جب ہمیں کسی قسم کا کوئی بھی نقصان بہنچتا ہے تو ہم شور مچانا شروع کر دیتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہو سکتا ہے کہ اس صدمہ کے پیچھے چُھپے اسرارورموز کو جان کر ہم کہیں کہ شکر ہے یہ ہو گیا ورنہ نہ جانے کیا کیا ہو جاتا۔ مالی و جانی نقصانات بہت دفعہ ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں بہت دفعہ درجات کی بلندی لے کر آتے ہیں اور بہت دفعہ ان نقصانات میں ایسی ایسی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں کہ جن کو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ حضرت امام جلال الدین رومی علیہ الرحمتہ نے ایک حکایت بیان فرمائی ہے جس کو پڑھیں اور سوچیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہونے والے نقصانات پر ہمارا ردِ عمل کیا ہوتا ہے اور کیا ہونا چاہیے
ایک شخص نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے عرض کی کہ مجھے جانوروں اور پرندوں کو بولی سِکھائیں۔ آپ نے اسے منع کیا کہ تو اس کی اہلیت نہیں رکھتا لیکن اس کے اصرار پر اسے صرف دوجانوروں کتے اور مرغے کی بولی سکھا دی۔ اب ہوا یہ کہ صبح کو مرغ نے اس کے گھر سے سوکھی روٹی کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور کھانے لگا لیکن ایک کتا بھی وہاں آ دھمکا۔
مرغ نے کہا تو فکر نہ کر کل مالک کا گھوڑا مرجائے گا اور اللہ تجھے پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا۔ مالک نے یہ سن کر گھوڑا بیچ دیا اور اپنے آپ کو نقصان سے بچا لیا جبکہ جس کو بیچا تھا اس کو نقصان اٹھانا پڑا کہ گھوڑا مر گیا۔ اگلے دن مالک نے یہی بات اپنے خچر اور اس سے اگلے دن اپنے غلام کے متعلق سنی تو اسی طرح خچر اور غلام کو بیچ کر خود کو پھر نقصان سے بچا لیا اور بہت خوش ہو کر کہنے لگا کہ کتنا اچھا ہوا کہ مجھے ان جانوروں کی زبان آتی ہے اور میں نے اپنی عقلمندی سے اپنے آپ کو تین بار نقصان سے بچا لیا ورنہ کیا ہوتا۔
اگلے دن یہی بات مرغے نے خود مالک کے متعلق کہہ دی کہ وہ کل مر جائے گا اور اس کے ورثا گائے ذبح کریں گے اور کھانا تقسیم ہو گا تمھیں بھی پیٹ بھر کر ملے گا۔ اب یہ شخص حضرت موسٰی علیہ السلام کی طرف بھاگا اور سارا ماجرا سنایا۔ آپ نے فرمایا قضا نے تیری طرف تین بار نقصان کے لیے ہاتھ بڑھایا جو کہ تو نے اپنی تدبیر سے لوٹا دیا اگر تو ایسا نہ کرتا تو قضا تیرے مالی نقصان سے پلٹ جاتی اور یہ بڑی مصیبت اس قدرجلدی تیرے سامنے آ کر نہ کھڑی ہو جاتی۔