The news is by your side.

بزم ہستی کی سرمستی کا محور- نثاربزمی

موسیقار نثار بزمی ایوانِ موسیقی کی بزم کے شہزادے تھے، ان کا تذکرہ کسی طرح اپنے دل کی بزم سے کروں، وہ تو شائقینِ موسیقی کے دلوں کی دھڑکن تھے، ان کی خوب صورت شخصیت تو حسن جمال تھی، مارچ کے مہینے میں انہیں ہم سے جدا ہوئے گیارہ سال ہوگئے اور ان کے خوب صورت نغموں کو سننے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ آج بھی ہم میں موجود ہیں۔

وہ موسیقی کے ایوانوں کے شہزادے تھے جو عزت وتکریم میرے رب نے انہیں دی تھی، وہ اب تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ حسن طارق (مرحوم) کی فلم ”امراؤ جان ادا“ کا یہ خوب صورت گیت جس کے بول تھے ”جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ہیں“ سننے کے بعد بمبئی انڈسٹری کے باکمال موسیقار او پی منیر نے کہا تھا کہ اگر بزمی انڈیا کی بزم میں ہوتے تو میرے سب سے بڑے حریف ہوتے اور اسی گیت کو سننے کے بعد لتا نے کہا تھا کہ میں کتنی بدقسمت ہوں کہ دنیا بھر سے محبت حاصل کرتی رہی مگر افسوس کہ بزمی صاحب کی بزم سے محروم رہی، کاش میں ان کی موسیقی میں کوئی گیت ریکارڈ کروا کر اَمر ہوجاتی۔

آج کے شائقینِ موسیقی کے دلدادہ نوجوانوں کے لئے یہ آرٹیکل یقیناً ان کے ذہنوں میں سُر کے گیت بوئے گا اور انہیں آج کے بے نام موسیقاروں پر یقیناً رونا آئے گا کہ ہم دیر سے دنیا میں آئے، خاص طور پر جو اپنی زندگی کی45 بہاریں دیکھ چکے ہیں، وہ آج بھی نثار بزمی کی موسیقی کو ترستے ہیں اور جو نوجوان موسیقی سے لگاؤ رکھتے ہیں، وہ آج بھی ان کی سحر انگیز شخصیت سے پیار کرتے ہیں۔

نثار بزمی صاحب سے ان کے گھر ہماری ملاقاتیں ہوتی تھیں، وہ کراچی میں نارتھ ناظم آباد بلاک آئی، امام کلینک کے پیچھے والی گلی میں رہتے تھے، بہت ہی خوش مزاج اور چھوٹوں سے پیار کرنا ان کی نیک فطرت میں شامل تھا، وہ 23دسمبر کو بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے، بعد میں ان کے والد نوکری کی وجہ سے حیدرآباد دکن اور پھر مختلف شہروں میں بستے رہے۔ ان سے میری پہلی ملاقات1993ءمیں معروف صحافی اسد جعفری (مرحوم) نے کروائی تھی اور پھر بانی نگار الیاس رشیدی کے توسط سے نگار میں دو ملاقاتیں ہوئی، اسد جعفری (مرحوم) اور الیاس رشیدی (مرحوم) یہ ہمارے استادوں کی جگہ پر تھے۔

کراچی کے ایک مقامی روزنامے سے ہم وابستہ تھے اور ادارے کی جانب سے شوبزنس ایڈیشن کے حوالے سے لاہور جانا ہوا تو ایورنیو اسٹوڈیو میں سلطان راہی (مرحوم) کے کمرے میں ان سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اظہار قاضی (مرحوم) ہمارے بہت ہی گہرے دوست تھے جو سلطان راہی (مرحوم) کا بہت ادب کرتے تھے۔

یہ غالباً 1995ءکی بات ہے، سلطان راہی اور نثار بزمی بہت گہرے دوست تھے، نثار بزمی کا تعلق صوبہ مہاراشٹر کے ایک ضلع خان دیش سے تھا مگر وہ پیدا دہلی میں ہوئے تھے اور صوبہ مہاراشٹر میں سلطان راہی (مرحوم) کے دادا کا بزنس تھا، اسی وجہ سے ان دونوں میں بہت دوستی تھی، ان کے والد قدرت علی نے نثار بزمی کو اپنے ایک دوست رام دیال کے پاس بمبئی بھجوا دیا، وہاں انہوں نے موسیقی کی تربیت امان خان سے لی اور اس کے بعد انہوں نے ریڈیو کے ڈرامے فنکار، پروفیسر، میں اور تم، اخلاق و تہذیب، تمہاری قسم، شکریہ کی موسیقی دی پھر بمبئی میں ہونے والا اسٹیج ڈرامہ ”تہذیب“ جس میں دلیپ کمار اور مدھو بالا نے بھی کام کیا تھا، اس کی موسیقی بھی نثار بزمی نے دی تھی اور پھر1962ءاکتوبر میں پاکستان آگئے، انہیں پاکستان سے بہت محبت تھی، جذبہ حب الوطنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، وہ مذہبی انسان تھے اور یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ حافظِ قرآن تھے۔ یہ بات انہوں نے بڑے فخر سے بتائی تھی، ان کا تعلق سید گھرانے سے تھا، ان کا پورا نام سید نثار احمد تھا، ان کا کسی بھی طریقے سے فنکار گھرانے سے تعلق نہیں تھا۔

انہوں نے1942ءمیں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کرلی تھی، اس کے بعد انہوں نے اپنے نام کے ساتھ بزمی کا اضافہ کیا کہ وہ بہت اچھے شاعر بھی تھے، انہوں نے تقریباً 72 فلموں کی موسیقی دی جن کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔ بمبئی کے رام دیال فضل کریمی فضل کے دوست تھے، ان کے توسط سے انہیں فلم ”ایسا بھی ہوتا ہے“ میں بحیثیت موسیقار لیا جبکہ اس سے قبل ان کی فلم ”ہیڈ کانسٹیبل“ ریلیز ہوچکی تھی، جو نذیر صوفی کی تھی۔
1996ءمیں نثار بزمی سے اظہار قاضی (مرحوم) نے ایک تفصیلی ملاقات کروائی، وہاں ان سے تقریباً دوگھنٹے کی نشست ہوئی اور ایک نشست ”آئی بلاک“ نارتھ ناظم آباد کے گھر میں ہوئی۔ انہوں نے دورانِ گفتگو بتایا کہ میرے ایک بہت اچھے دوست تھے چوہدری امدادعلی جن کا کوئٹہ میں امداد سینما بھی تھا، وہ حسن طارق (مرحوم) کے بہت گہرے دوست تھے۔ میں امداد کی محبت میں کوئٹہ گیا، وہاں کچھ دن قیام کیا، حسن طارق (مرحوم) اپنے کسی عزیز کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے، ان کی وجہ سے حسن طارق (مرحوم) سے دوستی ہوگئی۔

وہاں انہوں نے مجھے اپنی آنے والی فلم ”انجمن“ کی موسیقی دینے کو کہا، میں اس زمانے میں بہت مصروف تھا پھر امداد کے کہنے پر میں نے فلم کی موسیقی دینے کا وعدہ کیا۔ رانی (مرحومہ) بہت اچھی خاتون تھیں، ان کا ایک دن میرے پاس فون آیا کہ آپ سے حسن طارق (مرحوم) ملنا چاہتے ہیں، ان سے ملاقات ہوئی اور یوں میں نے فلم ”انجمن“ کی موسیقی دی، اس کا ایک گیت ایسا تھا کہ حسن طارق اس گیت کو نورجہاں (مرحومہ) سے گوانا چاہتے تھے اور میں تصور خانم سے۔

مگر رانی (مرحومہ) کی دوستی رونا لیلیٰ سے بہت تھی (جو اب بنگلہ دیش میں ہیں اور بنگالی ہیں) اداکارہ رانی کا اصرار تھا کہ آپ یہ گیت رونا لیلیٰ سے گوائیں جبکہ ان کی بڑی بہن لیلیٰ تھیں جو بعد میں سندھ کی سیاسی شخصیت امین فہیم (مرحوم) کی اہلیہ بنیں اور پھر یہ گیت رونا لیلیٰ نے میری موسیقی میں گایا، گیت کے بول تھے ” آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آگئے“ اور کیا خوب گایا جبکہ رانی نے بہت اچھی پرفارمنس دیں، وہ بہت اچھی پرفارمر تھی، کبھی کبھی ہدایتکار کی توقعات سے بڑھ کر فنکار کام کرجاتا ہے، جس کی مثال میں یہ دے سکتا ہوں کہ فلم ”امراؤ جان ادا“ کا یہ گیت ”جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ہیں، آخری گیت سنانے کے لئے آئے ہیں“ رانی نے کمال کر دکھایا۔

اس گیت کو دیکھنے کے بعد میں نے رانی (مرحومہ) کے اعزاز میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا، جس میں حسن طارق (مرحوم) محمدعلی (مرحوم) ایم رشید ہدایتکار، سلطان راہی (مرحوم) طالش (مرحوم) آسیہ (مرحومہ) مہدی حسن (مرحوم) مہناز، اخلاق احمد اور نورجہاں بھی قابلِ ذکر تھے۔ ایک واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب حسن طارق (مرحوم) نے فلم ”تہذیب“ کا اعلان کیا تو میں اور مہدی حسن (مرحوم) کراچی میں تھے۔ مہدی حسن نے مجھ سے رابطہ کیا کہ لاہور چلو حسن طارق فلم ”تہذیب“ کی تیاریوں میں مصروف ہیں، میں لاہور آیا حسن طارق سے ملا، انہوں نے ایک گیت بنایا ” لگا ہے مصر کا بازار، دیکھو نئی تہذیب کے شاہکار“ گیت تیار ہوگیا، آن ائیر بھی ہوگیا اور پاکستان بھر میں سپرہٹ ہوا۔

حسن طارق (مرحوم) کے ایک بہت گہرے دوست انجم خان جو مصر ایمبیسی میں آفیسر تھے، انہوں نے بتایا مصری سفیر نے سخت احتجاج کیا ہے کہ ”لگا ہے مصر کا بازار“ کے بول تبدیل کردیں اور اگر اس فلم کے ہدایتکار اس کے بول تبدیل نہیں کریں گے تو ہم سخت احتجاج کریں گے، یوں انجم کے بقول انہوں نے حسن طارق (مرحوم) سے کہا، اس سے ہمارے سفارتی تعلقات مصر سے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

حسن طارق بہت نفیس انسان تھے، وہ بات کی گہرائی میں پہنچ گئے اور یوں اس گیت کے بول تبدیل کئے گئے پھر یہ گیت دوبارہ ریکارڈ ہوا اور اس کے بول تھے ”لگا حسن کا بازار، دیکھو نئی تہذیب کے شاہکار دیکھو“ مہدی حسن نے اس گیت میں کمال کر دکھایا۔ کراچی سے خیبر تک بچے بچے کی زبان پر یہی گیت تھا اور اس گیت میں اداکار شاہد نے بہت خوب صورت اداکاری کی تھی۔

ایک واقعہ اور یاد آیا مجھے جب پرویز ملک نے فلم ”پہچان“ کا آغاز کیا تو کئی نام تھے ایک گیت کو فلمانے کے لئے، جس کے بول تھے ”اللہ ہی اللہ کیا کروں، دکھ نہ کسی کو دیا کرو“ اسے ناہید اختر نے بہت خوب صورت گایا اور یہی گیت ان کی وجہ شہرت بنا۔ پرویز ملک نے بحیثیت ہدایتکار کے مجھے دو نام دیئے، اس گیت کو فلمانے کے لئے مگر چونکہ پرویز ملک سے بہت دوستی تھی تو وہ مجھ سے پوچھ لیا کرتے تھے۔

انہوں نے کہا بہار اور نغمہ پر اس گیت کو فلماتے ہیں چونکہ یہ ایک روحانی گیت تھا اور اس میں عمر رسیدہ خاتون کی ضرورت تھی جبکہ بہار اور نغمہ ہیروئن کے طور پر کامیابی کی سیڑھی پر تھیں۔ درپن (مرحوم) کی بیوی نیئر سلطانہ مجھے بہنوں کی طرح عزیز تھیں، میں نے ان سے رابطہ کیا تو وہ سخت بیمار تھیں مگر اس کے باوجود انہوں نے انکار نہیں کیا اور آپ یقین کریں، بخار میں ہونے کے باوجود صرف 2 گھنٹے میں گیت فلمادیا اور پھر اس گیت کی فلمبندی میں پرویز ملک نے بہت محنت کی اور فلم کی ریلیز کے بعد یہ گیت تاریخ کا حصہ بن گیا۔

کون سے ایسے فنکار تھے، جو بہت ہی نفیس اور نرم گو طبیعت کے تھے، جن سے آپ کی یاد اللہ تھی، سوچتے ہوئے بولے بھئی تم نے ایسا سوال کیا ہے کہ اس کے جواب میں پھر کچھ دوست ناراض نہ ہوجائیں۔ خیر جواب ضرور دوں گا محمدعلی (مرحوم)، ندیم، اظہار قاضی (مرحوم) سلطان راہی (مرحوم) وسیم (سندھی فلموں کے ہیرو تھے) اور خواتین، آسیہ، سنگیتا، نیئر سلطانہ، مہناز، ممتاز اور صحافیوں میں الیاس رشیدی (مرحوم) اسد جعفری (مرحوم) طلعت رؤف (مرحوم) اور سیاست دانوں میں ذوالفقارعلی بھٹو، ضیاءالحق (مرحوم) قابلِ ذکر ہیں۔

انہوں نے جو نگار ایوارڈز لئے ان میں فلم ”صاعقہ، انجمن، میری زندگی ہے نغمہ، خاک اور خون، بیوی ہو تو ایسی اور ہم ایک ہیں“ جبکہ حکومتِ پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا۔
ان کی سپرہٹ فلموں میں ”تاج محل، جیسے جانتے نہیں، عندلیب، انجمن، تہذیب، محبت میری زندگی، ناگ منی، انمول، آس، دشمن، نمک حرام، اک گناہ اور سہی“ قابلِ ذکر ہیں جبکہ ان کی آخری فلم ”ویری گڈ دنیا، ویری بیڈ لوگ“ تھی۔

موسیقار نثار بزمی کا انتقال 22مارچ2007 جمعے کے روز 83 برس کی عمرہوا، اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔۔۔ عجب آزاد مرد تھا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں