یہ سمجھنا کہ پاکستان تنازعے کی جڑ ہے درست اور دیانت داری پہ مبنی رائے نہیں پاکستان اس مسئلے کا حصہ ضرور ہے بذات خود مسئلہ نہیں۔ صرف پاکستان کو اس معاملے میں فریق قرار دینا ایسا ہی ہے کہ کسی کی بات کو بغیر سیاق و سباق کے پیش کیا جائے ، بلاشبہ ہمارے اداروں‘ سیاست دانوں اور آمروں نے سنگین نوعیت کی غلطیاں کیں اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں بہت ساری اغلاط جان بوجھ کر بھی کی گئیں لیکن اس کے باوجود صرف یہ پہلو کافی نہیں ہے۔
ستر سال سے ہند کے سامنے کھڑا رہنا بذات خود معجزے جیسا ہے سہی بات تو یہی ہے کہ پہلے مرحلے میں کھڑے رہنے کی ہی اہمیت ہوتی ہے آپ جمے رہ گئے یہ بہت ہے۔ باقی مراحل بتدریج طے ہوتے چلے جائیں گے فرد ہو‘ گروہ یا ریاست فطری ترقی کا یہی واحد راستہ ہے شارٹ کٹ کچھ نہیں ہوتا‘ پاکستان فطری انداز سے ہی آگے بڑھ رہا ہے۔ البتہ ترقی کی ایک قیمت ہوتی ہے جو کہ ریاست پاکستان کے عوام اپنے خون کی صورت میں چُکا رہے ہیں لیکن یہی سب یورپ میں ہوچکا ہے اور یقین مانئیے کہ اس سے کہیں زیادہ خوفناک انداز میں ہوا ہے۔
بہتر ہوگا کہ ہم پاکستان کے حال یا مستقبل پہ بات کرتے ہوئے ماضی پر نگاہ ضرور ڈالیں۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستان کا قیام ہندی ریاست کے واسطے کبھی پسندیدہ نہیں رہا تقسیم کے فارمولے کے مطابق نئے نویلے ملک کے اثاثے غبن کرنے کا معاملہ ہو‘ کشمیر‘ جونا گڑھ یاسیاچن پہ زبردستی قبضہ یا مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنا، ہند کی سازشیں عروج پہ رہیں یہاں تک کہ اس حوالے سے اندرا گاندھی و مودی کے بیانات بہت سے لوگوں کی تسلی کے لیے کافی ہوں گے۔
ظاہر سی بات ہے کہ ایسی تمام تر صورت حال میں آپکے پاس یہی راستہ بچتا ہے کہ خالصتان و کشمیری مزاحمت کی حمایت کی جائے اور دشمن کو اسی کے گھر میں الجھایا جائے مکرر عرض ہے کہ ابتداء پاکستان نے نہیں کی ہند کے سامنے ایک کمزور پاکستان ویسے بھی کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
پاکستان بننے کے ساتھ نہ صرف ہند سے درپیش خطرات لاحق تھے بلکہ افغانستان الگ سے درد سر کے طور پہ سامنے آچکا تھا ہم بالکل فراموش کرچکے کہ یہ افغان سرکار تھی جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور بلوچ و پشتون قوم پرستوں کو پناہ گاہیں فراہم کرکے آزاد بلوچستان و پشتونستان ” کی تحریک کو ایندھن فراہم کرنا شروع کیا۔ پاکستان کو مجبوراً فلاحی سے سیکیورٹی ریاست بننا پڑا فقط پچیس برس میں روس و ہند کی مشترکہ کوششوں اور ہماری سول ملٹری اشرافیہ کی بیوقوفی کے سبب پاکستان دولخت ہوچکا تھا جمہوریت پہ ایوب و یحیٰی کی صورت میں کاری ضرب لگائی جاچکی تھی، یہ ہماری بہرحال وہ غلطیاں تھیں جس نے آگے جاکر نقصان دیا لیکن پھر عرض ہے کہ نیا اور کمزور ملک ایسی غلطیاں کرتا ہی ہے ۔ ہم اگر ابتداء ہی پرامن ماحول میں رہتے تو یہ غلطیاں شاید ہی ہوتیں۔
ستر کی دھائی میں جب افغانستان میں کیمونزم کے خلاف اسلامی تحریک منظم ہونے لگی تو پاکستان کو پہلی بار افغانوں میں اپنے حلیف دکھائی دینے لگے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود اور عبدالرحیم نیازی جیسے لوگ شمال و جنوب اور مشرقی افغانستان میں اپنی تحریک منظم کر رہے تھے تو تب امریکا تھا‘ پاکستان اور نہ ہی سعودی عرب، بلکہ یہ زمین کی بیٹوں ہی کی تنظیمیں تھیں جن کا خمیر افغانستان سے ہی اٹھا۔
پاکستان میں اس تبدیلی کو دلچسپ نظر سے دیکھا گیا اور جب یہ تمام قیادت افغانستان میں اشتہاری قرار پائی تو پاکستان نے انہیں اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ویسے ہی جیسا کہ افغانستان میں پشتون و بلوچ عسکریت پسندوں کو پناہ دی گئی تھی۔ یہ بات بھی یاد رہے تب پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اس معاملے میں براہ راست شامل تھے اور یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ تمام مراحل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے ہی مکمل ہوئے۔
اس ساری صورتحال میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ نائن الیون سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام کو گالیاں دینے والے سابق کمیونسٹ اس واقعے کے بعد عالمی و مقامی سرمایہ داروں کو یوں پیارے ہوئے کہ اب لبرل ازم کا پرچار کرتے ہوئے اپنی نئی نسل کو یہ بھی نہیں بتاتے کہ پاکستان کو کمیونسٹ ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے قوم پرستوں کی دہشتگردی پہ مبنی کاروائیوں کو فیض احمد فیض جیسے شاعروں ادیبوں سے فکری غذا ملتی اور یہ تمام کے تمام کمیونسٹ قوم پرستوں کی پاکستان میں دہشتگردی کی کاروائیوں کی تحسین کرتے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح پاکستان میں سرخ انقلاب لایا جاسکتا ہے ۔ پاکستان میں منظم انداز سے حکومت کا تختہ الٹنے کی یہ کوشش معصوم سمجھنے جانے والے قوم پرست سیاست دانوں یا کمیونسٹ ادیب شاعر اور دانشوروں نے کی۔
پاکستان مختلف خطرات میں گھرا ایک کمزور ملک تھا یہی وجہ رہی کہ پریشانی میں گھرے شخص کی طرح اس سے کئی غلطیاں بھی ہوئیں جن میں سرفہرست فوجی قیادت کا سیاسی میدان میں اترنا یا اقتدار سنبھالنا تھا اس کی وجہ سے بہت نقصان ہوا‘ اچھی سیاسی قیادت نہ مل سکی اورآمروں نے اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کے لیے مختلف اوقات میں برادری ازم نسلی لسانی فرقہ وارانہ جماعتوں اور لبرل ازم کے پیروکاروں کو استعمال کیا۔
حالیہ پاک افغان تنازعہ بھی کچھ ایسے ہی معاملات سے جڑا ہوا ہے دونوں ممالک کو حقائق تسلیم کرنے ہوں گے‘ افغانوں کو اس خبط سے نکلنا ہوگا کہ اٹک تک ان کا علاقہ ہے اور پاکستان اس سراب سے نکلے کہ غیر مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے۔
دونوں ریاستوں کا خیال ہے کہ ایک دوسرے کے مطلوب افراد کی سرپرستی اور پناہ گاہیں فراہم کرکے وہ اپنے ایجنڈے کے تکمیل کررہے ہیں حالانکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ طالبان جہاں کے ہوں وہ صرف اپنے اہداف حاصل کر رہے ہیں ان کا ایجنڈہ واضح ہے اور دونوں ممالک میں اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے۔
گزرے ہفتے افغانستان کے معروف چینل ” طلوع ” سے بات کرتے ہوئے میں نے یہی کہا تھا کہ جب تک پاک افغان قیادت اپنے مسائل خود حل نہیں کرتی ایک دوسرے کے مخالفین یا ممالک کے تعاون پہ یقین رکھے گی مسئلہ جُوں کا تُوں رہے گا اور دونوں ممالک کے طالبان دونوں ممالک کی حکومتوں و اداروں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہیں گے ، یہ اور بات ہے کہ ہم سمیت عالمی طاقتیں اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ شاید اسلامی عسکری گروہوں کو وہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔