کسی کو آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ رہنمائی کے ساتھ حوصلہ افزائی نہ ہو تو سب بے کار ہے۔ لیکن دنیا پریشان کرتی ہے حوصلہ نہیں دیتی۔ دنیا کیا ہے۔
یہی میں اور آپ۔ ہمارے آس پاس کے لوگ۔ ہمارے دوست۔ ہمارے رشتہ دار۔ ہمارے گلی محلے والے۔ سوائے چند ایک کو چھوڑ کر سب ایسے ہی ہوتے ہیں۔ آپ نوٹ کر کے دیکھ لیں اگر آپ نے کوئی نیا کام شروع کرنا ہو تو اکثر یہی کہیں گے مشکل ہے۔ تم نہیں کر سکتے ہو۔ گنتی کے چند لوگ ہی کہیں گے کہ تم کر سکتے ہو۔ شروع کرو۔ اگر دوسرے سے کسی کام میں کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو ہم کہتے ہیں تم رہنے دو۔ تم سے نہیں ہوگا۔ ہمیں یہ کہنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے کہ غلطی وہیں ہوتی ہے جہاں کام ہوتا ہے۔ ہم کسی کو حوصلہ نہیں دیتے اس لیے کہ کسی کو حوصلہ دینے والی ہماری اوقات ہی نہیں ہوتی۔ اس لیے جن لوگوں نے آگے بڑھنا ہوتا ہے وہ سب سے پہلا کام یہی کرتے ہیں کہ لوگوں کو ان کی اوقات میں رکھتے ہیں۔ کسی کی پروا نہیں کرتے کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔ کسی کی مناسب انداز میں تعریف کرنا بھی حوصلہ افزائی میں شامل ہے۔ مالک کا اپنے ملازم کی اچھے کام پر تعریف کرنا۔ استاد کا شاگرد کی تعریف کرنا۔ ساس کا بہو کی تعریف کرنا۔ ہر بڑے کا چھوٹے کے لیے تعریف کے دو بول بول دینا اس کی کارکردگی کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ ہم کسی کو اپنے سے آگے بڑھتا دیکھتے ہیں تو اس کی ٹانگیں کھینچنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر دوسرے کی لکیر کو چھوٹا کرنا ہے تو اپنی لکیر کو بڑا کرو۔ نہ کہ دوسرے کی لکیر کو مٹانا شروع کر دو۔ کلاس روم میں استاد صاحب داخل ہوئے اور بلیک بورڈ پر ایک لکیر کھینچ کر کہا کوئی ہے جو اس لکیر کو مٹائے بغیر چھوٹا کر دے۔ سب سوچ میں پڑ گئے کہ استاد جی نے کہ کیسی بات کر دی ہے۔
استاد جی چپکے سے اُٹھے اور اس لکیر کے ساتھ ایک اس سے لمبی لکیر کھینچ دی اور کہا دیکھو پہلی لکیر مٹانے بغیر چھوٹی ہو گئی نا۔ اگر آگے رہنے کا شوق ہو تو یہ نہیں کہ دوسروں کو آگے بڑھنے سے روک دو بلکہ اپنے ظرف کو وسیع کرنا سیکھو۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دوسروں کو چھوٹا سمجھ کر بڑا بننا آسان ہے لیکن خود کو چھوٹا سمجھ کر بڑا بننا بہت مشکل ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی کو حوصلہ دینا تو دور کی بات ہے ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ دوسرے سے بات کیسے کرنی ہے۔ کس انداز میں کرنی ہے۔ کہیں دوسرے کو میرا انداز بُرا تو نہیں لگ رہا۔ بات کرنے کا انداز بہت معنی رکھتا ہے۔ اگر یہ نیت ہو کہ سامنے والے کو تکلیف نہ ہو تو صحیح انداز خود بخود بن جاتا ہے ۔ غلط بات کو بھی اگر صحیح انداز سے کیا جائے تو بُری نہیں لگتی۔ اور اگر صحیح بات کو بھی غلط انداز سے کیا جائے تو وہ اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ ایک بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ اس کے سارے دانت ٹوٹ کر گرپڑے ہیں ، اس نے خوابوں کی تعبیر بتانے والے سے پوچھا تو اس نے کہا بادشاہ سلامت اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کے تمام اہل خانہ آپ کے سامنے دنیا سے رخصت ہوں گے۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا – اس نے تعبیر بتانے والے کو قتل کروا دیا۔ ایک اور تعبیر بتانے والے کو بُلایا گیا تو اس نے خواب کی تعبیر کچھ اس انداز سے بتائی کہ بادشاہ سلامت ، آپ کو مبار ک ہو ! خواب کی تعبیر یہ ہے کہ آپ ما شااللہ اپنے تمام گھر والوں میں سب سے طویل عمر پائیں گے ۔ بادشاہ نے خوش ہوکر تعبیر سنانے والے کو انعام و اکرام سے نواز کر رخصت کیا۔۔ دونوں نے ایک جیسی ہی بات کی لیکن اندازِ بیان سے کتنا فرق پڑتا ہے کہ ایک قتل ہو گیا اور دوسرا انعام و اکرام لے کر لوٹا۔