The news is by your side.

طلاق یا خلع ، معاشرتی عتاب کا نشانہ صرف عورت ؟

شروع میں ہم جس محلے میں رہا کرتے تھے وہاں بالکل سامنے والے گھر سے لڑائی اور مارپیٹ کے ساتھ ساتھ رونے کی آوازیں بھی آتی تھیں رات کے سناٹے میں یہ چیخیں اور کراہیں بہت ہیبت ناک محسوس ہوتی تھیں ، ہم سب لوگ بہت حیران ہوا کرتے تھے کہ صبح ہوتے ہی یہ آوازیں ایسے غائب ہو جاتی تھی جیسے کوئی بھوت بنگلہ ہو اور رات بھر شور مچانے کے بعد بھوت اپنا بوریا بسترا سمیٹ کر کہیں غائب ہو گئے ہوں ۔

وہ دن بھی ایک ایسا دن تھا جب رات بھر ہم بھی ہمسائیوں کے ساتھ جاگتے ہی رہے تھے اور پتہ چلا تھا کہ آج صبح ہی ناہید باجی کو ان کے میاں نے طلاق دے دی تھی ، ان کے بہن بھائی انھیں لینے کے لئے آئے تھے، پوری گلی میں سامان بکھرا ہوا تھا اور ناہید باجی کے بچے زار و قطار رو رہے تھے ۔ ہمسائیوں میں سے جتنے منہ اتنی باتوں کے مصداق سب لوگ اپنی اپنی بولی بول رہے تھے ۔

کسی کا یہ خیال تھا کہ اب ناہید کا کیا ہو گا ، طلاق کا یہ داغ اور چھوٹے بچوں کا ساتھ ، تو کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ ناہید ہی خراب ہو گی کیونکہ کوئی بھی مرد اتنی آسانی سے اتنی انتہا پر نہیں آتا ، کسی کو یہ فکر تھی کہ توبہ توبہ ناہید کو ماں باپ کی عزت کا کیا خیال ؟ یہاں سسرال سے تو اس کا جنازہ ہی جانا چاہیے ناں تھا ، کسی کو یہ قلق تھا کہ ان ڈراموں نے نئی نسل کو تباہ کر دیا ہے اب دن رات لوگ وہاں طلاقیں دیکھیں گے تو کیا ہو گا ؟ وہ خود بھی یہی کریں گے ۔

ناہید جیسی کتنی ہی لڑکیاں ہیں جو ارمان دل میں سجائے کسی کا بھی گھر سجانے آجاتی ہیں ۔ لیکن کہیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ سال ہونے کو آیا ابھی تک میرے آنگن میں کوئی پوتا نہیں آتا ، بس میں اپنے بیٹے کی دوسری شادی کروا کے ہی رہوں گی ۔ دوسری طرف ماں باپ یہ کہتے ہیں کہ بیٹی تیری ڈولی ہی بڑی مشکل سے اٹھائی ہے‘ اب باقی بہن بھائیوں کی بھی فکر کرو اور جس گھرمیں جا رہی ہو اس کو اپنا گھر ہی سمجھو اور یہاں بار بار مت آنا اب وہی تمھارا گھر ہے ۔

کبھی تو خاوند سے یہ سننا پڑتا ہے کہ مجھے تو میری کلاس فیلو پسند تھی لیکن اماں کو تم پسند آگئیں خیر میں تمھیں طلاق دے دوں گا ، بھئی کون ان صاحب بہادر سے پوچھے کہ آپ کلاس فیلو کے ماں باپ کے ہی منت کرلیتے‘ اپنی اماں کو سمجھالیتے ، میری زندگی تباہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟۔

طلاق ہو جائے یا خلع لیا جائے‘ معاشرتی عتاب کا نشانہ صرف عورت ہی کیوں بنتی ہے ؟ اسے ہی کیوں گھر کی تباہی کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے ، ہم اس عدم برداشت کو کیوں نہیں دیکھتے جو ایک ساس یا نند کے دل میں اپنے بیٹے یا بھائی کی شادی کرتے ہی پیدا ہونے لگتی ہے ، ہم اس بے حس رویے کو کیوں نہیں دیکھتے جہاں لڑکیاں شادی ہوتے ہی الگ گھر کے سپنے دیکھنے لگتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ان کا شوہر بس انہی کو پیارا ہو جائے ۔

ہم ان ڈراموں کو کیوں بھول جاتے ہیں جن میں ہر قسط میں گھر سے بھاگنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں اور شوہر سے زیادہ عاشقوں کی اہمیت بتائی جاتی ہے ۔ طلاق یا خلع کی وجہ کچھ بھی ہو‘ افسوس ناک تو یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے اور حیرت انگیز طور یہ شرح لاہور میں سب سے زیادہ ہے ۔ سن دو ہزار سولہ میں صرف لاہور میں دس ہزار سے زیادہ طلاقیں ہوئیں اور اس کی بنیادی وجہ پسند کی شادی تھی ۔

باقی شہروں کا حال بھی الگ نہیں کراچی میں طلاق کی شرح میں چالیس فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے یہاں یومیہ چالیس کیس خلع کے درج ہوتے ہیں ۔پاکستان میں نئے فیملی قوانین ( فیملی کورٹس ایکٹ اکتوبر ۲۰۰۵ دفعہ (۴) سیکشن (۱۰) کے تحت طلاق کا عمل بہت آسان ہو گیا ہے ۔ گوجرانوالہ میں دو ہزار پندرہ میں پانچ ہزار میں سے پینتالیس سوعورتوں نے خلع حاصل کی ۔

طلاق لینے کے حوالے سے دنیا بھی میں کئی مختلف قسم کے قوانین رائج ہیں ۔برطانیہ میں طلاق حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ شریک حیات کی تمام تر برائیوں کا ذکر کیا جائے صرف ذاتی پسند اور ناپسند کی بنا پر یہاں طلاق نہیں دی جا سکتی ۔

نیویارک میں اگر شوہر کی دماغی حالت پانچ سال تک خراب رہے تو یہاں طلاق ہو سکتی ہے ، امریکی ریاست کینٹکی میں اس بات کی اجازت ہے کہ ایک ہی شخص سے تین بار طلاق ہو بھی جائے تو شادی ہو سکتی ہے لیکن قانون چوتھی مرتبہ اس مرد سے شادی کی اجازت نہیں دیتا ۔

اب اگر دینِ فطرت اسلام کا جائزہ لیں تو علم ہو گا کہ اسلام میں طلاق حلال ہونے کے باوجود اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ فعل ہے ۔ کیونکہ اسلام خاندانی نظام اور اس کی مضبوطی پر زور دیتا ہے لیکن اسلام میں جبر کا تصور بھی ہرگز نہیں ہے ،بیوی پر ہاتھ اٹھانا ،اس کا نان نفقہ پورا نہ کرنا ، سب کے سامنے اس کے ساتھ بدسلوکی کرنا یہ سب طلاق لینے کی وجوہات ہیں ، دوسری طرف معذرت کے ساتھ لڑکیوں کی مائیں بھی اکثر اوقات طلاق لینے کا موجب بن جاتی ہیں کہ وہ بھی اپنی بیٹی کے سسرال کے گھر کو اپنی طرح چلانا چاہتی ہیں اور الٹی سیدھی پٹیاں پڑھانے سے باز نہیں آتیں ۔

میں اس تحریر میں طلاق یا خلع کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہی ، شادی ایک ایسا بندھن ہے جس میں فریقین کو باہمی کوشش یہی کرنی چاہیے کہ گھربنا رہے لیکن یہ کوشش دونوں طرف سے ہونا لازم ہے ۔ بلاشبہ طلاق یا خلع ناپسندیدہ فعل ہے لیکن ایک عورت کی زندگی اور عزت نفس سے بڑھ کر نہیں ہے ‘ اسی لیے اللہ نے اپنے دین میں یہ اختیار دیا ہے‘ اب معاشرے کو بھی چاہیے کہ جو حق اللہ نے دیا ہے اسے استعمال کرنے والی خواتین کو چھوت کا مریض سمجھنا چھوڑدیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں