اس عنوان کا بظاہر اس تحریر سے کوئی تعلق نہیں، لیکن بڑا گہرا تعلق ہے۔
بچپن میں پہلی دفعہ جو کہانی سنی وہ آج بھی یاد ہے جس میں دو بہنیں موٹی اور بدصورت تھیں اور وہ ظالم، بدتمیز اور بد مزاج تھیں۔ تیسری بہن حسین و جمیل تھی اور وہ معصوم، مظلوم، دل کی صاف، سلیقہ شعار اور خوش گفتار بلکہ خوش الحان بھی تھی۔ پرانے وقتوں کی کہانیاں جو آج بھی زندہ ہیں، چاہے وہ سلیپنگ بیوٹی ہو یا اسنو وائٹ ان سب میں ایک قدر مشترک ہے کہ حسن و جمال کو باطنی خوبصورتی سے منسلک کیا گیا ہے اور موٹاپے یا بھدے پن کو کسی حاسد، سازشی اور بداخلاق انسان کی پہچان بتایا گیا ہے۔
شاید ہی کوئی ہو کہ جس نے یہ قصّے نہ سنے ہوں۔ بچپن میں بچّہ جب اس طرح کی کہانی سنے گا تو اس کا لاشعور ظاہری شکل و صورت کو دیگر انسانی اوصاف پر ترجیح دے گا۔ تو ایک ایسے زمانے میں جہاں خوب صورتی اور نزاکت کسی کے مثبت اور رحم دل ہونے کی دلیل ہیں، وہاں ڈورا (Dora the explorer) کے کارٹون ایک قابلِ تقلید مثال ہیں۔ ڈورا ایک 7 سالہ بچّی ہے اور راقم کو بہت پسند ہے کیونکہ وہ بہادر ہے۔ ایڈونچر پسند کرتی ہے۔ چوٹ لگنے سے نہیں ڈرتی، اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ جنگل اور جنگلی جانوروں سے محبت کرتی ہے۔ اجنبیوں پر اعتماد کرتی ہے۔ باہمت ہے اپنے مسئلے حل کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ خود کفیل ہے اپنا دفاع خود کر سکتی ہے۔ نقشے کا استعمال، درختوں پر چڑھنے اور پانی میں تیرنے سے واقف ہے۔ اور سب سے بڑھ کر اسے کسی ‘پرنس چارمنگ’ اور “ہمیشہ ہنسی خوشی رہنے لگے” جیسے نظریات سے کوئی سروکار نہیں۔ ڈورا کسی بھی سنڈریلا یا رپنذل کی طرح کسی خوش شکل شہزادے کی داد رسی کی منتظر نہیں۔
اس یومِ خواتین پر اپنی بہنوں سے یہی گزارش ہے کہ اپنی بچیوں کو ڈورا بیشک نہ دکھاؤ لیکن خدارا انھیں باربی بھی نہ بناؤ۔