The news is by your side.

بلوچستان میں واقع خوبصورت اور پراسرار چشمہ، بلوچ قوم کاپرخلوص رویہ

کراچی سے تقریباً ڈھائی سو کلومیٹردوربلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے کنراج میں پہاڑوں کے بیچوں بیچ ایک ایسا چشمہ بہتا ہے جسے دیکھے بنا اس غیرآباد اور پتھریلے علاقے میں ایسے خوبصورت چشمے کا تصور کرنا ممکن نہیں ہے۔

گزشتہ اتوارکے روز چار دوستوں کے ہمراہ کنراج جانے کا پروگرام بنایا اورصبح سویرے کراچی فیڈرل بی ایریا سے اپنے سفر کا آغاز کیا، سب سے پہلے وندر پہنچ کر کچھ خریداری کی اور چائے کے لئے 15 منٹ کا قیام کیا، اس کے بعد ایک بار پھر سفر شروع کیا کنراج کی جانب ، وندر سے تقریباً ایک کلومیٹر آگے جاکر دائیں جانب جانے والی پکی سڑک پرکنراج کے راستے کے لئے ایک مقامی شخص سے رہنمائی حاصل کی، مقامی شخص ہماری رہنمائی تو کی ہی ساتھ ہی انتہائی ہمدردانہ طریقے سے راستے میں دشوار موڑ ہونے کے باعث گاڑی احتیاط سے چلانے کی نصیحت بھی کی جو ہم تمام دوستوں کو کافی اچھا لگا۔

تھوڑا آگے چل کر حسین باغات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو سفر کو مزیدارتو بناتا ہی ہے ساتھ ہی آپ وہاں رک کر تصاویر بنوائے بغیر رہ نہیں پاتے ، اس سے آگے جاکر لیویز کی ایک چیک پوسٹ آتی ہے جہاں آپ کو اندراج کروانا پڑتا ہے وہاں بھی لیویز اہلکاروں کا روایہ انتہائی پرمسرت تھا، لیویز اہلکار نے ہمیں ایک اور دلچسپ چشمہ دکھانے کی پیش کش کی اور بتایا وہاں پانی اور ایندھن ساتھ ساتھ نکلتا ہے لیکن ہم نے طے شدہ پلان کے تحت ہی آگے جانے کا فیصلہ کیا۔ ہماری انٹری ہوچکی تھی لہذا ہم آگے سفر کے لئے نکل پڑے 1 گھنٹے کی مزید مسافت کے بعد ہم کنراج میں واقع لیویز چیک پوسٹ پہنچ گئے جہاں موجود اہکار نے ہمیں اپنے افسر کی اجازت کے بغیر آگے جانے سے روک دیا ہم نے درخواست کی تو اس نے وائر لیس کے ذریعے افسر سے رابطہ کیا اور ہماری گزارش افسر تک پہنچائی اور ہمیں افسر سے ملوانے کے لئے ایک کلومیٹر آگے واقع لیویز تھانے لے گیا جہاں ہمارے ملاقات لیویز کے افسر رسالدار خدا بخش سے ہوئی جنہوں نے انتہائی پر مسرت انداز میں میں ٹھندے پانی کے بعد چائے کی پیش کش کی ویسے تو چائے کی پیش کش ایک عام سی بات ہے لیکن ایک ایسے علاقے میں جہاں پانی بھی خریدنا پڑتا ہو اور اشیائے ضروریہ کا سامان خریدنے کے لئے سو کلومیٹر سے زیادہ سفر کرنا پڑے وہاں چائے کی پیش کش کے ایف سی اور مکڈونلڈز سے بڑھ کر ہے۔

way to kanraj

خیر ہم نے پانی پر ہی اکتفا کیا اور آگے جانے کی اجازت مانگی تو انہوں نے بھی سوال کیا وہاں کیا کرنے جارہے ہو اور اس ویرانے میں واقع اس چشمے کا پتا کیسے چلا آپ لوگوں کو ہم نے بتایا انٹرنیٹ کے ذریعے جگہ کا پتا چلا تو وہاں کا پلان بنالیا خیر انہوں نے ہمیں آگے جانے کی اجازت دے دی اور وہی بلوچ روایات کے مطابق راستے کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ  راستہ مشکل ہونے کے باعث اپنے طفیل مقامی آبادی سے کسی کو ہمراہ لے جانے کی بھی پیش کش کی ، خیر ہم روانہ وہاں سے روانہ ہوگئے تھوڑا آگے جاکر ایک گاؤں دکھا تو وہاں موجود دکان سے گاڑی میں پٹرول دلوایا اور ساتھ ہی موجود ہینڈ پمپ کے ٹھنڈے پانی سے منہ دھوکر جو تازگی محسوس کی اس کی بات ہی کچھ الگ تھی، جس کے بعد سامنے واقع ایک ڈھابے پر چائے کے لئے قیام کیا چائے اور بسکٹ سے تواضع کے بعد جب بل پوچھا۔ تو سب ہی حیران رہ گئے تین چائے اور 15 روپے والے 2 بسکٹ کا بل صرف 70 روپے بتایا جو ہمارے لئے انتہائی حیرانی کا باعث تھا لیکن اس سے قبل بھی بلوچستان میں مکران کوسٹل ہائی کے ایک سفر میں ہم بلوچوں کی ایمانداری کا یہ ٹریلر دیکھ چکے تھے تو مسکرا ایک دوسرے کے چہروں کی جانب دیکھا اور وہی پرانا جملہ دہرایا  (واقعی بلوچ بڑے ایماندار ہیں ) اور پھر ہم چائے کے ڈھابے کےمالک سے مصاحفہ کرکے آگے کی جانب نکل پڑے۔

تھوڑا آگے جاکر کچاراستہ شروع ہوجاتا ہے جو انتہائی دشوار ہے، وہاں پہنچے تو ایک مقامی شخص کو موٹر سائیکل پرآتا دیکھا تو اس سے راستے کی رہنمائی لی ، اس شخص نے پیش کش کی کہ میں آپ کے ساتھ چل لیتا ہوں آپ ایسے بھٹک جائیں گے ، مقامی شخص اپنی موٹر سائیکل کھڑی کرکے ہمارے ساتھ ہولیا ، راستے میں ایک دوسرے کا تعارف ہوا اس شخص نے بتایا کہ وہ یہاں واقع واحد اسکول کا استاد ہے اور ہم آہستہ آہستہ چلتے ٹبکو چشمے کی جانب چلتے رہے تو اس شخص نے ایک بار پھر وہ ہی سوال دہرایا آپ وہاں کام کرنے جا رہے ہو؟ ہم نے اس شخص سے فوراً پوچھ لیا بھائی کون سا کام ؟ پیچھے بھی کچھ لوگوں نے یہی سوال کیا تھا کہ کام کرنے جا رہے ہو ؟ اس شخص نے ہمیں جواب دیا کہ پانی کی لائنوں وغیرہ کا کام کا پوچھ رہا ہوں لیکن یہ جواب ہمیں مطمئن نہ کرسکا، بھلا اس ویرانے میں کون سی پائپ لائن کیسا کام ؟ خیر تھوڑا آگے جاکر اس شخص نے ہمیں صحیح راستہ دکھایا اور گاڑی سے اترگیا ہم نے پوچھا بھائی آپ اب واپس کیسے جائیں گے تو اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا بھائی آپ فکر نہ کریں مجھے تھوڑا آگے جاکر کوئی موٹر سائیکل والا مل جائے گا ، اس شخص کی اس مہمان نوازی سے ہم سب دوبارہ بہت متاثر ہوئے خیرتھوڑی دیر بعد اس مقام پر پہنچ گئے جہاں سے آگے گاڑی میں جانا ناممکن ہے، آگے کا راستہ پیدل طے کرنا پڑتا ہے جو لگ بھگ 40 سے 50 منٹ کے قریب ہے ، لہذا پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے بالآخر ہم ٹبکو چشمے پر پہنچ ہی گئے جہاں جاکر واقعی لگا کہ اتنا طویل سفربے کارنہ تھا۔

ٹبکو ایک چھوٹا سا لیکن خوبصورت چشمہ ہے جس کے بارے میں زیادہ لوگ جانتے نہیں یقین کریں راستے میں پیدل چلتے ہوئے ہم سب کو ہی اینیمل پلانیٹ چینل کے پروگرام مین ورسز وائلڈ کے ہوسٹ بیئر گرلز بہت یاد آرہے تھے ، خیر وہاں پہنچ کر ٹھنڈے پانی میں ڈبکیاں لگا کر سب ہی تروتازہ ہوگئے جس کے بعد پھلوں سے اپنی تواضع کی اور چشمے کی تازگی کو اپنے اندر جذب کیا۔

kanraj

اس وقت تک 3 بج چکے تھے اور واپسی کا راستہ طویل ہونے کے باعث ہم نے واپسی کی راہ لی، واپسی میں لیویز کی 2 چیک پوسٹوں پرروکا گیا تو وہاں بھی لوگوں نے سوال کیا کہ بھائی پانی لے کر آئے ٹبکو کا ؟ سوال ہمارے لئے تھوڑا حیران کردینے والا ہی تھا کہ بھلا وہاں کا پانی کوئی کیوں لائے گا ؟؟ ہم نے سوال کیا کہ بھائی پانی کیوں لائیں گے وہاں سے تو اس کا بھی کوئی خاص جواب نہ ملا، خیر ہم تھک بھی چکے تھے اور واپسی کا راستہ بھی طویل تھا تو ہم آگے چل پڑے اور شام ساڑھے 7 بجے واپس کراچی پہنچ گئے، اس ایک روزہ دورے میں ٹبکو چشمے کی خوبصوتی پراسراریت اور بلوچ عوام کی ایمانداری اور پرخلوص رویے سے خوب لطف اندوز ہوئے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں