The news is by your side.

بیج چاہیے‘ وہ جس پر جھنڈا اور بتی ہے

وہ بڑی حسرت سے بیجز جھنڈیوں اور سبز ٹی شرٹس والے اسٹال کے پاس کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا ۔ عمر بمشکل آٹھ سے دس سال تھی ، اس کی گردن میلی کچیلی اور شرٹ بے انتہا گندی اور پرانی تھی بڑی بڑی آنکھوں میں معصومیت اور چہرے پہ یاس تھا ۔

اسکے کندھے پہ غبارے بندھے ہوئے تھے جو وہ اپنی ہی عمر کے صاف ستھرے ہنستے مسکراتے بچوں کو فروخت کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔میری نظر اس پہ تب پڑی جب وہ پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اسٹال پہ موجود بلند قامت نوجوان کے کان میں کچھ سرگوشی کر رہا تھا ۔

ذرا فاصلے سے میں نے دیکھا تو اس کے چہرے پہ مایوس کا رنگ گہرا نظر آیا ، شاید دکاندار کا جواب اس کی امیدیں توڑ گیا تھا لیکن وہ پھر بھی ایک کونے پہ کھڑا تھا اسٹال پہ بچوں کا ہجوم تھا مسرت تھی رنگ تھا روشنی تھی قہقہے تھے ۔

اس پورے منظر نامے میں وہ معصوم’’ مس فٹ ‘‘ تھا شاید اسے اس بات کا بھرپور احساس بھی تھا ۔

میں آگے بڑھا ، اسکے کندھے پہ پیار سے ہاتھ رکھا اور کہا کیا چاہیے؟۔

اس نے حیرت سے مجھے دیکھا نم آنکھوں کے ساتھ اس کے لب تھر تھرائے ’’ بیج چاہیے‘‘۔

کون سا والا ؟ میرے سوال پہ گویا اس کی آنکھوں میں امید کے دیے جل اٹھے ۔

وہ جس پہ جھنڈا ہے اور بتی جل بجھ ہوتی ہے۔ وہ فرشتوں کی سی معصومیت کے ساتھ اپنی خواہش بتانے لگا ۔

میں نے بیج ‘ ہری شرٹ اور کچھ پیسے اس کے حوالے کیے ۔

حیرت اور مسرت کے ساتھ اس نے وہی سڑک پر شرٹ تبدیل کی‘  میں نے بیج اس کی شرٹ پہ لگایا  تو اس کی خوشی دیکھنے لائق تھی ۔

کیا نام ہے تمہارا ؟ میں نے سوال کیا۔

اس نے جواب دیا ۔۔۔ ’دیوا رام‘۔

باپو کا نام ؟۔

ہیرا لال ۔

رہتے کہاں ہو ؟۔

یہیں نیپا کے قریب ۔

اچھا !  خوش ہو ؟۔

بہت زیادہ ۔

پس منظر میں دل دل پاکستان کا نغمہ فضاء میں رس گھولنے رہا تھا ۔

گہرے بادلوں سے پرے ایک ستارہ جھلملا رہا تھا ‘ٹمٹا رہا تھا اور ہم دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ دیوا رام کی جانب سے آپ کو ‘ مجھے  اور ہم سب کو جشن آزادی مبارک  ہو۔

نوٹ:  نیپا چورنگی پہ یونیفارم شاپس کے باہر گزشتہ شب دیوا سے یہ خوبصورت ملاقات ہوئی۔


اگرآپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں