسی جماعتوں کے اندرونی سٹرکچرز ، لائحہ عمل، منشور اور پارٹی معاملات سمیت ملکی و بین الاقوامی معاملات میں عوام صرف تماش بین ہیں اور بس۔

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ کمہار کا بچہ نمبردار نہیں بن سکتا‘ اور ہم 22کروڑ کا ہجوم اسی ذہنی غلامی کے ساتھ زندہ ہیں، ہم خواب بھی نہیں دیکھتےکیونکہ ہمارے لیے ہمارا کردار اور سیاسی قیادتوں کا کردار ، دائرہ کار ، اختیار اور طریقہ کار بھی پاکستان بننے سے لے کر اب تک طے شدہ ہے۔ سیاسی پنڈت اسے جو بھی نام دیں میں اسے حقیقی جمہوریت ماننے سے انکاری ہوں ، کیونکہ یہ شخصیات کے گرد گھومتی ”مجبوریت“ ہے۔ پاکستان میں اس وقت حقیقی جمہوریت قائم ہوگی جب ایک عام آدمی بھی ایم این اے بننے کی نہ صرف خواہش کرسکے گا بلکہ اسے یکساں مواقع فراہم ہوں گے تاکہ وہ ملک و قوم کی حقیقی خدمت کیلئے اپنا کردار ادا کرسکے ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں