یقینا آپ میں سے بیشتر احباب نے برہان الدین وانی کا تذکرہ آج سے پہلے زیادہ نہیں سنا ہوگا ، ویسے ہمارے اپنے مسائل ہی اتنے گھمبیر ہیں کہ وانی اورکشمیر کو کیوں اور کون توجہ دے یا یاد رکھے؟۔
جب ہماری اکثریت شمس الحق افغانی، اشرف ڈار اورعلی محمد ڈار جیسے کشمیری مجاہدین کو نہیں جانتی توپھرایسے میں وانی تو کل کا بچہ تھا جسے جوان ہوئے بمشکل چند ہی برس گزرے تھے۔ یہ لگ بھگ ڈیڑھ دو برس پرانی بات ہے کہ سوشل میڈیا پہ بندوقیں سنبھالے کچھ کاری ضرب لگانے والے خوبرو نوجوانوں کی تصاویر پوسٹ کی گئیں ، بے داغ شباب اورہند کی غاصب فوج سے پنجہ آزمائی کاعزم رکھنے والے حزب المجاہدین کی نئی نسل کے عسکریت پسندوں کی تصویروں اور ویڈیوز نے کشمیر وہند میں ہلچل مچادی۔ برھان الدین وانی ان ویڈیوز میں مرکزی حیثیت کا حامل نوجوان تھا جس کی مختصر گفتگو نے نوجوانوں میں نئی روح پھونک دی اور مقبوضہ وادی میں ’وانی وانی‘ ہونے لگا، پاکستان کے کشمیر سے جڑے حلقوں میں اسے گہری دلچسپی سے دیکھا گیا یہ تمام نوجوان کشمیرسے ہی تعلق رکھتے تھے جو صرف تصاویر ہی نہیں کھنچواتے تھے بلکہ ہندی افواج کی کھال کھینچنے کا بھی عزم و ارادہ رکھتے تھے۔
ہندی افواج نے وانی اورساتھیوں کی تلاش شروع کردی لیکن کامیابی نہ ملی ’وانی‘ جیسے تو دلوں کے حکمران ہوتے ہیں سو ہرکشمیری کا گھر وانی کی جائے پناہ قرار پایا ،اس دوران یہ شیر صفت ہندی افواج پہ جھپٹتے پلٹتے اور پلٹ کر پھر جھپٹتے، موت کا یہ کھیل جاری تھا یہاں تک کے کئی سپاھیوں کی لاشیں اٹھانے کے بعد گزشتہ دنوں وانی ایک فوجی مقابلے کے بعد اپنی منزل مراد کو پاگئے جس کے لیے وہ بیتاب تھے، بے قرار تھے اور کئی بار خواہش کا اظہار کرچکے تھے۔
وانی کا جنازہ فقید المثال تھا ، آزادی کے متوالے اس جذبے سے شریک ہؤئے کہ دلی سرکار کے چودہ طبق روشن ہوگئے یہاں تک کہ سرینگر میں کرفیو لگا کر ہی جان بخشی ہوئی۔
کبھی آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کشمیری ہم سے اتنی محبت کیوں کرتے ہیں؟ جرات و استقامت کے روشن ستارے سید علی گیلانی کو کبھی سنا ہے؟ اس کی رودادِ قفس پڑھی ہے ؟ اسکے علم ، عمل اور جدوجہد سے آگاہ ہونے کی کوشش کی ؟ اس بوڑھے کی آواز میں نجانے کیاجادو ہے کہ پورے کشمیر میں آزادی کا الاؤ بھڑکادیتا ہے، وانی جیسے نوجوان اسی سید گیلانی کے مکتب آزادی کے شاھین ہیں جو پاکستان سے محبت کی آگ دل میں لئیے ہند سے ٹکراتے ہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے نا کہ کشمیری عید ہمارے ساتھ کرتے ہیں، کرکٹ میچ ہو تو وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے نظرآتے ہیں ، یہاں دھماکے ہوں کشمیری و ترک مغموم ہوجاتے ہیں۔
اتنی محبت ؟ ایسی تو شاید ہم بھی نہ کریں اس دیس سے ، جس کی کبھی قدر نہ کی۔
کشمیر سے عشق میرے رگ و پے میں ہے، 2000 میں وادی نیلم شادرہ اورمظفرآباد میں گزارا وقت ہمیشہ کے لئیے ذہن میں جگہ بنا گیا ہے وہ بھیگتی شام نہیں بھولتی جب دریائے نیلم کے کنارے لکڑی کے مکان میں دوستوں کے ساتھ رکے تھے۔
یہ وہی کشمیری ہیں جنہیں ایک زمانے میں بزدلی کے طعنے دئیے جاتے تھے آج جہاد آزادی کی شاہراہ پہ یوں گامزن ہیں کہ تاریخ پہ نظر رکھنے والے دانتوں تلے انگلیاں داب لیتے ہیں۔
ہند نے کشمیرکو خصوصی حیثیت دی ، کشمیری سلجھے ہوئے اور تعلیم یافتہ ہیں اچھا روزگار یا کاروبار کرتے ہیں بظاھر ہند میں انہیں کوئی مشکلات نہیں اوراگر وہ پاکستان کا سبزہلالی پرچم وادی میں لہرانا ترک کردیں تو ہندی حکمران ان کے پیر دھو دھوکرپینے کو تیار ہیں لیکن کیا کیجئے کہ جذبہ عشق و مستی نے انہیں پاکستان کا دیوانہ بنا رکھا ہے، باجود اس کے کہ ہم بدعنوان ہیں، سست ہیں، ترقی معکوس کا شکار ہیں، تعلیمی کارکردگی قابلِ افسوس ہے، معاشی ناہمواری کا سفر مدت سے مقدر ھے ، لیکن ان دیوانوں کی محبت کا کیا کریں ؟؟ جو ہر پل مملکت خداداد پاکستان پہ مرمٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
پاکستان کا پرچم ، سرینگر کی گولیوں سے اٹی گلیوں میں ہندی افواج کے سامنے لہرانا گویا ان کا جنون ہے جس کی قیمت لہو کا خراج دے کرادا کرنے کے باوجود جنوں جنوں ہی رہا کم نا ہوا۔
عالمی دباؤ برداشت سے باہرہوا تو پاکستان نے کشمیریوں کی مدد سے ہاتھ اٹھا لیا اور یہ تب ہوا جب ایک لاکھ کشمیری جانیں قرباں کرچکے ، لاکھوں زخمی و لاپتہ ہوئے بیوہ عورتیں و یتیم بچے کشمیری معاشرے میں نمایاں ہوئے اور ایک خون آلود تاریخ رقم ہوچکی۔
آزادی کا یہ جوش ہند کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جانے کو تیار ہے ، تحریک کی پشت سے پاکستان کے پیچھے ہٹنے کے بعد ہند مطمئن تھا کہ اب اس کا خاتمہ دنوں کی بات ہے مگر یہ دن یوں طویل ہوئے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ، کشمیر کے واسیوں نے اپنے خون سے وہ شمع روشن کی ہے کہ اسے بجھانا ان کے بس ہی میں نہیں رہا ، اور یہی وہ آزادی کا عشق ہے جو اپنی منزل مقصود تک ضرور پہنچے گا۔
سید مودودی کے مکتب کے فیض یافتہ وانی جیسے شیر دل ماتھے پہ کلمہ طیبہ کی پٹی سجائے ہند و پاک کو پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان سے ان کی محبت زمین کی نہیں بلکہ نظریئے کی بنیاد پہ ہے عظمتوں والے رب ذوالجلال کی قسم اس نظریئے کو کوئی اسلامی یا غیر اسلامی طاغوت شکست نہیں دے سکتا۔
کیا سید علی گیلانی کے نعرے ’’پاکستان سے رشتہ کیا، لا الہ الا اللہ‘‘ کے سوز نے آپ کے قلب کو پاش پاش نہیں کیا ؟؟؟
سرگوشیاں کرتے ہمالیہ کے کوہسار، سلگتے چناروں سے کہہ رھے ہیں کہ اس دھرتی کے فرزندوں کا جذبہ، ہند کی ظلمت سے سورج کو رہائی دلا کرہی رہے گا۔
فیض اللہ خان اے آروائی نیوز سے وابستہ سینئر صحافی اور وارز ون ‘ ایکسپرٹ ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قدرتی حدِ فاصل کا کام دینے والے قبائلی علاقے میں جاری جنگ اوراس سے ملحقہ امور پر خصوصی گرفت رکھتے ہیں