The news is by your side.

کیا ایمانداری اور نیکی کی بساط لپیٹ دی گئی ہے؟

موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے، جس سے انکار ممکن نہیں اور ہم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے پھر یہ دولت، ارباب کا ہجوم، خاطر مدارات، جائیدادیں، لمبی لمبی گاڑیاں، حفاظتی سینکڑوں اہلکار، درباری، خوشامدی، اشعار کی پڑیاں اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں، مرنے کے بعد لمحوں میں جدا ہوجاتے ہیں، کچھ لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو میت کے گھر سے نکلنے سے پہلے چہرہ دکھانے آتے ہیں۔ قبرستان تو دور کی بات یہ مسجد میں نمازِ جنازہ میں بھی شریک ہونے سے بچتے ہیں اور سوچ رہے ہوتے ہیں کہ یہ خوشامدی ہار کس کے گلے میں ڈالا جائے مگر یہ خوشحال لوگ بالکل نہیں سوچ رہے ہوتے کہ آخری منزل پر جاکر ہمارے لئے کیا کچھ ہوگا۔

سب اپنی دنیا میں مست ہیں، جب کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے تو حکومتی اہلکار ”رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے“ کے مصداق اپنی سیاست کا پرچم بلند کرنے کے لئے نکل پڑتے ہیں، ان خوشحال لوگوں نے واقعی اپنے کاموں پر کالا پردہ ڈال دیا ہے تاکہ ہر چیز چھپ جائے۔

گزشتہ ایک سال سے برسرِ اقتدار حضرات عدالتوں کے چکر لگارہے ہیں، یہ بات دوسری ہے کہ یہ پارلیمنٹ کو سپریم کہتے ہیں اور اسی پارلیمنٹ سے وابستہ حضرات ضمانتیں کرواتے پھررہے ہیں، کیا ان کے کہنے سے پارلیمنٹ سپریم ہوسکتی ہے۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ جنہوں نے اس پارلیمنٹ میں اپنے چاہنے والوں کو مسائل کے پہاڑ توڑنے کے لئے بھیجا تھا، وہ عوامی مسائل تو نہ توڑ سکے، ہاں یہ ضرور ہوا کہ اپنے سے وابستہ حکمرانوں کے مسائل کے پہاڑوں کی حفاظت میں لگ گئے، جس کی وجہ سے عوامی مسائل کھنڈرات کی نمائش بن کر رہ گئے ہیں، حکومتی ارکان عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں اور عوام کڑی آزمائشوں کے حصار میں الجھ گئے ہیں۔

ویسے سپریم کورٹ اصولی فیصلے دے کر قوم کی نگاہ میں قابلِ احترام ہوگئی ہے، عوام کے جو آنسو بہتے تھے، اب وہ سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں کے سچے فیصلے ہونے کی وجہ سے وہ آنسو بہنا تو بند ہوگئے ہیں۔ ہاں وہ آنسو اب پلکوں پر آکر رک گئے ہیں، نپے تلے لفظوں سے ان سیاست دانوں نے دولت کے بہت گھوڑے دوڑائے ہیں، اب ایسا لگ رہا ہے کہ ان گھوڑوں کی پیٹھ ویران ہوتی جارہی ہے اور جب کرپٹ سیاست دانوں کی کھدائی ہوگی تو یہ ملک سنورے گا۔

آپ بتائیں اس ملک کو تباہی کے کنارے لگانے والے کیا وہ عوام ہیں جن کی بچیوں کی عزتیں لوٹی جاتی ہیں، جن کے پاس پراٹھا اور روٹی تو دور کی بات ہے، سوکھی روٹی تک نہیں، تن پر کپڑا نہیں اور جو غریب ہے اسے کفن بھی ایدھی یا خیراتی ادارے دینے آتے ہیں۔ چلئے لحد کے سپرد تو وہ بھی ہوجائیں گے، لحد کے سپرد تو یہ بھی ہوں گے۔

بے شک ان کے کفن لواحقین دیں گے مگر یاد رہے وہ ارب پتی سفید کفن کے حصار میں ہوں گے لے کر وہ بھی کچھ نہیں جائیں گے، اگر ارب پتی کچھ لے کر جاتے تو دوسرے دن یہ خبر اخبارات کی زینت ہوتی ہے کہ فلاں سابق سیاست داں کی قبر کچھ نامعلوم افراد نے کھود کر بیس سیر سونا، دو لاکھ ڈالرز، ہیرے اور جواہرات غائب کردیئے، حکومتی ادارے نامعلوم افراد کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔

رب ذوالجلال نے پاکستانی قوم کو بہت صبر سے نوازا ہے، مسائل کی وجہ سے عوام کے حقوق ملیامیٹ ہو کر رہ گئے ہیں، کوئی پرسانِ حال نہیں ایک پارٹی اپنوں کو بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگارہی ہے، جن کو عوام نے انتظامی ڈھانچے کا قبلہ درست کرنے کے لئے اسمبلیوں میں بھیجا تھا، وہ اپنے بڑوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے سرگرداں ہیں کہ تاج 2018ءمیں پھر ان کے سر پر سجے، عدالتوں کے چکر لگانے کے باوجود بھی بہت پرامید ہیں۔ایک پارٹی دعوے کرتی پھررہی ہے کہ اس دفعہ اقتدار ہمارے پاس ہوگا، ایک پارٹی غیر سنجیدہ سیاست کرکے اپنے آپ کو منوانے میں لگی ہے اور ہر ضمنی الیکشن میں ہاتھ دو بیٹھتی ہے، ایک پارٹی ایسی ہے جو گزشتہ 25 سال سے ایک پلیٹ فارم پر کھڑی تھی، اب اس کے بھی حصے بخرے ہوگئے۔ ان سب نے ادھم بازی مچا رکھی ہے، کسی کے بھی دامن میں گراں قدر خدمات کا لیبل نہیں، یہ کسی المیے سے کم نہیں۔

عوام کے گرد مایوسی کی گرد اڑ رہی ہے اور یہ ایک دوسرے کو ماننے کے لئے تیار نہیں، ان سیاست دانوں میں بصیرت افروز خیالات کی کمی اتنی ہوچکی ہے کہ جو گریجویٹ اور سلجھا ہوا ہے، وہ ان کے بیانات پڑھنے کے بعد مایوسی کی دلدل میں اترجاتا ہے، جس کی مثال کچھ اس طرح دی جاتی ہے کہ یہ مفادات کے جنگل میں سرپٹ دوڑ رہے ہیں، انہیں عوام سے کوئی لینا دینا نہیں، بس ان کی ہانڈی پکتی رہے، جب ان پر مشکل وقت آتا ہے تو یہ صرف اپنی ذات کو دیکھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ماضی کے حوالے سے جو یہ کہہ رہے ہیں، کیا مستقبل میں کبھی ان کا بھی واسطہ پڑسکتا ہے۔

عوام کو دیوار سے لگادیا ہے اور آپس میں بے مقصد تصادم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور یہ سلگتے عوام خاموش ہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس ملک اور عوام کی تقدیر کوئی اللہ کا سپاہی ہی بدلے گا۔ ویسے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم قابل احترام ثاقب نثار صاحب قومی سلامتی اور استحکام کے لئے جو کام کررہے ہیں، اس بناءپر قوم انہیں لمحہ بہ لمحہ خراجِ تحسین پیش کررہی ہے۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے، اگر پی ٹی آئی اور پی پی پی مل کر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے تو یہ عوام مسائل کی دلدل سے کب کی نکل چکی ہوتی جو لوگ اللہ کی راہ میں نکلنے کی کوششیں کرتے ہیں، یہ سیاست دان ان کی انسانیت سوز تذلیل کرتے ہیں۔

قارئین گرامی، آپ کی توجہ ایک بہت اہم معاملے کی نذر کررہا ہوں، آپ پڑھیں گے تو یقیناً وہ آپ کے دل کی آواز ہوگی۔

حج ادا کرنے والوں کی تقریباً 35 لاکھ درخواستیں حکومت نے جمع کیں اور فی فرد دو لاکھ، ستر ہزار روپے وصول کئے، یہ ٹوٹل رقم بنتی ہے194 ارب روپے، 24 جنوری آخری تاریخ تھی فارم جمع کرانے کی اور 26 جنوری کو قرعہ اندازی تھی جبکہ حجاج کے چالیس دن سے کم کرکے تیس دن کردیئے گئے اور مزے کی بات دیکھیں رقم یہی ہے، یعنی دو لاکھ، ستر ہزار روپے اب چالیس دن کے بجائے تیس دن مقرر کردیئے گئے، آج تک نہ تو حج کرنے والوں کے لئے کوئی خوشخبری دی گئی نہ کوئی اعلان ہوا۔

اگر یہ پیسہ شرح اور پانچ فیصد کے حساب سے بھی دکھایا گیا ہے تو ایک ماہ کا پرافٹ چار ارب روپے بنتا ہے، اگر یہ پیسہ کسی اسلامی بینک میں ہوتا تو ایک لاکھ پر290 روپے ملتے، اسی طرح ایک ماہ میں27 کروڑ روپے پرافٹ ملتا ہے۔ چالیس دن کے بجائے تیس دن حج کے مقرر کردیئے ہیں تو دس دن کے پیسے کون واپس کرے گا اور اگر دس دن کے پیسے حکومت واپس نہیں کرتی ہے تو وہ زیادتی کے زمرے میں ہوگا یا پھر حجاج حضرات کے لئے اعلیٰ مراعات کا اعلان کیا جائے۔

یہ حجاج حضرات جو اللہ کی راہ میں نکلنے والے ہیں وہ کم از کم واجب الاحترام ضروری ہیں اور پھر مزے کی بات دیکھیں کہ اس مسئلے پر کسی نے بھی روشنی نہیں ڈالی۔ ان میں ادیب حضرات بھی شامل ہیں، کم از کم سیاسی علمائے کرام تو آواز اٹھاتے لیکن سب صرف ایک شخص کو بچانے کے لئے سب دندناتے پھرر ہے ہیں۔ اخلاقی ڈھانچہ ان سیاست دانوں نے تباہ کردیا ہے مگر اللہ کی ذات نے اب مکافاتِ عمل کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

بھلا بتائیے عقل تسلیم نہیں کرتی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ کیا ہورہا ہے، خوفِ خدا ختم ہوتا جارہا ہے، حجاج حضرات اللہ کی راہ میں حاضری دینے کے لئے بے چین ہیں اور وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف نہ جانے کس مذہب پر روشنی ڈال رہے ہیں، حالانکہ انہیں اس مسئلے پر پروردگارِ عالم کی خوشنودی کے لئے پہلی فرصت پر قدم اٹھانا چاہیے تھا اور ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنی چاہیے تھی مگر آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں،ذمے داروں کی کدورتیں دھو کر اس مسئلے کو ذاتی طور پر حل کریں کہ بے شک انہیں بھی اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے، ایسا لگتا ہے ایمانداری اور نیکی کی بساط لپیٹ دی گئی ہے، پہلی حکومت میں وفاقی وزیر حامد کاظمی نے جو حال حجاج کے ساتھ کیا تھا وہ قوم کو آج تک یاد ہے، امید تھی کہ اس حکومت میں ایسا کوئی کام نہیں ہوگا۔

مانا کہ حکومت نے فراڈ نہیں کیا، مگر اس مسئلے کو جلدی حل کیا جائے، 26 جنوری کو قرعہ اندازی تھی اور مارچ کا مہینہ چل رہا ہے تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ اربابِ اختیار عوام کی بات سننے کو تیار نہیں۔ایک قاری نے مجھے بتایا، جن کی عمر70 سال ہے کہ میں اپنے خون پسینے کی کمائی سے پیسے جمع کرتا رہا اور حکومت کو دو لاکھ ستر ہزار روپے ادا کردیئے۔ انہوں نے برسرِ اقتدار حضرات کے لئے کہا کہ مجھے تو نہ حج نظر آرہا ہے اور نہ پیسے۔

خدارا برسرِ اقتدار اور خاص طور پر چیف جسٹس سپریم کورٹ قابلِ احترام ثاقب نثار صاحب، ان بے کسوں پر رحم کرتے ہوئے اس معاملے پر از خود نوٹس لیں اور اپنی دانشوارانہ بصیرت سے اس مسئلے کو پہلی فرصت میں حل کروائیں، تاکہ ان مظلوموں کی نیک دعائیں آپ کے دامن سے لپٹ جائیں۔

چیف جسٹس محترم ثاقب نثار صاحب عزم و استقلال سے آپ اس مسئلے کو ذاتی طور پر دیکھیں، کیونکہ اس میں زیادہ تعداد عمر رسیدہ حضرات کی ہے، جو اللہ کی عدالت میں پیشی سے قبل ہی اپنے رب کے گھر میں حاضر ہو کر معافی کے طلب گار ہیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں