سیاسی جماعت ہو یا دہشت گرد تنظیم پڑھا لکھا نوجوان ہر کسی کی ضرورت ہوتی ہے، نوجوان نسل کو بلاشبہ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کی جانب پہلا قدم تصور کیا جاتا ہے اوراگرملک بھرمیں کی جانے والی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کا بغورجائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے اورامن کے قیام کے لیے پاکستان کی حکمتِ عملی میں نوجوان نسل کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔
مگر پھر بھی دولتِ اسلامیہ اور اسی قبیل کی دوسری انتہاپسند تنظیمیں ہرسال پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سےایسے انگنت معصوم نوجوانوں کو اپنےجال میں پھنسانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں جو یقینی طور پرمستقبل میں ملک وقوم کی ترقی میں نمایاں کردارادا کر سکتے ہیں۔ نورین لغاری کیس کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ خونریزی میں ملوث یہ انتہا پسند تنظیمیں ان بچوں کو بطور خودکش حملہ آور استعمال کرکے موت کی وادی میں دھکیل کر بے شمار گھرانوں کو اجاڑ دینے کا باعث بھی بنتی ہیں۔
ان حالات نے ملک کے ذمہ دارحلقوں اورخاص طور پران تمام لوگوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے جو ہمیشہ سے دہشت گرد ی کی وجوہات کو صرف غربت، نچلے طبقے اورغیرمستحکم معاشی حالات سے جوڑتے رہے ہیں۔ خوشحال گھرانوں کے پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیشہ سے جہادی اور انتہا پسند تنظیموں کے لیے تھنک ٹینک کا کردار ادا کرتے آرہے ہیں ۔ ان میں طالب علموں سے لے کر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز، ماھرین ، اساتذہ، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء حتیٰ کے میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔
جب سنہ دوہزارچار میں سابقہ آرمی چیف اورصدرِ پاکستان پرویز مشرف پر راولپنڈی میں دوخود کش حملے ہوئے تو ان میں سے ایک خودکش حملہ آورجمیل کے بارے میں انکشاف ہوا کہ وہ افغانستان میں ایک لڑائی کے دوران زخمی ہونے کے بعد کراچی سول ہسپتال میں زیرِ علاج رہا اوربعد میں صحت یاب ہوکرجنرل پرویزمشرف پرخودکش حملے میں شریک ہوا۔ ملک بھر کے حساس اداروں کے ساتھ ساتھ پولیس کے چند افسران بھی اس کیس کی تفتیش میں شامل تھے ۔ سندھ پولیس کی جانب سے میں اس ٹیم کا حصہ تھا، مجھے اطلاع ملی تو اس معاملے میں سول ہسپتال کے ایک سینئر ڈاکٹر صاحب کو مشکوک جان کر شاملِ تفتیش کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ وہ ڈاکٹر صاحب ایک جہادی سیٹ اپ سے ہمدردی رکھتے تھے ان کی ذاتی دلچسپی اور تعلقات کی وجہ سے خفیہ طور پرسول ہسپتال کراچی میں دہشت گرد کا علاج کیا گیا۔
جاہل دہشت گرد سے مقابلہ کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن کسی
پڑھے لکھے چالاک دہشت گرد کا مقابلہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے
اسی طرح کور کمانڈر کراچی حملہ کیس میں بھی جب دھشتگردوں کی معاونت کے الزام میں ’’ڈاکٹر برادران‘‘ کو ہم لوگوں نے حراست میں لیا تو بہت سے لوگوں کے لیے یہ بڑی پریشان کن بات تھی اوراسے پولیس کی روایتی کارروائی قراردیا گیا لیکن رہائی کے چند سال کے بعد ان میں سے ایک ڈاکٹر بھائی وزیرستان میں مختلف وڈیوزمیں دہشت گردوں کو ٹریننگ دیتے نظر آنے کے بعد امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تب جاکر ان لوگوں کو معاملے کی حساسیّت کا اندازہ ہوا۔ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ دہشتگرد اور سہولت کار ہمیشہ سے اپنی تنظیموں کے لئے ’’اثاثہ‘‘ ثابت ہوتے آئے ہیں۔
اسماعیلی برادری کے افراد کا قتلِ عام اورانسانی حقوق کی کارکن سبین محمود کے قتل سے پہلے بھی یہ باشعور طبقہ پاکستان میں جاری دہشت گردی میں اپنا حصہ ڈالتا رہا ہے جو کہ یقیناً انتہائی پریشان کن امر ضرور ہے ، لیکن اس کی ایک طویل تاریخ ہے بلکہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کچھ بھی نیا نہیں ہے ۔ کراچی میں امریکی قونصلیٹ پرحملہ اور شیرٹن ہوٹل کے سامنے فرانسیسی انجینئرز پرخودکش حملہ بھی کراچی کے پڑھے لکھے اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے جہادی نوجوانوں کی کاروائی تھی۔
ملک کے اندر اورملک سے باہر بہت سے پاکستانی نژاد یورپی اورامریکی نوجوانوں کو دولتِ اسلامیہ ، القاعدہ اوردیگر دہشت گرد تنظیموں سے تعلق کی بناء پر گرفتار کیا گیا۔ مغربی ممالک میں رہنے والے پاکستانی اپنے نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے انتہاپسندانہ رجحانات کو لے کربہت پریشان ہیں۔ عمر شیخ ، ایمل کانسی، نعیم نور خان سے لیکر عافیہ صدیقی وغیرہ بھی مغربی ممالک سے تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ خوشحال خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں انتہاپسندانہ رجحانات کوئی نئی بات نہیں ، لیکن حالیہ چند سالوں میں ملکی اور غیرملکی سطح پر اس طبقے سے جنم لینے والے انتہاپسندوں کی تعداد میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔
چند مذھبی جماعتوں کے طلباء ونگز کی مدد سے انتہا پسند گروپوں نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں اپنا نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں کالعدم حزب التحریر سے متاثرہ نوجوان بہت زیادہ متحرک ہیں۔ کالعدم حزب التحریر میں ملک بھر کے پڑھے لکھے لوگ جن میں پروفیسرزاورڈاکٹروں سمیت سرکاری محکموں کے افسران بھی شامل ہیں، یہ لوگ دولتِ اسلامیہ کے نظریہ کو بہت حد تک صحیح سمجھتے ہیں اور اگر خود کسی وجہ سے کھل کر سامنے نہیں آتے تو بھی بہت سی دہشت گردی کی کارروائیوں میں مددگار اورسہولت کار کے طور پر ضرور شامل رہے ہیں۔
نوجوانوں کی ذہن سازی کرکے یہ لوگ دہشت گرد تنظیموں کے لیے ایندھن کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ یہ لوگ پڑھے لکھے نوجوانوں کا شکار کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں پہنچ کر نوجوانوں کو دوست بناکراپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے۔ دہشت گرد تنظیموں نے اس سلسلے میں باقاعدہ طور پراعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین کی مدد سے سوشل میڈیا پربہت سے جعلی اکاؤنٹس بنائے ہوئے ہیں جن سے وہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو پھنسا کر اپنے جال میں لے آتے ہیں اورپھران کی ذہن سازی کرکے اہداف دیئے جاتے ہیں جس طرح نورین لغاری نامی طالبہ کے ساتھ ہوا ہے۔ نورین کے مطابق اس کا رابطہ فیس بک پر دہشت گرد محمد علی سے ہواتھا جس نے اس کی ذہن سازی کرکے دولتِ اسلامیہ جیسی تنظیم کے لیے کام کرنے پرتیار کیا ۔ مختلف انتہا پسند تنظیمیں اپنے ہمدرد اورہم خیال پڑھے لکھے لوگوں کی مدد سے ہفتہ واراورماہانہ درس و تدریس کا اہتمام بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ نشستیں مستقبل کے ’ٹیلنٹ‘ کو ڈھونڈنے اوران کے ہنر کو نکھارنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
کلین شیو اور پینٹ شرٹ کا استعمال کرنے والے یہ لوگ پوش علاقوں میں رہ کراپنی سرگرمیاں خفیہ طور پر جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے دہشت گرد یا سہولت کار مخلوط محفلوں میں بھی شریک ہوتے ہیں ۔ ان کی مدد کے لیے انہی کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین بھی شامل ہیں جو اپنے اپنے حلقوں میں طالبات پر کام کرتی ہیں۔ ملک بھر کے حساس اور سکیورٹی اداروں کی ساری توجہ دینی مدارس اور نچلے طبقے پر مرکوز ہے جبکہ دولت اسلامیہ اور القائدہ برصغیر جیسی تنظیموں کے ذہن ساز اورماسٹر مائنڈ ملک بھر کے تعلیمی اداروں اور پوش علاقوں میں خاموشی سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اساتذہ، لکھاری ، ڈاکٹرز حتیٰ کے سیکیورٹی فورسز کے لوگ بھی ان کے رابطے میں ہیں جس کے باعث انھیں اپنے اہداف کی مخبری اور اطلاع حاصل کرنے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نھیں کرنا پڑتا۔
تعلیم یافتہ طبقہ کے نوجوانوں کا دہشت گردی کے واقعات میں شامل ہونا بہت ہی تشویشناک امر ہے ۔ یہ لوگ دہشت گردی کے جدید طورطریقے استعمال کرکے خود کو دوسروں سے بہتر اور جدا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوہزارچار میں کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر واقع رمپا پلازہ میں سات کرسچن افراد کو زہر کے انجکشن لگاکر قتل کرنے میں برطانیہ سے تعلیم یافتہ نوجوان اوراس کا تشکیل کردہ مختلف جہادی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں پر مشتمل گروپ ملوث تھا، میری ٹیم نے جب اس گروپ کے کچھ دھشتگردوں کو پکڑا تو دورانِ تفتیش گرفتار دہشت گردوں نے کراچی میں احمدی فرقے کے اہم افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا اعتراف بھی کیا تھا۔ اس قسم کی ایسی بہت سی کارروائیوں میں اکثر ایسے گروپ سامنے آئے ہیں جن میں کسی ایک تنظیم کے بجائے مختلف تنظیموں کے ہم خیال نوجوانوں پر مشتمل گروپ شامل ہوتے ہیں۔
یہ رواج اور طریقئہ کار ڈینئل پرل کیس کے ماسٹرمائنڈ عمرشیخ کا ایجاد کردہ ہے جس نے سب سے پہلے ڈینئل پرل کیس میں حرکت جہاد اسلامی کے امجد فاروقی سے لے کر لشکر جھنگوی کے نعیم بخاری اور پھر القاعدہ کے خالد شیخ محمد کے تعاون سے اتنی بڑی کارروائی انجام دی، جبکہ ان کے علاوہ بھی دیگر بہت سی جہادی تنظیموں کے لوگ اس کے ساتھ اس کام میں شامل رہے۔ مختلف تنظیموں کے تجربہ کار اور پڑھے لکھے نوجوانوں کا ایک چھوٹا سا گروپ کسی بھی بڑی تنظیم سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے اور آج کل یہی رجحان عام ہے۔ دنیا بھر کی تمام دہشت گرد تنظیموں کے کام کرنے کے طریقہ کار کو اگر سمجھا جائے تو ان میں ایسے گروپ ہی سب سے خطرناک نظر آتے ہیں۔ دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ جیسی تنظیموں کا طریقہ بھی کچھ ایسا ہی ملے گا۔ جس طرح یہ پڑھے لکھے انتہا پسند مسلسل اپنے جیسے خیالات رکھنے والوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اسی طرح سے عام لوگوں اور سول سوسائٹی میں شامل رہ کر اپنے ہدف کو تلاش کرنا ان کے لئے بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ یہ چھوٹے گروپ کسی منظم تنظیمی ڈھانچے کی عدم موجودگی کے باوجود اپنی تعلیم یافتہ قیادت کی وجہ سے عملی طور پر بہت خطرناک ہوتے ہیں۔
اپنی بالکل مختلف اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ حکمتِ عملی کی وجہ سے یہ گروپ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی نگاہوں سے چھپے رھتے ہیں اور انہیں پکڑنا بہت ہی بڑا چیلنج رہا ہے۔ رابطے کے لیے روایتی طریقوں کے بجائے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ اسی سوشل میڈیا کے ذریعے اب کراچی سے لے کر شام تک دہشت گرد ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ یہ گروپ اپنے ہم خیال علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مضبوط تعلقات و روابط قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چندے کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کرنے کے بجائے اغوا برائے تاوان سے لے کر بینک ڈکیتیاں کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ آج کے دور میں پاکستان میں جتنے بھی ایسے چھوٹے گروپ کام کررہے ہیں وہ سب کے سب حکمتِ عملی اور طریقہ کار سے دولتِ اسلامیہ اور القائدہ کے بہت قریب نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں تعلیم پرتوجہ تو نہ ہونے کے برابر ہے لیکن تعلیمی اداروں میں اگر اس طرح کالعدم تنظیموں کا منظم نیٹ ورک قائم ہوتا چلا گیا تو جلد تدریسی درسگاہیں کسی بارود کے ڈھیر سے کم نہیں ہوں گی کیوں کہ کسی جاہل دہشت گرد سے مقابلہ کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن کسی پڑھے لکھے چالاک دہشت گرد کا مقابلہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے ، کراچی میں سانحہ صفورا کے مرکزی کردار طاہر سائیں کی اہلیہ ہمدرد یونیورسٹی میں فرائض انجام دے رہی تھی جبکہ حیدرآباد کی پڑھی لکھی لڑکی نورین لغاری کی تازہ مثال تو آپ کے سامنے موجود ہے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں