The news is by your side.

اک شخص سارے شہر کو ویراں کرگیا

سمجھ میں نہیں آرہا کہ قاضی واجد کی زندگی سے وابستہ باتیں کہاں تک لکھوں، بس اب تو وہ ایصالِ ثواب کے حق دار ٹھہرے، ان کی صاحبزادی اور اہلِ خانہ کو صبر کی تلقین کا ہی کہہ سکتے ہیں۔ مرحوم قاضی واجد ہمیشہ امن و محبت کا درس دیتے رہے، جب راقم پی ٹی وی سے1992ءمیں کرنٹ افیئر کے پروگرام کرتا تھا اور جب بھی پی ٹی وی میں ملتے تو بڑے پیار سے گال پر ہلکا سا ہاتھ مار کر کہتے ”م ش خ بہت اچھا پروگرام کرتے ہو“ اب ان کے انتقال کی خبر اور تفصیلی آرٹیکل لکھتے ہوئے آنکھوں میں نمی اور زندگی میں اداس رنگ بکھر گئے ہیں۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے آمین ثم آمین۔۔۔ ان کا تقریباً 50 سال میڈیا سے تعلق رہا، سب سے پہلے ریڈیو آرٹسٹ بنے ان سے ہماری ملاقاتیں جمشید انصاری (مرحوم) کے توسط سے رہیں۔

سنہ 1964ءمیں ریڈیو سے وابستہ ہوئے، ریڈیو میں اخلاق حسن (مرحوم) گٹار بجایا کرتے تھے، انہوں نے پروڈیوسر ایس ایم سلیم (مرحوم) سے قاضی واجد کی ملاقات کرائی اور پھر وہ ریڈیو سے وابستہ ہوگئے، اس وقت کا سپرہٹ ڈرامہ ”حامد میاں“ سے وابستہ ہوگئے، یہ ڈرامہ ہر اتوار کی صبح نشر ہوتا تھا، ڈرامے کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ریڈیو سامنے رکھ کر لوگ صبح کا ناشتہ کرتے تھے، اس زمانے میں صرف پی ٹی وی تھا۔ ریڈیو اور پی ٹی وی کے آرٹسٹ کو جو عزت ملتی تھی وہ آج سپر اسٹار کو بھی نہیں ملتی۔

اسی سال ایسٹرن اسٹوڈیو میں فلم ”آزادی“ کا افتتاح ہوا، فلم کے پروڈیوسر امجد خان نے انہیں ہیرو لینے کی کوششیں کیں، قاضی واجد (مرحوم) نے فلم میں کام کرنے سے انکار کردیا، اس وقت کے معروف اسٹل فوٹو گرافر ڈی کے اختر سے قاضی واجد کی بہت دوستی تھی۔ امجد نے ان کے توسط سے ایک کوشش اور کی مگر انہوں نے پھر بھی انکار کردیا، اس کے بعد درپن (مرحوم) کو اس فلم میں ہیرو لے لیا مگر اتفاق سے پھر یہ فلم کچھ وجوہات کی بناءپر نہ بن سکی۔

سنہ 1970ءکی دہائی میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک ولن ہوا کرتے تھے، راشد اختر (مرحوم) یہ قاضی واجد کے بہت گہرے دوست تھے، ان سے ہماری بہت یاد اللہ تھی، راشد اختر (مرحوم) پاکستان چوک میں رہتے تھے، وہاں قاضی واجد (مرحوم) آیا کرتے تھے ان سے وہاں ملاقاتیں ہوتی تھیں، جب انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا تو اس پر ایک واقعہ سناتے ہوئے قاضی واجد (مرحوم) نے بتایا کہ1986ءمیں کراچی جیم خانہ میں ایک تقریب، جس میں صدرِ پاکستان ضیاءالحق (مرحوم) نے آنا تھا، ہمیں بھی اسپیشل کارڈ بھیجا گیا، اتفاق سے راشد اختر بھی اس تقریب میں موجود تھے اور کارڈ راشد کی گاڑی میں رہ گئے، ہم باتیں کرتے ہوئے کراچی جیم خانہ کے گیٹ پر آگئے سیکیورٹی والوں نے کارڈز مانگے، اب ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

راشد اختر (مرحوم) کو سیکیورٹی والوں نے روک لیا، اس بے چارے نے بتایا کہ میں فلم ایکٹر ہوں۔ انہوں نے اندر بھیجنے سے معذرت کرلی مگر ہمیں دیکھ کر مسکرائے اور کہا قاضی صاحب آپ جاسکتے ہیں، آپ تو بڑے آرٹسٹ ہیں، خیر راشد اختر (مرحوم) اپنی گاڑی سے ہمارا اور اپنا کارڈ لے آئے ہم اندر جاچکے تھے اور راشد کو کارڈ دیکھ کر اندر جانے دیا۔ تھوڑی دیر بعد ضیاءالحق (مرحوم) تشریف لے آئے، بزنس سے وابستہ حضرات نے یہ تقریب سجائی تھی، ضیاءصاحب نے تقریر شروع کی، جب ان کی نظر ہم پر پڑی تو مسکرا کر بولے، قاضی واجد بھی آج ہماری تقریب میں موجود ہیں اور انہیں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی، ان سے تفصیلی ملاقات تقریب کے بعد ہوگی۔

ضیاءصاحب (مرحوم) فنکاروں کی بہت عزت کرتے تھے، تقریب کے اختتام پر جب وہ اپنی سیٹ پر آکر بیٹھے تو ان کے ملٹری سیکریٹری نے ان کا پیغام دیا کہ آپ کو ضیاءصاحب یاد کررہے ہیں، بہت شفقت سے ملے اور کہا کہ آپ کا ڈرامہ ”تعلیمِ بالغان“ میں نے دیکھا، آپ نے غضب کی اداکاری کی، میں آپ کا فین ہوں، یہ بات اخبارات نے بھی پرنٹ کی۔ تقریب کے اختتام پر میں نے راشد اختر کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ میاں پی ٹی وی کی کیا بات ہے، کاش تم بھی پی ٹی وی ایکٹر ہوتے، ٹی وی آرٹسٹ بدرخلیل کے شوہر شہزاد خلیل (مرحوم) نے جب پی ٹی وی کے ڈرامے ”تنہائیاں“ کا آغاز کیا تو میری منہ بولی بہن یاسمین اسماعیل نے مجھے شہزاد خلیل (مرحوم) سے کہہ کر اس ڈرامے میں کاسٹ کروایا تھا۔

انہوں نے ایک اور واقعہ سناتے ہوئے بتایا تھا، جب ”تعلیمِ بالغان“ ڈرامے کا آغاز ہونے والا تھا تو میں ایک دوست کی شادی میں شرکت کے لئے حیدرآباد گیا ہوا تھا، یہاں ڈرامے کے ہدایتکار آغا ناصر ہمیں تلاش کررہے تھے، ہم کراچی میں ہوتے تو انہیں ملتے، رابطے کا کوئی سلسلہ نہیں تھا، موبائل نہیں تھا صرف ٹیلی فون ہوا کرتا تھا وہ بھی امیروں کے گھرانے میں ہوتا تھا، دو دن کے بعد جب کراچی آئے تو پی ٹی وی گئے، وہاں گیٹ پر ہی ہمیں بتایا گیا کہ آغا صاحب آپ کو تلاش کررہے ہیں، اس زمانے میں سینئرز کا بہت ادب ہوتا تھا، اب تو ادب بے ادبی کے پودے گھر میں لگاتا نظر آتا ہے۔

آغا ناصر سے ملے یقین مانیں، انہوں نے بہت ڈانٹا کہ جب تمہاری ضرورت ہوتی ہے تو پی ٹی وی کا رخ نہیں کرتے۔ خیر ہمیں ”تعلیمِ بالغان“ میں کاسٹ کرلیا گیا، محمودعلی (مرحوم) نے بہت اعلیٰ کردار جو ٹیچر کا تھا کیا، اس ڈرامے کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ سڑکیں ڈرامہ شروع ہونے سے قبل سنسان ہوجاتی تھیں، دکانیں بند ہوجاتی تھیں، اب تو وہ زمانہ رہا نہ وہ لوگ رہے۔

سنہ 1953ءمیں ایک اسٹیج ڈرامہ ایک گارڈن میں ہوا تھا، جس کا نام ”غربت“ تھا۔ اس کی ریہرسل میں، میں اور ڈرامے کے ایک اور فنکار اعجاز احمد جارہے تھے جو ایک سرکاری اعلیٰ آفیسر تھے، اتفاق سے گاڑی کا پیٹرول ختم ہوا اور خاص پیٹرول پمپ کے سامنے گاڑی بند ہوگئی، اس زمانے میں پیٹرول 15 پیسے لیٹر تھا اور ڈھائی روپے میں ٹنکی فل ہوگئی۔ بکرے کا گوشت سوا روپے کلو تھا، اب تو سوچتا ہوں تو دماغ ماؤف ہوجاتا ہے کہ مہنگائی نے غریب کی تو کمر توڑ کر رکھ دی ہے، اس ڈرامے میں میں سائیڈ ہیرو تھا اور مجھے معاوضہ 15 روپے ملا تھا جبکہ ڈرامہ دوگھنٹے کا تھا۔

ماضی کی سپرہٹ ہیروئن سورن لتا اس ڈرامے کی ہیروئن تھیں، یہی وہ سورن لتا تھیں، جن کی مقبولیت دیکھتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو (مرحوم) نے ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا، یہ ایوب خان (مرحوم) کی صدارت کا دور تھا۔ ٹی وی آرٹسٹ نور محمد لاشاری (مرحوم) کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی وی کے ڈرامے ”ماروی“ میں مرحوم میرے ساتھ کام کررہے تھے۔

ڈرامے کی ریہرسل کے دوران کہنے لگے ”یار قاضی پیدا تم لاہور میں ہوئے، ہم سندھ میں ہوئے ہم تو اردو کا تلفظ آج تک ٹھیک نہ کرسکے اور تم پیدا لاہور میں ہوئے مگر کمال کی اردو بولتے ہو، ان کے ذکر پر قاضی واجد (مرحوم) بہت افسردہ ہوگئے تھے۔ لاہور کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ میاں کھانے کے ہمیشہ سے شوقین تھے اور ہمارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گڑو شاہی لاہور میں ”پہلوان ہوٹل“ میں پائے بہت اچھے ملتے تھے اور بدھ کے روز چھٹی یہ ہم ضرور کھانے جاتے، اپنے چند دوستوں کے ساتھ اور پھر لاہور کی کیا بات ہے۔

قاضی واجد بہت شائستہ کامیڈی کرتے تھے اور ان کی خوب صورت کامیڈی کے فنکار بھی مداح تھے، ہمیں سفیر بھائی (اداکار لہری) نے بتایا تھا کہ میں کامیڈی میں کسی سے متاثر نہیں مگر مجھے اگر کسی نے متاثر کیا تو وہ قاضی واجد ہیں اور بڑے وضع دار آدمی ہیں، اتنا خوب صورت مذاق کرتے ہیں کہ سنجیدہ شخص بھی قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجائے، ویسے وہ کمال کے اداکار ہیں، اللہ انہیں زندگی دے اور واقعی پی ٹی وی کا ڈرامہ ”تعلیمِ بالغان“ اس کا زندہ منہ بولتا ثبوت ہے۔

ڈاکٹر سیدعلی ارسلان جو لیاقت نیشنل اسپتال میں دمہ، ٹی بی اور پھپڑوں کے وارڈ کے ہیڈ ہیں اور بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ ٹی وی ڈراموں کے بہت اعلیٰ مصنف ہیں۔ انہوں نے جب پی ٹی وی ایوارڈز یافتہ سیریل ”راستہ دے زندگی“ لکھی تو قاضی واجد نے ہمیں بتایا کہ پیشے کے لحاظ سے وہ ڈاکٹر ہیں مگر بحیثیت مصنف میں ان کی دل سے قدر کرتا ہوں کہ ان کے کریڈٹ پر کئی سپرہٹ سیریل ہیں جو مختلف چینل سے آن ائر ہوئی، ان میں اے آروائی بھی شامل ہے۔

قاضی واجد انہیں اکثر اپنی طبیعت کے حوالے سے ملتے رہتے تھے، آج کل ان کی سیریل ”کرامت اے عشق“ ناظرین میں بہت مقبول ہورہی ہے، قاضی واجد کے انتقال پر ڈاکٹر سیدعلی ارسلان کا راقم کے پاس فون آیا، ان کی آواز کی اداسی بتارہی تھی کہ وہ بہت رنجیدہ ہیں، ان کے انتقال پر اور بتارہے تھے کہ میں طنزو مزاح پر ایک سیریل لکھ رہا ہوں ”دیکھا جائے گا“ میری ان سے ملاقات جو تفصیلی تھی، 12 نومبر2017ءکو ہوئی تھی اور اس سیریل میں ان کے لئے خصوصی کردار ”چاچا خوامخواہ“ لکھنے والا تھا، اب سوچ رہا ہوں کہ اس کردار کو کون ادا کرے گا کہ اچھے فنکار تو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

اب تو سینئرز میں قوی خان، ضیاءمحی الدین، عائشہ خان، کلثوم سلطان، انور مقصود اور اداکار ندیم رہ گئے ہیں، رب تعالیٰ انہیں زندگی دے کہ یہ فن کا سہارا ہیں۔ قاضی واجد (مرحوم) 11 فروری 2018ءکو سینے اور دل کی تکلیف کے باعث اسپتال میں داخل ہوئے اور پھر اپنے رب کی طرف لوٹ گئے۔

مرحوم لاہور میں1930ءکو پیدا ہوئے، ان کے سپرہٹ ڈراموں میں ان کہی، دھوپ کنارے، تنہائیاں، ماروی، خدا کی بستی، تعلیمِ بالغان قابلِ ذکر ہیں اور خاص طور پر آنگن ٹیڑھا میں ان کا اور سلیم ناصر (مرحوم) کا تاریخی خوب صورت کردار تھا۔

بھٹو، ضیاءالحق ان کی پسندیدہ شخصیت تھیں، گلوکاروں میں مہدی حسن، نورجہاں کو پسند کرتے تھے جبکہ ہیروئن میں مسرت نذیر اور زیبا ان کی پسندیدہ اداکارہ تھیں کہ راقم کی ان سے دو ملاقاتیں اداکار محمدعلی (مرحوم) کے گھر میں ہوئیں۔

رب نے انہیں بہت خوب صورتی سے نوازا تھا، بہت زندہ دل انسان تھے، دوستوں کے دوست تھے، شاعری میں مزاحیہ شاعر دلاور فگار (مرحوم) کو بہت پسند کرتے تھے۔ دوستوں کے حوالے سے کہا کرتے تھے کہ فکرِ روزگار نے فاصلے بڑھادیئے اپنے ورنہ سب یار ساتھ تھے۔

آدھے جدا ہوگئے، آدھے خفا ہوگئے
کچھ گمشدہ تو کچھ شادی شدہ ہوگئے

قاضی واجد کے جانے کے بعد فن کی درسگاہ یتیم ہوگئی کہ وہ لائقِ تحسین تھے، اعلیٰ و ارفع شخصیت کے مالک قاضی واجد ہم سے بہت دور چلے گئے مگر ان کی خوبصورت باتیں آج بھی ان کے پرستاروں کے دامن میں لپٹی ہوئی ہیں جو اعزاز و اکرام ان کو فن کی طرف سے ملا، ایسا بہت کم خوش نصیبوں کو ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔۔۔ آمین ثم آمین۔

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا، تیرے ساتھ ایک دنیا تھی


خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں