ایک زمانے سے فیس بک کے ماحول پرخیال و فکر کے اظہار میں عجب خوف اور انتشار کی بے زار کن یکسانیت طاری ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے زندگی کی سوچ سمٹ کر چند موضوعات کی بے مقصد اور لاحاصل تکرارمیں قید ہوگئی ہے۔ پیچھے نظر ڈالتا ہوں تو اس محفل میں گوناگوں موضوعات کی فراوانی تھی اور دلچسپی کے افق لا محدودتھے۔
دراصل دستور زبان بندی بندی اور ذریعہ اظہار پر ریاست کے کنٹرول کی تاریخ نصف صدی یا اس سے بھی زائد پر محیط ہے۔ریاستی جبر کی کہانی کا اولین باب تو11 اگست 1947 کو ہی لکھا جا چکا تھا جب بابائے قوم قائد اعظم بانیٔ پاکستان اور پہلے گورنرجنرل کی اسمبلی میں تقریر کی اشاعت روک دی گئی تھی لیکن طاقت سے ابلاغ کے ذرائع پر قبضہ کا بابِ استبداد 1958 کے مارشل لا کے بعد لکھا گیا جب لاہور کے پروگریسو پیپرز لیمیٹڈ پر قبضہ کیا گیا جس کے دواخبارات انگریزی ’پاکستان ٹائمز‘ اور اردو کا ’امروز‘ اور ہفت روزہ ’لیل و نہار‘ سرکاری تحویل میں لے لیے گئے تھے۔اس کے چیف ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے ان کے ساتھ ظہیر بابراوردیگر ترقی پسند اہل قلم گرفتار ہوےؑ اور ان کی جگہ شاہ کے وظیفہ خور مصاحب بٹھا دیے گئے۔ اس ادارے کی مطبوعات اپنی حق گوئی و بے باکی اور ادبی معیار کے باعث عوام و خواص میں اتنی مقبول تھیں کہ سرکار کے شعبۂ نشرو اشاعت کی لن ترانیاں بے اثر تھیں۔
لیل و نہار کے شمارے اب بھی کچھ قدر شناس منہ مانگی قیمت دے کر اپنی لائبریری میں محفوظ کرتے ہیں۔ وہ شاید تین روپے کا شمارہ تھا جو میں نے بھی سال بھر پہلے لاہور سے دو دو سو میں حاصل کیے تھے اس کے بعد ہرحکومت کے لیے سنسرشپ کے قوانین پر عمل کرانا فقط ضابطے کی مار ہوگئی۔ اخبارات کے مالی مفادات کو نیوز پرنٹ کنٹرول اورسرکاری اشتہارات کی بندش سے یوں کنٹرول کیا گیا کہ اختلاف ممکن ہی نہ رہا۔ پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کی گرفت نے مصنف‘ مدیر‘ پرنٹر اور پبلشرسب پرقدغن عائد کردی۔ اخبارو رسائل بھی ایک انڈستری بن گئے جو کاروباری مفادات کو اتنی ہی اہمیت دیتے تھے جتنے جوتے یا سیمنٹ بنانے والے اور یہ بے حد اطمینان بخش صورت حال تھی جس میں ہر سول یا ملٹری حکومت کو تحفظ حاصل تھا، الیکٹرانک میڈیا میں پہلے ریڈیو تھا جس پر سب ملازم تھے سرکار کے، جب ٹی وی آیا تب بھی فرق نہ پڑا، ایوب خان کی دس سالہ ترقی کا جشن ہو یا مردِ مومن مردِحق کا دورِخلافت یا بھٹو کا اسلامی سوشلزم۔۔عوام کے کان وہی قصیدہ خوانی سننے کے مجاز تھے جوایوان شاہی سے منظوری کی سند یافتہ ہو۔
پہلا فرق تب پڑا جب ٹیلی ویژن بین الاقوامی ہوا‘ پہلےڈش اور پھر کیبل کے ذریعے انفارمیشن کے بند دروازے کھلے اور عوام نے جانا کہ ’ زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو‘۔ اس پریشانی کا حل بھی کیبل پر چینلز کی پابندی میں تلاش ک لیا گیا۔خبر صرف انگریزی دان بی بی سی یا سی این این سے سن سکتے تھے، عوام کی توجہ فلموں‘ گانوں‘ اسٹیج شوز اور فیشن کی جلوہ آرائی کی طرف کر دی گئی۔ نیوز چینل کی آواز کو پیمراکے ذریعے روکا گیا ورنہ خرید لیا گیا۔ سکۂ رائج الوقت کی طاقت اس سے بھی زیادہ موثر ثابت ہوئی۔ راےؑ عامہ کو سرکار کا ہمنوا رکھنا کوئی مسئلہ نہ رہا کیونکہ اس عمل کے ساتھ عوام کو ذہنی انتشار‘ بے خبری‘ حقائق سے دوری اورایک مسخ شدہ تاریخ کے اندھیرے میں بھی دھکیل دیا گیا تھا۔
بالاخر وہ وقت بھی گزرگیا اوراب سوشل میڈیا تمام پابندیوں کی دیواریں گراکے ایک بار پھرحقائق کی روشنی کا خطرناک ذریعہ بن کر سامنے آگیا ہے اور کچھ ایسے آیا ہے کہ صدیوں کے پر بریدہ اظہار کے پنچھی کوحد افق تک بلا روک ٹوک پرواز کی طاقت مل گئی۔ جس نے جو چاہا کہدیا اوروہ سب سن بھی لیا جو سماعت کے لیے ممنوع تھا۔ یو ٹیوب پرپابندی اس پنچھی کے پر کترنے کی پہلی کوشش تھی۔پنجابی کی ایک کہاوت کا ترجمہ یوں ہوگا کہ ’پیاسے کے ہاتھ کٹورا آیا تو پانی پی پی کے مرگیا‘۔
سوشل میڈیا کی آزادیٔ اظہار وہی کٹورا ثابت ہوئی۔ کچھ لوگ ہر حد کو پار کر گئے، یہ بھی بھول گئے کہ ’’میری آزادی کی حد وہاں تک ہے جہاں سے دوسرے کی آزادی شروع ہوتی ہے‘‘۔ پورا سچ کون سنے گا؟ اور کون فیصلہ کرے گا کہ سچ کیا ہے؟۔ خصوصاً نظریات و عقائد کا معاملہ‘ سیاسی اور تاریخی نظریات بھی اتنے ہی ذاتی تھے جتنے عقائد‘ مصلحت اور مصالحت کے سارے تقاضے نظر انداز کر دینے والون نے فیس بک پربھی انتہا پسندی کے رجحان کو جنم دے دیا۔
اب میں دیکھتا ہوں کہ ایک طرف سیاسی محاذ آرائی، لسانی اور صوبائی عصبیت اور عقائد کی جنگ نے فیس بک کی فضا کو مسموم کردیا ہے تو دوسری طرف ادب و فن اور شعر و سخن کی ناقدری کوکس درجہ ارزاں کر دیا ہے۔ بقول غالب کہ’’ ہر بوا لہوس نے حسن پرستی شعار کی۔۔ اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی۔
جون ایلیا کے ایک جملے نے دریا کو کوزےمیں بند کردیا کہ ’’المیہ یہ ہے کہ جن کو پڑھنا چاہیے وہ لکھ رہے ہیں۔ انہی ان پڑھوں کی وجہ سے فیس بک ’خطرناک‘ بن چکا ہےاور شاید اس عاقبت نا اندیش ہجوم میں سرکار والا تبار نے اپنے تخریب کار بھی شامل کردیے۔ جیسے پر امن مظاہرے میں شر پسند عناصرکو مخالف شامل نہ کریں تو خود قانون نافذ کرنے والے ادارے شامل کر دیتے ہیں۔ فیس بک پر پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو اس کی دہشت نے میرے جیسوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کسی بہانے میں گرفت میں نہ آجاؤں کہـیں ہم بچہ شتر است۔ یہ کہانی یوں ہے کہ لومڑی بدحواس بھاگی جارہی تھی۔ بندر نے پوچھا کی خیر تو ہے خالہ!لومڑی نے کہا کہ بچے جنگل میں اونٹوں کو پکڑا جارہا ہے۔ بندر ہنسنے لگا کہ اس سے تمہیں کیا، لومڑی نے کہا کہ بچے!کسی نے میرے لیے کہ دیا کہ یہ بھی اونٹ کا بچہ ہے تو میں کیا کروں گی۔
پکڑ آسان ہوگئی ہے ۔ یہ خوف اوروں کو بھی تھا کہ ان سےمنسوب کرکے کوئی ’’خطرناک یاقابلِ اعتراض پوسٹ نہ لگادی جائے۔ ٹویٹس کے مسئلے کی سنگینی کو اب سامنے لایا گیا ہے اورآثار ہیں کہ ایک بار پھر کالا قانون سب کے لیے دستورِ زباں بندی بن کے نازل ہونے والا ہے۔ کیا ان حالات میں خاموش تماشائی بنے رہنا دانش مندی نہ ہوگا۔ اب آُپ ہی بتائیے کہ ’’میں آنے والے کل کی اب کیا فکر کروں۔ اپنے گزرے کل کی کہانی کیوں نہ کہوں‘‘۔
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
غالب