فیس بک والوں نے صبح دم یاد دلایا کہ ٹھیک ایک سال پہلے جب میں اس شہر میں وارد ہوا تو میں نے کیا دیکھا۔۔کیا محسوس کیا اور کیا لکھا تھا۔پورے 365 دنوں کا ایک سال ہم سب کی کتاب زندگی میں اور بہت کچھ رقم کر گیا۔۔ گردوُں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادی۔اس کا کیا احساس زیاں ۔روشنیوں کے شہر کی بازدید نے امید کے چراغ کی لو کچھ اور کم کی ۔کسی ستم ظریف کی بات سچ ہوتی نظر آئی کہ یہی شہرمستقبل کا موہنجو دڑو بننے جارہا ہے ۔۔اگرچہ قد نکالتی اور خاک سے اٹھ کے بلندی ٔافلاک کا رخ کرتی عمارات اپنےبانکپن میں اس خیال پر خندہ زن نظر اتی تھیں ’اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘۔ کہ جو ہورہا ہے کیوں ہورہا ہے اور جو نہیں ہو رہا ہے تو کیوں نہیں ہورہا ہے۔
مثلا” یہ کہ اگر شہر کے انتظام کے لیے شہریوں نے اتفاق رائے سےکسی کوچن لیا ہے تو کہیں اس کی موجودگی محسوس کیوں نہیں ہوتی ۔ یہ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘ والی کیفیت کیا ہے؟۔ جواب اس کا مختلف حوالوں سے ملا توشہر کا المیہ کچھ سمجھ میں آیا۔ یہ فقط فریبِ خیال نہ تھا کہ سال بھر میں کچرے کے ڈھیر ‘ سڑکوں کے گڑھے اورٹریفک جام کی صورتحال گنا بڑھ گئی تھی۔کہیں جانا ہوا تودھوئیں ‘ شور اور ہچکولوں والا سفر دعائیں مانگتے اور سوچتے کٹا کہ اختتام کسی ہڈی جوڑ کے ہسپتال میں نہ ہواتو آئندہ کہیں بھی وقت پرپہنچنے کا سوچیں گے بھی نہیں۔
مشکل یہ ہے کہ نہ سوچنا بھی اپنے اختیارکی بات تو نہیں لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے۔ جس راہ سے گذر ہوا شہر کو عمودی سمت میں سوےؑ افلاک اٹھتا پایا۔۔ ٹاون پلاننگ کے تقاضے بھی جدید دور میں ایسے ہی ہیں کہ زمین پرتمام سمتوں میں ہر روز پچاس کلومیٹر کا سفرطے کرکے آنے جانے میں وقت اور توانائی ضائع کرنے سے پچاس گنا بہتر ہے کہ شہر کے وسط میں اوپر کی جانب ایک کلو میٹر اٹھ جاؤ۔ بات عقل کی اور سمجھ میں آنے والی ہے۔عام آدمی دن بھرجان کھپا کے واپس آنے میں مزید گھنٹوں ہلکان ہو تو اس کے پاس اگلی صبح تک سونے کا وقت بھی نہیں ہوتا۔وہ خوشگوار گھریلو زندگی کے زریں اصول اپنانے کے لیےماہرین نفسیات کے اقوال پر عمل کرتے ہوئے فیملی کو’کوالٹی ٹائم‘ کیسے دے؟ ۔نظام قدرت میں دن کا دورانیہ چوبیس گھنٹے سے بڑھ کرپچیس ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں۔تو یہ واقعی کمال کا حل ہوگا کہ شہر کے مرکز میں رہ کے وہ تیس چالیس منزلہ عمارت کی لفٹ کا بٹن دبائےاورپانچ منٹ میں اوپر پانچ منٹ میں نیچے۔کام پرتازہ دم پہنچے اور خوش وخرم لوٹے ۔اتنی بلندی پر نہ شور نہ دھواں۔
دنیا کے سب بڑے شہراب نیچے نہیں اوپر پھیل رہے ہیں اور اس پر تو ہم بھی فخر کر سکتے ہیں کہ کراچی دنیا کا پانچواں بڑا شہر ہے خواہ دنیا کے دیگر ممالک کے دیہات بھی اس سےلاکھ درجہ پر آسائش ہوں۔افقی گروتھ کا یہ تصور آج کی زرعی سائنس کی بنیاد بھی ہے ۔ زمیں تو محدود ہے۔پیداوار بڑھانے کا نسخۂ کیمیا یہی ہے کہ دگنی یا چوگنی پیداوار دینے والے بیج ہوں یا سال میں دو کے بجائےتین اور چار فصلیں حاصل کرنا ممکن بنایا جائے۔ شہر بھی عمودی سمت اختیار کریں۔مسائل اور وسائل کا توازن ایسے ہی برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اب جدید شہرکا تصورکیا ہے۔ایک مثال کو چین میں قابل عمل بنایا جارہا ہے۔ نیا شہراگر سومنزلہ سو عمارات پر مشتمل ہے تو اس میں طرز رہائش کچھ ایسا ہوگا کہ اوپر کے زیادہ تر فلور رہائشی۔تمام کھڑکیوں کے شیشے سولر پینل چنانچہ بجلی اپنی اور مفت۔گھر سردی گرمی سے محفوظ۔ درمیان کے فلور شاپنگ ایریا‘ تعلیمی ادارے‘ اسپتال پارک کلب ‘پلے گراونڈ سومنگ پول اور جمنازیم وغیرہ۔نیچے کے فلوردفاتر کارخانے اور کام کی جگہیں۔تمام عمارات کچھ دورلیکن پل سے آپس میں ملی ہوئی ۔ بتائیے !کیا ناقابل عمل ہے اس میں؟۔
کچھ یہی کراچی میں ہورہا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ کچھ علاقوں مثلا خالد بن ولید روڈ پر 50 منزلہ عمارات تعمیر کرنے کے لائسنس جاری کر دئےگئے ہیں۔بیس اور پچیس منزلہ تو عام نظر انے لگی ہیں اور وہ زمانہ داستان ماضی ہوا جب اس شہر کے 23 منزلہ حبیب بنک پلازا کو مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سب سے بلند تعمیر ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔آج تعمیر ہونے والی سر بفلک عمارات میں سب سے اوپر والے فلیٹ کی قیمت بھی ڈیڑھ کروڑ بتائی گئی ہے۔یہ افقی پھیلاؤ درست۔۔ لیکن چند بنیادی سوال جو ترقی کے اس سفر کو زیادہ پر عذاب بنا دیں گے۔
جن سڑکوں پر یہ عمارات سر اٹھا رہی ہیں وہاں سڑکوں کو چوڑا نہیں کیا جاسکتا ۔تو ان عمارات کو اباد کرنے والے سفر کیسے کریں گے جب کہ سڑکیں اس وقت بھی ٹریفک جام سے بلاک رہتی ہیں۔
تمام سیوریج یعنی نکاسی آب کی لائنیں وہی ہیں اور ان کوضرورت کے مطابق دس گنا یا بیس گنا آبادی کے لیے وسیع کرنے کا کوئی پلان نہیں
شہر میں پانی کا کال ہے۔ اتنی بلندی پر اس کی سپلائی کیسے ممکن ہوگی۔خصوصا ’فراہمی آب کے نظام‘ میں خرابی کی صورت میں۔ واضح رہے کہ اس خرابی سے شہر کے مکیں عموما دو چار رہتے ہیں۔
ایسا گھر کوئی نہیں ہوتا جہاں بوڑھے اور بیمار نہ ہوں۔بیماری اور موت تو سب کے ساتھ ہے‘ لفٹ خراب ہوگی۔جو یہاں اکثر رہتی ہے۔یہ لوگ کیسے نیچے لائےجائیں گے۔
نہ میں ٹاؤن پلانر‘ نہ اس شہر کا باسی ‘ لیکن جب دیکھتا ہوں کہ نہ کوئی ان ممکنہ مسائل کی بات کر رہا ہے نہ مسقبل کے خطرات کا سوچ رہا ہےتو۔۔ تو کیا؟ میرے آپ کے سوچنے سے کیا کچھ ہوتا ہے؟ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ آخرموہنجو دڑو آباد کرنے والوں نے کیا سوچا تھا ؟؟؟؟؟ وہ بھی تو ایک شہرتھا عالم میں انتخاب۔