سالوں بعد فیس بک کے تحت مدرسے کے ہم جماعت سے رابطہ ہوا ۔ کراچی چھوڑ کر وہ بیرون ملک جا بسا تھا ۔ جان کر خوشی ہوئی کے پروفیشنل زندگی کی دوڑ میں کئی کامیابیاں سمیٹی جاچکی ہے ۔ رابطہ بڑھا تو میں نے گھر والوں کی خیروعافیت دریافت کی ۔
ایک محلے میں رہنے مدرسے میں کئی سال تک ساتھ پڑھنے کے باوجود کبھی گھر والوں سے متعلق جاننے کا اتفاق نہ ہوا تھا ۔ جب بتایا تو میں حیرت زدہ ہوگئی ۔ بڑا بھائی طویل عرصے سے بیمار ہے ۔ میں فورا اپنی خدمت پیش کی اور کہا کہ بتاؤ شاید کوئی اچھا طبیب بتلا سکوں ۔ اس پر جواب ملا کہ نہیں بہت علاج کرایا کوئی حل نہیں ہے وہ ذہنی طور پر بیمار ہے ۔
بڑا بھائی امی ابو کے ساتھ کراچی میں رہتا ہے ۔ دوست کی والدہ سے رابطہ کیا اور ان سے اور انکے بیٹے سے ملنے کی درخواست کی ۔ جب دوست کے گھر پہنچی تو بڑے بھائی کو دیکھ کر حیرت ہوئی اور اسکی باتیں سن کر حیرت کے ساتھ بے حد تکلیف بھی ۔ چھ فٹ قد آور خوبرو شخص ۔ چالیس سال عمر ، زندگی جینے کی چاہت اور کئی باتوں کی سمجھ بوجھ کے باوجود بے بسی کا عالم ۔ ذہنی الجھنوں کے مرض نے بری طرح جکڑا ہوا تھا، بیس سال پرانا یہ مرض ایک مذاق سے شروع ہوا اور اب ایک کینسر سے زیادہ خطرناک صورت اخیتار کرچکا تھا ۔
دوست کا بھائی جس کا فرضی نام علی ہے ۔ بیس سال کی عمر میں برص کے مرض میں مبتلا ہوا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے جسم کے مختلف حصوں پر سفید دھبے نمودار ہوگئے ۔
علاج شروع ہوا ور اس سے فرق بھی پڑا لیکن اس بیماری سے کہیں زیادہ علی کو لوگوں کے رویوں نے نقصان پہنچایا اور ذہنی طور پر مفلوج کردیا ۔ والد کے مطابق علی کے دو دوست ایسے تھے جن کے لئے آج بھی ان کے دل سے نہ چاہتے ہئے بھی بددعا نکلتی ہے ۔ وہ دوست علی کی برص کی بیماری کا مذاق اڑاتے تھے ، اس کا حوصلہ پست کرتے تھے ۔ وہ کون سا لمحہ تھا نہیں معلوم جب علی کے دماغ پر ان دوستوں کا مذاق ایک کاری وار کی طرح اثر کرگیا ۔ علی کا ذہن بری طرح متاثر ہوا اور اس واقعے کے بعد علی نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا۔
برص تو اپنی جگہ رک گیا لیکن علی ذہنی مریض بن گیا ۔ ظاہری طور پر فٹ ہونے کے باوجود وہ معذور ہوگیا ۔ بیس سال سے وہ گھر میں ہے کسی سے ملتا نہیں بات نہیں کرتا ، خواب آور گولیاں کھا کر زندگی کے دن پوری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
علی سے بات کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ اس بیماری سے زیادہ اسے رویوں نے ٹھیس پہنچائی ہے ۔ اسکے اپنے بھی اس سے خوف کھاتے تھے ۔ جس میں میرا دوست بھی شامل ہے ۔ والدہ اور والد سے طویل گفتگو میں معلوم ہوا کہ بیٹے کا بہت علاج کروایا لیکن کچھ فرق نہیں پڑا ۔
میں کوئی ماہر نفسیات نہیں لہذا بہتر طریقے سے بیان نہ کرسکوں لیکن اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ اس قسم کی یا کسی بھی قسم کی بیماری کا بڑا علاج محبت ہمدری توجہ ہے ۔ دوستوں کے مذاق ، گھر والوں کی ہچکچاہٹ اور معاشرتی رویوں نے بیماری کو معذوری بنادیا ۔ علی سے دو گھنٹے کی طویل گفتگو میں ایک لمحے کو بھی یقین نہیں ہورہا تھا کہ دوست کا بھائی ذہنی طور پر بیماری ہے ۔
اس دوران صرف یہی احساس ہوا کہ بیمار تو ہم سب ہیں جو اپنے بظاہر رویوں کو نارمل قرار دے کر کبھی بھی کسی بھی وقت کسی کی زندگی چھین لیتے ہیں ۔ ہم مذاق کرتے ہوئے ، کسی کا مذاق اڑاتے ہئے ، کسی پر تنقید کرتے ہوئے ، طنز طعنہ دیتے ہوئے یہ بھول جانتے ہیں کہ یہ کسی طور بھی نارمل رویہ نہیں ۔ یہ ایک سنگین بیماری ہے جس کا ہم سب کہیں نہ کہیں شکار ہیں ۔
خدارا احساس کریں ۔ خیال رکھیں ۔ ایک جملہ کسی کی جان بچا سکتا ہے اور ایک جملہ کسی صحت مند شخص کو علی کی طرح معذوری دے سکتا ہے ۔ یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے ۔ بچوں کو بلینگ کے بارے میں معلومات دینا ، اس سے بچنے اور اس کے وار کا مقابلہ کرنے کی تربیت دینا بھی ضروری ہے آخر میں ایک اینٹی بلینگ مہم سے چنا گیا خوبصورت جملہ پیش خدمت ہے ۔۔۔
اگر آپ کو مہربان ہونے یا صحیح ہونے میں سے ایک کو چننا پڑے تو ”مہربان ہونے“ کو چنیں ۔