The news is by your side.

واقعہ کربلا اورعصرِ حاضر کے یزید

جس طرح ہمارے دور میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے عوام سے ووٹ لینے کا طریقہ رائج ہے اسی طرح حضرت امام حسین علیہ السلام کے دور میں معاشرے کے پڑھے لکھے لوگوں سے بیعت لینے یعنی ان سے یہ عہد لینا کہ وہ آپ کی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں کا رواج تھا۔

جس طرح آج کے کرپٹ سیاستدان جمہوریت کی آڑ میں ووٹ خریدتے ہیں اور ہر جائز و نا جائز حربہ استعمال کرتے ہیں اسی طرح اس دور میں یزید نے سوچا کہ جب تک میں حضرت امام حسینؓ سے بیعت نہیں لے لیتا تب تک میری حکومت کو مقبولیت نہیں ملے گی لیکن یہ اس کی کم بختی تھی کہ اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ وہ کس سے بیعت لینے کا سوچ رہا ہے اس سے جو اللہ کی رضا کی خاطر اپنی جان مال اولاد سب کچھ قربان کرسکتا ہے

یزید کی زبردستی بیعت لینے کے لیے جب حضرت امام حسینؓ کو دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں تو آپ نے مدینہ کو خون خرابہ سے پاک رکھنے کے لیے 27 رجب 60 ہجری کو بمع اہل و عیال مکہ کی جانب رخ کیا اور مدینہ سے مکہ کا 451 کلومیٹر کا یہ سفر چار یا پانچ دن میں مکمل کیا لیکن جب آپ کو وہاں بھی قتل کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں تو آپ نے حج کو چھوڑ کر 3 ذوالحج 60 ہجری کو مکہ سے کوفہ جانے کا ارادہ فرمایا اب بھی آپ کی نیت وہی تھی کہ اس مقدس شہر کو خون خرابہ سے پاک رکھا جائے۔ آپ کو یقین تھا کہ یہ ظالم لوگ میری زبردستی بیعت لینے کے لیے میرا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ مکہ سے کوفہ جاتے ہوئے کربلا کے مقام پر آپ کو روک لیا گیا۔ مکہ سے کربلا کا 1840 کلومیٹر کا یہ سفر آپ نے 23 دن میں طے کیا اور 2 محرم 61 ہجری بمطابق 2 اکتوبر 680ء کو کربلا پہنچے۔

محرم  کی ۷ تاریخ کو آپ اور آپ کے گھر والوں حتٰی کہ معصوم بچوں کے لیے بھی پانی کی فراہمی روک دی گئی۔ بچوں کا پیاسا دیکھ کر حضرت عباس بن علی رضی اللہ عنہ جب پانی لینے کے لیے آگے بڑھے تو آپ پر تیر کا وار کیا گیا جو کہ آپ کے بازو پر لگا۔ آپ نے پانی کی مشک دوسرے ہاتھ میں پکڑ لی مگربد طینت لوگوں کیجانبسے آپ کے دوسرے بازو پر بھی وار کر دیا گیا۔ آپ نے مشک دانتوں سے پکڑ لی مگر آپ پے در پے تیر کے وار برداشت نہ کر سکے اور گھوڑے سے گر گئے۔ دس محرم کو امام حسین رضی اللہ عنہ جب اپنے چھ ماہ کے بیٹے حضرت علی اصغر بن رباب رضی اللہ عنہ کو ہاتھوں میں اٹھا کر خون کے پیاسوں سے کہنے لگے کہ تمھاری لڑائی مجھ سے ہے اس ننھے علی اصغر سے تمھاری کیا لڑائی ہے ذرا دیکھو تو سہی یہ تین دن سے پیاسا ہے ہمارے لیے نہیں تو اس ننھے بچے کےلیے ہی پانی دے دو لیکن ایک تیر آیا اور ننھے سے بچے کی گردن پر جا لگا ایسے کہ بچے کا سر تن سے جدا ہو گیا۔ آپ واپس خیمہ میں آئے تو چار سال کی بی بی سکینہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں لگتا ہے بابا کو علی اصغر کے لیے پانی مل گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب اس سے آگے کوئی کیا کہے اور کوئی کیا لکھے۔۔۔۔۔۔۔ہے کسی کی ہمت ۔۔۔۔۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر تن سے جدا کردیا گیا آپ کے جسم پر گھوڑے دوڑائے گئے۔ شِمر سر مبارک کاٹنے کے بعد خیموں کو آگ لگانے کی طرف دوڑا۔ زمانے کے ان گھٹیا اور گرے ہوئے دہشت گردوں سے جو ظلم بن پڑا انہوں نےکیا۔ گیارہ محرم کو ان ظالموں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک کربلا میں بغیر تدفین کے چھوڑ کر خواتینِ آل محمد اور حضرت امام علی  امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو ابنِ زیاد کے دربار میں کوفہ جانے کے لیے مجبور کیا۔ 80 کلو میٹر کا یہ فاصلہ طے کرنے کے بعد یہ قافلہ کوفہ پہنچا۔ اب وہاں کے الگ مظالم ہیں۔ وہاں سے یہ لٹا ہوا قافلہ 923 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے کوفہ سے دمشق پہنچا۔

رسیوں میں جکڑی ہوئی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی 55 سالہ بڑی بہن حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا اور 51 سالہ دوسری بہن اُم کلثوم رضی اللہ عنہا اور 20 سالہ بیٹی حضرت فاطمہ بنتِ حسین رضی اللہ عنہا اور ظلم کی انتہا کہ چار سالہ حضرت سکینہ بنتِ حسین رضی اللہ عنہا بھی باجوں اور نقاروں کے ساتھ بازاروں میں گھمائی گئیں ان ستم زدہ کو مزید مغموم کرنے کے لیے باپ بھائی اور بیٹوں کے کٹے ہوئے سر ساتھ ساتھ نیزوں پر رکھے ہوئے تھے۔

یہاں ایک سال قید و بند کی صعوبتوں میں گزارنے کے بعد بالآخر یہ قافلہ واپس مدینہ پہنچا۔ اور سب سے پہلے روضہ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر حاضری دی اپنے مظالم رو رو کر بیان فرمائے۔ ہر طرف یزیدیوں کے خلاف بغاوت کی فضا قائم ہو چکی تھی۔ اہل مدینہ نے اموی حکام کو مدینہ سے نکال دیا اور حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنا کر ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی لیکن ان یزیدیوں نے پھر وہی مظالم شروع کر دیے۔مدینہ اور مکہ میں خوب قتلِ عام کیا گیا۔مسجدِ نبوی میں تین دن تک کوئی اذان نہ دی جا سکی۔خانہ کعبہ میں آگ لگا دی۔ بے شمار لوگوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ 63 اور 64 ہجری میں پیش آنے والا یہ واقعہ حرہ ایک الگ داستان ہے لیکن وہ کیا ہے کہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔ان یزیدیوں کے انجام کی بھی ایک الگ ہی داستان ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ خواتین کو ساتھ لے کر کیوں گئے تو کیا ان کو یہ معلوم نہیں کہ مدینہ اور مکہ آپ کے خاندان کے لیے غیر محفوظ ہو چکے تھے۔ اور دوسرا یہ کہ یہ خواتین کوئی عام خواتین نہیں تھیں یہ اللہ کی رضا کی خاطر ظلم و ستم کے آگے چپ ہو کر گھر بیٹھنے والی خواتین نہیں تھیں۔ جانتے نہیں کہ کربلا کے بعد حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا کے دلیرانہ خطبات نے امت کے اندر ایک نئی روح بیدار کر دی تھی اور یہی خواتین تو تھیں جو کہ کربلا کی صحیح عینی شاہد تھیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت امام حسین عالی مقام رضی اللہ عنہ حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن ذرا سی بھی عقل رکھنے والا یہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اگر کسی نے حکومت حاصل کرنے کے لیے جنگ کرنی ہو تو کیا وہ صرف 72 ساتھی لے کر نکلے گا وہ بھی حکومت کے 80 ہزار مسلح افراد کے خلاف۔

اس سارے واقعے میں سمجھنے کی بات یہ  ہے کہ معرکہ کربلا آج بھی جاری ہے۔ کیا فلسطین شام اور کشمیر میں جاری ظلم و ستم یزیدیت نہیں۔ کیا تین ماہ سے زیادہ لگا ہوا کشمیر میں کرفیو یزیدیت نہیں۔ اونچی ذات کے ہندوؤں کا نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک یزیدیت ہی تو ہے۔کیا عافیہ صدیقی یزیدوں کی قید میں نہیں۔ آج بھی کروڑوں لوگ بھوکے سوتے ہیں۔ آج بھی کروڑوں لوگ میلوں دور چل کر پینے کا پانی لے کر آتے ہیں۔ کیا یہ سب یزیدیت نہیں ؟؟؟؟؟؟۔۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز                                                                               
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی

+ posts

محمد عبدالمنعم کاروباری شعبے سے وابستہ ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ملک کے سماجی موضوعات پر گہری نظررکھتے ہیں اور گاہے بگاہے ان پر قلم اٹھاتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں