The news is by your side.

سب اچھا ہے: شادیوں میں کھانے پر پابندی کیوں نہیں

قومی سطح پر اس عوام کا سب سے بڑا مسئلہ روایات کی پاسداری نہ کرنا ہے جو دن بہ دن گھمبیر ہوتا جارہا ہے، ہمارے نظامِ عدل میں بے شمار خامیوں کی وجہ سے ہم مایوسیوں کی دلدل میں اترتے جارہے ہیں، اگر اس معاشرے میں انصاف کا پرچم بلند نہ ہوا تو طبقاتی جنگ عروج کا راستہ اختیار کرلے گی، حصولِ انصاف کی راہیں محدود کردی گئی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عوام کے حق کی بات نہ کی جائے تو اس نے چیخ و پکار کے بجائے خاموشی اختیار کرلی ہے، غریب بے مقصد تصادم کو پسند نہیں کرتا۔ ہمارے معاشرے میں عوام خوب صورت زندگی گزارنے کا تصور ہی نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے عوام کسمپرسی کی زندگی ان امیروں کے سامنے خاموشی سے گزارنے پر مجبور ہیں۔

مزے کی بات دیکھیں کہ سیاسی بیانات بڑے پُرلطف ہوتے ہیں، عوام کے دلوں میں امید کی کرن جاگتی ہے مگر یہ صاحبِ حیثیت لوگ جب عوامی سطح پر کسی خوشگوار سیاسی بیان کو پڑھتے ہیں تو انہیں اس میں بڑی مشکلات نظر آتی ہیں جبکہ ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ مسائل جھیلنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہوتی ہے پھر یہ کروڑوں لوگ سینکڑوں لوگوں سے ہار جاتے ہیں اور پھر ان کے مسائل چنگاری کی طرح راکھ میں دب جاتے ہیں، کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دان اور بیوروکریٹ دانشمندانہ فیصلوں سے کوسوں دور ہوتے جارہے ہیں اور تکبر کے چراغوں میں غربت کا خون جل رہا ہے۔

ہمارے سیاسی حضرات کے پاس عوامی تنازعات نمٹانے کے لئے وقت ہی نہیں ہے اور غریبوں کے لئے کیسی خوفناک صورت حال ہے۔ گزشتہ سال ایک اشتہار31-10-16 کو اخبارات میں آیا جس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے عوام سے ایک وعدہ کیا تھا کہ شادیوں میں صرف ون ڈش کی اجازت ہوگی اور وہ گھرانے بہت خوش ہوئے جن کے گھر بیٹیاں بیٹھی ہیں اور وہ غربت کی چھاؤں تلے اچھے وقت کا انتظار کررہے تھے پھر کچھ دن بعد اخبارات میں ایک خبر بڑی نمایاں طور پر موجود تھی کہ کراچی میرج ہال، لان اور بینکوئٹ اونرز ایسوسی ایشن کو کچھ اعتراضات ہیں اور پھر ان اعتراضات کو منظور وسان، ایم پی اے سعید غنی اور مولا بخش چانڈیو کی توسط سے وزیراعلیٰ تک پہنچادیا گیا اور آج اس بات کو ایک سال ہوگیا ہے اور وہ اعتراضات بغیر کسی فیصلے کے جیت گئے اور غربت ہارگئی، یوں یہ معاملہ سرد خانے کا شکار ہوگیا۔ ہوسکتا ہے کہ محترم وزیراعلیٰ اس بیان اور اس اشتہار کو بھول چکے ہوں۔

مراد علی شاہ صاحب جو عزت رب کریم نے آپ کو دی ہے وہ بہت کم خوش نصیبوں کو ملتی ہے۔ آپ صوبہ سندھ کے اختیارات کے مالک ہیں اور ان اختیارات کی زد میں غریب جو غربت کے مارے ہیں اور امیر جو شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں، دونوں آتے ہیں۔ آپ کلی اختیارات کے مالک ہیں، یہ بات تو آپ بھی جانتے ہیں، آپ پہلی فرصت میں ون ڈش نہیں بلکہ پابندی کا فوری اعلان کرکے غریبوں کی دعا کے حصار میں مقید ہوجائیں۔ آپ کے اس اعلان کے بعد غریبوں کے عزت و نفس میں جو خوب صورت رنگ اترگئے تھے، ان رنگوں کو برقرار رہنے دیں۔

محترم وزیراعلیٰ آپ بتائیں جس کی چار بیٹیاں ہیں اور وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے، وہ تین سو افراد کے کھانے کے دو سے تین لاکھ کہاں سے لائے گا، اس میں ہال کا کرایہ شامل نہیں، اگر آپ کھانے پر پابندی کا بل اسمبلی سے پاس کراتے ہیں تو آپ کو اندازہ نہیں ان دعاؤں کے سحر میں آپ کا کتنا اقبال بلند ہوگا اور آپ پروردگارِ عالم کے کتنے قریب ہوں گے، اگر آپ شادی کے کھانے پر پابندی عائد کرنے پر کامیاب ہوجاتے ہیں تو غریب کے پاس تو عزت بچانے کے لئے ایک جملہ ہوگا کہ کیا کریں ”بھئی کھانے پر پابندی ہے“ اس غریب کے پاس عزت اور رقم بچانے کا ایک راستہ تو ہوگا کہ وہ مالی طور پر توہین اور تذلیل سے بچ جائے گا۔

بینکوئٹ ہالوں میں کرایہ ڈیڑھ لاکھ سے کم نہیں، ہماری اکثریت کرائے کے مکانوں میں رہتی ہے اور ہر گھر میں بیٹیاں موجود ہیں، اب جس کی تنخواہ کم از کم چالیس ہزار ہے وہ بیس ہزار کرائے کی مد میں دیتا ہے، باقی بچے بیس ہزار۔ اب اس بیس ہزار میں پیٹ کی دوزخ کو بھی بجھانا ہے، بچوں کی تعلیم بھی ہے، اب ایسے میں وہ کس طرح ہال کا کرایہ ڈیڑھ لاکھ دے گا، کیسے ایک لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ میں کھانے کا انتظام کرے گا۔ آپ سچے دل سے سوچیں ہال کا مسئلہ تو حل ہوسکتا ہے غریب کا کہ اسے سیکیورٹی دی جائے تو وہ باہر ٹینٹ لگا کر بھی ڈیکوریشن کا کرایہ 25 ہزار دے کر اپنی بچی کی شادی کردے گا اور ٹینٹ کے باہر شادی کے اختتام تک پولیس موبائل موجود ہوں اور شادی والا گھر عزت و تکریم سے پولیس موبائل کو5 ہزار اچھی سیکیورٹی کے نام پر دے دیں جس کی باقاعدہ شرط رکھ دی جائے اور یہ پیسہ تھانے میں جمع ہو جو پولیس ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے کام آئے۔

یہ تجویز آپ پاس کروائیں تاکہ ڈیڑھ لاکھ کرایہ جو غریب کے بس سے باہر ہوچکا ہے، اس کی جان چھوٹ جائے، آپ شادی کے کھانے پر فوری پابندی کا اعلان کریں، بینکوئٹ اونرز ایسوسی ایشن کے اعتراضات تو مان لئے اور غریب بے چارہ مایوسی کی ڈفلی بجا رہا ہے، اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں، اگر آپ نے شادی کے کھانے پر پابندی عائد کردی تو میرے محترم وزیراعلیٰ آپ یقین مانیے، رب گواہ ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں آپ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، پابندی جس کو نہیں کرنی اس کی بھی تفصیلات آپ کو بتاتا ہوں۔

ماضی میں شادی کے کھانے پر پابندی عائد تھی، پرویز مشرف کا دور تھا بحیثیت ایک صحافی کے ایک خوش حال امیر وکبیر سیاسی شخصیت کی بیٹی کی شادی میں جانے کا اتفاق ہوا، جب لان پہنچا تو ہال کو چاروں طرف سے پولیس اور سیکیورٹی والوں نے حصار میں لے رکھا تھا، وہاں MNA، MPA، وزیر، مشیر، بیوروکریٹ افراد کثیر تعداد میں موجود تھے، لاتعداد مختلف ڈشز میزوں پر موجود تھیں اور آنے والے مہمانوں پر پھول نچھاور کئے جارہے تھے، یہ تھی پابندی عائد ہونے کے باوجود خوش حال گھرانے کی شادی، جنہوں نے قانون کو لاقانونیت میں لپیٹ دیا اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، جو پوچھنے والے تھے وہ خود پہرے دار تھے۔

دوسری بات ایک قابل غور اور ہے کہ آج ہالوں کو رات 12 بجے بند کرنے کا ایک قانون نافذ ہے، ان اوقات کو12 کے بجائے11 بجے کیا جائے تاکہ لوگ جلدی سکون سے اپنے گھروں کو جاسکیں، اس پر بھی عمل کروائیں، ویسے بھی غریبوں کا ایک بڑا حلقہ آپ کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے کہ آپ کے والد محترم عبداللہ شاہ (مرحوم) کی خدمات غریبوں کے لئے بہت تھیں، آپ کھانے پر پابندی عائد کریں تاکہ غربت کے مارے آپ کے اچھے فیصلے سے انسانیت سوز تذلیل سے بچ سکیں۔ رب کی رضا کے تحت آپ قدم اٹھائیں، صوبہ سندھ کا ہر حلقہ آپ سے محبت کا ثبوت دے گا، وہ کسی بھی قومیت کا حلقہ ہو اب تو غریب اور غربت تناور درختوں کی طرح موجود ہے۔

آپ کے دانشمندانہ فیصلے کے بعد جن کے پیروں میں دولت کی پازیب ہے وہ اس اچھے فیصلے پر آپ کے پاس روتے دھوتے ضرور آئیں گے مگر یہ یاد رکھیں شاہ صاحب، ان کی تعداد چند سو کی ہے جبکہ جن مسائل پر روشنی ڈالنی ہے، ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ منظور وسان، سعید غنی اور مولا بخش چانڈیو نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میں سابق صدر جناب آصف علی زرداری اور جناب وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ ان غریب، نادار، مفلس، سختیاں جھیلنے والوں کی دعائیں لیں، اس سے آپ رب کی عدالت میں بھی سرخروں ہوں گے، یہی ایک سچے اور نیک مسلمان کی سب سے بڑی فتح ہے کہ بے شک ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔

کیا خوب اس موقع پر شاعر نے کہا۔۔۔

خلوصِ دل سے ہو سجدہ تو اس سجدے کا کیا کہنا
وہیں کعبہ سرک آیا، جبیں ہم نے جہاں رکھ دی

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں