میں نے اسے سڑک کنارے ایک ڈھابہ ہوٹل پر دیکھا تھا‘ وہ بہت زیادہ باتونی نہیں تھا بس گم سم سا رہتا تھا اس کی معصوم آنکھوں میں بڑے بڑے خواب موجود تھے جیسے یہ بےتاب نگاہیں کچھ کہنا چاہ رہی ہوں ۔
خرم کی عمر زیادہ بڑی نہیں تھی لیکن میچیور ہونے کا تعلق کبھی بھی عمر سے نہیں ہوتا ، ہاں انسان کے حالات اسے سنجیدہ یا من چلا بنا دیتے ہیں ۔ بہرحال میرے لئے بڑی حیرت کی بات تھی کہ وہ پانچ سال کا ہوتے ہوئے بھی پچھتر سال کے بوڑھے جیسی باتیں کرتا تھا حالانکہ اس عمر کے بچوں کو تو آج کل ٹی وی اور اسمارٹ فون سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ وہ کبھی اپنے گھر والوں کے بارے میں بھی جان سکیں ۔
شاید اس وجہ سے کہ ان ہوٹلوں ، کارخانوں اور ورکشاپوں پر کام کرنے والے بچوں کا بچپن تو اسی دن ختم ہو جاتا ہے جب سے وہ کام کرنے کا آغاز کرتے ہیں اور اپنے گھر والوں کے لئے کمانا شروع کر دیتے ہیں ۔
میرے ساتھ خرم کا بس اتنا تعلق تھا کہ میں نے ایک دن اسے کہا تھا کہ تم فالتو میں وقت ضائع کرنے کی بجائے مجھ سے کچھ نہ کچھ پڑھ ہی لیا کرو حالانکہ میرے پاس خوداتنا وقت کہاں تھا کہ میں اسے کچھ باقاعدگی سے پڑھا سکوں لیکن کچھ کام صرف اس لیے کرنا ضروری ہوتے ہیں کہ آگے کا سامان ہوسکے ۔
بس یہی سوچ کر میں دفتر سے واپسی پر کچھ دیر اسے ابتدائی جماعتوں کا قاعدہ پڑھا دیتی تھی جو میرے بھتیجے شبر کا تھا اور وہ اب اگلی جماعت میں چلا گیا تھا تو اس کی کتابیں خرم کے کام آسکتی تھیں ۔
اسے ملتے ہوئے روز میں اس کی شرٹ پر کڑھائی سے بنا ہوا ’میں پاکستان ہوں ‘ کا جملہ دیکھتی تھی اور سوچتی تھی کہ آج لازمی اس سے پوچھوں گی کہ تم یہ شرٹ کیوں پہنتے ہو ؟۔
ایک دن میں اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے ہوٹل کی سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئی اسے سبق سنانے میں کچھ دیر ہو گئی تھی اور استاد نے اسے برتن دھونے کے لئے کہہ دیا تھا ‘ وہ دس منٹ کا کہہ کر اندر چلا گیا ۔
جب واپس آیا تو میں نے پوچھا کہ خرم تم یہ شرٹ روز ہی کیوں پہنتے ہو؟ تو وہ مسکراتے ہوئے بولا ، ’’باجی سب ہی مجھ سے یہ پوچھتے ہیں اور یہ کڑھائی میری ماں نے اس قمیض پر کی ہے کیونکہ میں خود پاکستان ہوں ، میرا چلنا پھرنا ، بات کرنا سب کچھ ہی اس پاکستان کا ہے ، میں تو پاکستان کی ’’مشوری ‘‘ ( مشہوری / مارکیٹنگ ) کر رہا ہوں ۔ باجی کیا آپ کو عجیب نہیں لگتا کہ لوگ سوچتے ہیں کہ شاید پاکستان میں صرف بم دھماکے ہوتے ہیں ، شاید یہاں پر بس ایک جنون ہے ، پاگل پن ہے ۔ باجی ہم اچھی چیزیں کیوں نہیں دکھاتے ؟ باجی ہمیں ٹی وی پر اچھی اچھی چیزیں بھی تو دکھانی چاہیں ناں ‘‘۔
باجی ہم تو غلط ہی ہیں کہ ہم پاکستان کی اچھی مشوری نہیں کر رہے ،اس کا اچھا روپ لوگوں کو نہیں دکھا رہے ، دراصل میں پاکستان سے بہت محبت کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کو بھی لوگ اچھا سمجھیں ، یہاں پر آئیں اور اس کی خوب صورتی کو دیکھیں ۔ ‘‘
ابھی وہ یہ بات ہی کر رہا تھا کہ میری آنکھوں سے آسو جاری ہو گئے کہ ایک طرف یہ معصوم بچہ ہے اور دوسری طرف ہمارا صاحب اقتدار طبقہ ہے جو کبھی اپنی ذات سے آگے نہیں سوچ سکتا۔ ساتھ ہی ساتھ میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ کچھ لوگ تو پانچ سال کی عمر میں اپنی پوری عمر جی جاتے ہیں اور کوئی ایسے بے بہرہ ہوتے ہیں جو پچاس سال کی عمر تک پہنچ کر بھی زندہ لاشوں کی مانند ہو تے ہیں ۔
کاش خرم جیسے بچے جو کہ پاکستان کا مستقبل نہیں بلکہ ازخود پاکستان ہیں‘ وہ اربابِ اختیار تو دور کی بات ہماری عوام ہی کی توجہ کا مرکز بن جائیں اور ان کا مقدر کسی ہوٹل یا گیراج پر مزدوری کرنے کے بجائے کوئی ایسا تعلیمی ادارہ ہو جہاں وہ اپنے بہتر مستقبل کے لیے معیاری تعلیم حاصل کرسکیں۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں