کراچی کی داستان کا المناک ترین پہلو یہ ہے کہ تیس برس قبل ٹریفک حادثے میں بشریٰ زیدی نامی طالبہ ماری گئی، اس واقعے نے سانحے کی شکل اختیار کی‘ لاوا پھٹ پڑا‘ نسلی لسانی پرتشدد سیاست نے عروج حاصل کیا اورشہر کی کنجیاں اس دن سے آج تلک ایم کیو ایم کے پاس ہیں۔ ان دنوں تو پھر سرکلر ریلوے تھی سرکاری بسیں تھیں یا اس سے قبل ٹرام تھی ۔ اب تو مقدر میں چنگ چی لکھ دی گئی ٹرام و ٹرین قصہ پارینہ سمجھئیے خیر۔
گزشتہ دس دنوں میں ٹریفک حادثات میں پانچ طالبات ایک طالب علم اور ایک کنڈیکٹر جان کی بازی ہارے ، مرنے والوں کی اکثریت وفاقی جامعہ اردو کی طالبات کی ہے اور ایک طالب علم انڈس یونیورسٹی کا ہے ایک کے سوا تمام حادثات یونیورسٹی روڈ پر ہوئے جہاں ایک ماہ سے بے ڈھنگے انداز سے کام جاری ہے ۔
کراچی والوں کو ساری باتیں ایک طرف کرکے کھلے دل کے ساتھ سوچنا چاہئیے کہ بشری زیدی تا حالیہ طالبات کے ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے کے درمیان والے عرصے میں مخصوص ٹولے سے وابستہ افراد کے سوا کس کی قسمت بدلی ؟ جو کل تک اورنگی کورنگی میں تھے وہ گلشن منتقل ہوئے گلشن والے ڈیفنس ، ڈیفنس والے لندن نیویارک اور انٹاریو۔ وہ سارے بہترین سفری سہولتیں استعمال کرتے ہیں بچوں کی شادیاں دبئی کے مہنگے ہوٹلوں میں کراتے ہیں ، دوسری طرف آپ ہیں جن کی بچیاں سن پچیاسی میں بھی چیختی چنگھاڑتی بسوں سے ٹکرا رہی تھیں دو ہزار سترہ میں بھی یہی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ تو پھر بدلا کیا ہے ؟ کس کے بھاگ جاگے ؟ نصیب کس کے کھلے ؟ ہمارے آپ کے بچے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر اپنی کتابوں اور خوابوں سمیت بکھرے خون میں لتھڑے پڑے ہیں ۔ والی وارث کل بھی نہیں تھا آج بھی نہیں ہے ۔ ترقی معکوس کا یہ سفر پوری شدت سے جاری ہے اس کا اختتام کب اور کیسے ہوگا کوئی نہیں بتلاتا۔
ہم جب تک اپنے اذھان میں پائے جانے والے فرسودہ افکار نہیں بدلیں گے ، حالات بھی نہیں بدلیں گے ۔ عزم و ارادہ کیجئے اس تار عنکبوت کو ختم کرنے کا کہ یہی امید ہے یہی آس و خواب ہے ، آنی والی نسلوں کی زندگی کو بدلنے کا۔