آج کا نوجوان اپنی ملازمت میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کررہا ہےاور اس کا سب سے اولین مسئلہ یہ ہے کہ اس کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے والا کوئی نہیں ہے اورجو لوگ کرتے ہیں ان کا انداز مناسب نہیں ہوتا لہذا ضروری ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ ملازمت میں کس قسم کے طورطریقے اپنائے جائیں۔
کام کا فالو اپ ایسا ہونا چاہیے کہ نہ صرف خود غلطی سے بچے بلکہ لُوپ میں آنے والے دوسروں کو بھی ان کی غلطیوں سے آگاہ کرتا رہے مقصد صرف یہ نہ ہو کہ میں نے اپنا کام پورا کر دیا ہے بلکہ مقصد یہ ہو کہ کام مکمل ہونا چاہیے اس لیے کام مکمل ہونے تک دوسروں کے کام کو بھی کراس چیک کرتا رہے۔
ہر کام میں سیلری کو ہی مدِّ نظر نہ رکھے بلکہ اگر کچھ کام بے لوث بھی کر دے گا تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ اپنے کام کو محدود رکھنے کی بجائے ان لمیٹڈ ہو کر کرنے کی کوشش کرے۔
سال گزر جانے پر صرف یہ نہ سوچے کہ کمپنی نے میری تنخواہ بڑھائی یا نہیں بلکہ یہ بھی سوچے کہ میں نے اس سال اپنی قابلیت اور محنت میں کتنا اضافہ کیا۔
باس کی ہر بات پر یس سر‘ یس سر کہنے والے کبھی آگے نہیں بڑھتے۔ آگے وہی بڑھتے ہیں جو صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا جانتے ہوں۔ اوپر والے عہدے کی تمنا کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچے کہ میں نے اپنی ذمہ داریوں اور سوچ کو کتنا اوپر کیا ہے۔
اگر بڑا بننے کا شوق ہو جو کہ ضرور ہونا چاہیے تو دوسروں کی ٹانگیں مت کھینچو ۔ دوسروں کی لکیر کو مٹا کر چھوٹا کرنے کی بجائے اپنی لکیر کو بڑا کرنا سیکھو دوسروں کی لکیر خود بخود چھوٹی ہو جائے گی۔
اس ٹیچر نے کیا خوبصورت بات سمجھائی کہ کلاس میں بلیک بورڈ پر ایک لکیر کھینچ کر کہا کہ کیا کریں کہ مٹائے بغیر یہ لکیر چھوٹی ہو جائے۔کسی نے کہا بغیر مٹائے اس کو چھوٹا کرنا نا ممکن ہے کسی نے سوچا شاید استاد پاگل ہو گیا ہے کیسی باتیں کر رہا ہے مگر پھر استاد نے ساتھ ہی ایک بڑی لکیر کھینچ کر کہا یہ دیکھو وہ لکیر چھوٹی ہو گئی کہ نہیں۔
ملازم کو چاہیے کہ اپنے کام کی بنیاد سچ پر رکھے۔جہاں غلطی ہو مان لے ۔ جب وہ سمجھے کہ اس سے زیادہ کی مجھ میں صلاحیت نہیں ہے تو صاف صاف خود بتا دے کہ سر میری بساط اس سے زیادہ کی نہیں ہے خوامخواہ ادھر اُدھر کی باتوں میں نہ گھمائے۔
محمد عبدالمنعم کاروباری شعبے سے وابستہ ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ملک کے سماجی موضوعات پر گہری نظررکھتے ہیں اور گاہے بگاہے ان پر قلم اٹھاتے ہیں۔