ارشاد باری تعالی ہے کہ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اورچھوڑ دوجو باقی رہ گیا ہےسود، اگر مسلمان ہو پھراگر ایسا نہ کرو تو یقین کرلو اللہ اوراس کے رسول سے لڑائی کا اوراگر توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو، نہ تو کسی کو نقصان پہنچاؤ اورنہ تمہیں نقصان ہو( سورۃ بقرہ ) قرآن پاک کی ان آیات بینات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سود وہ رقم ہے جو مقروض قرض کی اصل رقم سے زائد قرض خواہ کو لوٹاتا ہے۔ رباہ اور سود سے متعلق قرآنی آیات پر مفسرین کی طرف سے جو شرح بیان کی گئی ہے اس میں جا بجا کہا گیا ہے کہ رباہ، انٹرسٹ اور سود ایک ہی لفظ کے مختلف معنی ہیں جبکہ تینوں الفاظ کے لفظی معنی بھی ایک ہی ہیں لیکن اصطلاحی معانی الگ الگ ہیں۔
سود فارسی زبان کا لفظ ہے جبکہ رباہ عربی زبان کالفظ ہے اور انٹرسٹ انگریزی کا ہے۔ سود کے نقصانات کے پیش نظر بائبل میں بھی حکم ہے کہ عیسائی اپنے عیسائی بھائی کو سود نہ دے۔ موجودہ بینکنگ نظام اس زمانے میں تو موجود نہیں تھا جب سرکار دوجہاں ﷺ نے اسلامی قوانین کا پرچار کیا اور رہنماء اصول بتائے اب سوال یہ ہے کہ کیا تجارت اور لین دین کی تعریف موجودہ دور میں تبدیل ہو گئی ہے جبکہ غبن‘ دھوکہ اور تجارت کی آج بھی تعریف وہی ہے جو صدیوں پہلے تھی۔ اس سائنس اور ترقی یافتہ دور میں اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ پہلے اونٹ پر تجارت ہوتی تھی آج کل جہازوں پر ہوتی ہے۔ 3 دسمبر1969ء کو اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی آئینی زمہ داری پوری کرتے ہوئے ایک رپورٹ میں اتفاق رائے سے اس امر کا اظہار کیا کہ رباہ یعنی سود اپنی ہر صورت میں حرام ہے اور شرح سود کی کمی پیشی سود کی حرمت پر اثرانداز نہیں ہوتی۔
کونسل نے مزید رپورٹ میں لکھا کہ موجودہ بینکاری نظام کے تحت افراد ،اداروں اور حکومتوں کے مابین قرضوں اور کاروباری لین دین میں اصل رقم پر جو اضافہ یا بڑھو تری لی یا دی جاتی ہے وہ رباہ یعنی سود کے زمرے میں آتی ہے۔بینک کے سیونگ سرٹیفکیٹ پر جو اضافہ دیا جاتا ہے وہ بھی سود میں شامل ہے اسی طرح صوبوں، مقامی اداروں، اور سرکاری ملازمین کو دیئے گئے قرضوں پر اضافہ بھی سود ہی کی ایک قسم ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اجتماعی طور پر اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مذکورہ بالا تمام معاملات میں لین دین کا مروجہ طریقہ کارسود کے زمرے میں آتا ہے اوریہ حرام اورممنوع ہے۔
قارئین کرام میری اطلاعات کے مطابق سود کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں ایک بھی جج ایسا نہیں ہے جو شرعی علوم پر مکمل دسترس رکھتا ہو۔ کیونکہ وفاقی شرعی عدالت نے سود کیس کی سماعت پندرہ دن کے لئے ملتوی کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ عدالت پہلے الرباہ یعنی سود کی تعریف متعین کرے گی کیونکہ دونوں الفاظ یعنی الربا اور سود کی تعریفات متعین کرنے کے بعد ہی عدالت اس پٹیشن کی سماعت کے حوالے سے اپنے دائرہ اختیار کا جائزہ لے گی۔
یعنی ایک اسلامی ملک میں اللہ کے احکام کی تشریح یا احکام کی روشنی میں فیصلے وہ لوگ کریں گے جو متعلقہ کیس کی بنیادی تعریف تک نہیں جانتے۔ سود سے متعلق زیرِ سماعت اس اہم کیس کی سماعت ملتوی کرنے کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ عدالت ابھی مزید کئی ماہ سود اورالرباہ کی تعریفات متعین کرنے پر ضائع کرے گی اور پھر اپنے دائرہ اختیارکا جائزہ لے گی تاکہ یہ معاملہ حسب سابق معرضِ التوا میں پڑا رہے۔ قارئین کرام اصولی طورپرعدالت کو اپنے دائرہ اختیارکا پہلے جائزہ لینا چاہئے تھا اگر مذکورہ عدالت کو ان درخواستوں کی سماعت کا اختیار ہی نہیں تھا تو انہیں سود یا الرباہ کی تعریفات ازسر نو متعین کرنے کی کیابے جا ضرورت آن پڑی ہے ؟۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت ہی بینکوں میں رائج سود کو الرباہ قرار دے چکی ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے نہ صرف 1999ء کے اپنے فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت کے مذکورہ فیصلے کی عمومی توثیق کی بلکہ رائج الوقت سود یعنی الرباہ کی تمام شکلوں کی جامع اور مانع تعریف بھی کردی تھی ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا وفاقی شرعی عدالت اپنی بالائی عدالت کی طرف سے دیئے گئے فیصلے اورمتعین کردہ تعریف سے انحراف کرنا چاہتی ہے ؟ اگر انحراف کرنا چاہتی ہے تو کیا یہ عدل و انصاف اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ہو گا؟۔
سب سے بڑھ کر عدالت کو از سر نو سود اورالرباہ کی تعریفات متعین کرنے سے پہلے کیا یہ جائزہ نہیں لینا چاہئے کہ وہ بالائی عدالت سے متعین کردہ تعریفات کا جائزہ لینے کی مجاز بھی ہے کہ نہیں ؟ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ عدالت بنکوں میں رائج سود کو الربا کی تعریف سے خارج کر دے گی اور اس کا جواز فراہم کردے گی۔ اگر مخالف فریق یہ اعتراض اٹھائیں گے کہ پہلے سے متعین تعریف کا از سر نو جائزہ لینا آپ کے اختیار میں نہیں تو وہ اس اعتراض کے ساتھ یہ کیس واپس سپریم کورٹ کو بھجوادے گی اور سود کے انسداد کا معاملہ یونہی برس ہا برس عدالتوں میں لٹکا رہے گا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔