The news is by your side.

سب اچھا ہے

آسٹریا کے معروف دانشور کارل کراؤس نے کہا تھا کہ اگر کوئی عورت جسم فروشی کرتی ہے تو اس سے بڑا جرم کرپشن ہے، جسم فروشی سے2 افراد کی اخلاقیات متاثر ہوتی ہے مگر کرپشن سے پوری قوم بنیادی سہولتوں سے ملیامیٹ اور تباہی کے کنارے لگ جاتی ہے۔

بلاشبہ ہمارے ملک میں کرپشن نے اتنی ترقی کی ہے کہ الامان الحفیظ۔۔۔ بدعنوانیوں کا آغاز صدر، وزیراعظم، وزیروں اور گورنروں سے لے کر ایک معمولی آفیسر بھی کرپشن کی بے ضابطگیوں کی لگام پکڑ کر کرپشن کے خودسر گھوڑے پر سوار ہے، اس کی وجہ پروفیشنلز اپنی فنی تربیت دفن کرچکے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق تقریباً 4 ہزار ارب کی سالانہ کرپشن ہورہی ہے، غالباً 42 ہزار کے بعد یا اس سے زیادہ آمدنی ہو تو اس شخص کو انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنا لازمی ہے لیکن یہ اسمبلیوں میں عوامی نمائندے55 فیصد سے زیادہ اپنی ٹیکس ریٹرن بھرتے ہی نہیں، آئین کے دستور کے حوالے سے جو آدمی اپنی آمدنی چھپائے گا، اسے دو سال کی سزا یا قید ہوسکتی ہے اور قانون بنانے والے قانون کو لعن طعن کررہے ہیں۔

پہلے ملک کے خیر خواہ 25 سال قبل ملک چلارہے تھے، اب تو ملک کو کرپشن کے ساتھ نتھی کردیا ہے، ایمانداری اور نیکی کی بساط لپیٹ دی گئی ہے، اس وقت پاکستان میں دو ادارے ایسے ہیں جنہیں قوم پسند کرتی ہے، انہیں باریک بینی سے اس کرپشن کو تباہی کے کنارے لگانا ہوگا اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ قوم ذہن بنالے کہ اس طرح تو چند سال میں ہمارا طرزِ حکمرانی اندھے کنویں کی نظر ہوجائے گا۔ ریاست میں رہنے والا ہر غریب آہوں کراہوں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کے زندگی جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہا ہے، معیشت دفن ہوگئی ہے۔ سماجی اور معاشی نظام ان حالت میں اپنی مدت پوری کرچکا اور ہر شخص ذات کے تحت اپنے حقوق کی خاطر خاموشی سے زندگی گزار رہا ہے۔

ارباب اختیار عوام کی بات سننے کو تیار نہیں، مکانوں میں رہنے والے سونے کے محل بنانے کی تگ و دو کررہے ہیں، غریب اور متوسط طبقہ بجلی، پانی اور فون کے بلوں میں الجھ کر رہ گیا ہے، پانی کے بل باقاعدگی سے آرہے ہیں۔ کیا اس قوم کو پانی مل رہا ہے، خون نے اب مختلف شکلیں اختیار کرلی ہے، اس کے بھی قواعد و ضوابط نہیں ہر غریب کے جسم میں تشویش کی لہریں آتی جاتی رہتی ہیں۔ کسی بھی محکمے میں چلے جائیں مگرمچھ منہ کھولے بیٹھے ہیں، ایمانداری پر تو کرپشن کی دھول چڑھ چکی ہے، یہ دھول کیسے ختم ہوگی، یہ اوپر والے کو معلوم ہے۔

انکم ٹیکس کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے، راقم اسپین کے شہر بارسلونا کے ائر پورٹ پر اٹلی جانے کے لئے پہنچا تو ایئر پورٹ پر بہت رش تھا۔ امیگریشن نے ٹکٹ اور پاسپورٹ دیکھا، ٹکٹ پر درج تھا کہ یہ مسافر انکم ٹیکس پیڈ ہے، مجھے بہت احترام سے کہا گیا کہ آپ کاؤنٹر نمبر5 پر جائیں، راقم کاؤنٹر نمبر پر5 پر گیا تو ٹوٹل دو افراد کھڑے تھے، جب میری باری آئی تو بہت عزت سے میرا ٹکٹ دیکھنے کے بعد ایک ٹافیوں کا بکس دیا کہ یہ آپ کا گفٹ ہے۔

اب یہاں کی سن لیں، 24 نومبر2017ءکو مجھے کے ڈی اے چورنگی پر پولیس نے روک لیا، لائسنس اور کاغذات طلب کئے، میں نے پوچھا جناب میرا کیا قصور ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ آپ نے حفاظتی بیلٹ نہیں باندھی ہوئی ہے، تقریباً 6 پولیس والے اس کام پر مامور تھے جبکہ ٹریفک کا یہ حال تھا کہ سائیکل گزرنے کی جگہ نہیں تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ انکم ٹیکس پابندی سے حکومت پاکستان کو دیتا ہوں، جواب ملا تو ہم پر کوئی احسان کررہے ہو، میں گاڑی سے اترا اور اپنے موبائل سے وہاں پھنسے رکشوں کو ریکارڈ کیا، جن کے آگے اور پیچھے نمبر پلیٹ ہی نہیں تھیں۔ چند نوجوان جو ایک بہت ہی خستہ موٹر سائیکل پر بیٹھے تھے، جن کی عمریں14 سے 16 سال کی تھیں اور آگے پیچھے نمبر پلیٹ ہی نہیں تھی۔ یقیناً ان کے پاس لائسنس بھی نہیں ہوگا کیونکہ بچوں کی عمریں 14 سے16 سال تھیں اور ٹریفک بری طرح جام تھا، انہیں اس کی فکر نہیں تھی۔

سڑک ٹوٹی پھوٹی ہونے کی وجہ سے کار والے ایک کونے سے گزر رہے تھے اور یہ ہر کار والے کو روک رہے تھے، انہوں نے مجھ سے پوچھا یہ تم کیا کررہے ہو۔ میں نے کہا ہم شریف شہری حکومت پاکستان کو ٹیکس دیتے ہیں تو تمہیں تنخوائیں ملتی ہیں۔ خیر انہوں نے مجھے کہا، بھائی صاحب آپ تو ناراض ہوگئے، برائے مہربانی آپ جائیں۔

بھلا بتائیے اس ملک میں جو انکم ٹیکس نہیں دیتا، وہ بہت مزے میں ہے جو حکومت کو ٹیکس دیتا ہے، یہ حکومتی ادارے اسے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اس سے بڑا اور کیا بے مقصد تصادم ہوگا، اس ملک کے معاشی و ثقافتی نظام کو حکمرانوں نے زبوں حالی کا شکار کردیا ہے۔

کرپشن میں ملوث افراد کی سوشل میڈیا پر غیر ممالک کی ویڈیوز اکثر آن ائر ہوتی رہتی ہیں بلکہ ان سیاست دانوں کو جو کرپشن میں ملوث ہیں، انہیں لندن میں غلیظ گالیوں سے بھی نوازتے دیکھا گیا ہے مگر وہاں ان کا کردار گونگے شخص کی طرح ہوتا ہے۔ کرپشن میں ملوث سیاست دان جب پاکستان آتے ہیں تو دھرلئے جاتے ہیں پھر ان کا پہلا بیان کہ یہ سیاسی انتقام ہے، چند دن شور شرابے کے بعد کسی کو دل کا عارضہ ہوجاتا ہے، کسی کو الرجی کی شکایت ہوجاتی ہے، کوئی کمر پکڑے عدالتوں میں آتا ہے پھر میڈیکل پیش کئے جاتے ہیں، عدالتوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ ان کی تکلیف کا علاج یہاں ممکن نہیں، لہٰذا عدالت اجازت دے کہ وہ انہیں امریکہ یا لندن جانے کی اجازت دے کیونکہ ان کی بیماری کا علاج یہاں ناممکن ہے، وکیل حضرات سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں، جب کرپشن عیاں نہیں ہوئی تھی تو یہ شاہانہ انداز میں قیامت کے پروٹوکول میں شہر میں پھرتے نظر آتے تھے، نہ انہیں ہارٹ کی تکلیف ہوئی اور نہ ان کو الرجی یا کمر کی تکلیف ہوتی تھی۔

اب عدالتیں ان سے سختی سے نمٹ رہی ہیں تو سب بیمار ہوگئے ہیں، ادھر قوم کا یہ حال ہے کہ مستقبل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے گلیوں اور فٹ پاتھوں میں پیدا ہورہے ہیں، کرپشن کے ناسور نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ کرپشن کی یہ حالت ہے کہ ای او بی آئی نا می ادارہ جو کہ بزرگوں کی پنشن کے حوالے سے کام کررہا ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار آج کل بیمار ہیں اور غیر ممالک میں مقیم ہیں، انہوں نے جتنی زیادتی سینئر سٹیزن کے ساتھ کی ہے، وہ تو دشمن بھی نہیں کرتے۔ ایک دشمن کسی کو مار دے تو مار کر بھی چھاؤں میں لاشے کو ڈالتے ہیں۔ انہوں نے تو غریبوں کو یعنی سینئر سٹیزن کو مار کر چھاؤں میں بھی نہیں، دھوپ میں ڈال دیا۔

کوئی سابق وزیر خزانہ سے یہ پوچھے کہ5250 روپے میں وہ کسی کے گھر کا بجٹ بناکر دکھائیں اور مزے کی بات دیکھیں کرپشن کے بادشاہوں نے اس ادارے کو بھی نہیں چھوڑا، اس میں بھی کروڑوں کی کرپشن کر ڈالی۔ انہوں نے ان لوگوں پر تو اپنا ہاتھ نہیں ڈالا بلکہ تکبر کا ہاتھ بزرگوں پر ڈال دیا اور انہیں پنشن کی مد میں 5250 روپے دیئے جارہے ہیں۔

اب آتے ہیں کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے بل کی طرف، شرائط ملاحظہ کیجئے۔ صفائی ستھرائی، جراثیم کش اسپرے، سٹی وارڈن کی ٹریفک کی روانی میں مدد، ساحل سمندر ہے، پر جانوں کے تحفظ کے لئے لائف گارڈ، شاہراؤں، پلوں اور انڈر پاسز کی دیکھ بھال۔

قارئین آپ بتائیں انصاف کے تقاضوں کے تحت ہر 3 ماہ بعد یہ بل جو تقریباً 756 روپے باقاعدگی سے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن شہریوں سے لیتی ہے، جن نکات کی طرف راقم نے توجہ دی ہے، کیا پابندی سے بل لینے کے باوجود وہ کام ہورہے ہیں تو پھر عوام صبر سے اس شعر پر گزارہ کریں۔

”تمہاری بے رخی ایک دن ہماری جان لے لے گی
قسم تم کو ذرا سوچو کہ دستورِ وفا کیا ہے“


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں