The news is by your side.

ایٹم بم کا نہیں بنتا اگر ۔۔ ڈاکٹرعبدالقدیرخان کاانکشاف

             آج قوم ایٹمی دھماکوں کی19 ویں سالگرہ منارہی ہے ہر سال28 مئی کا دن پاکستان میں یومِ تشکراور یومِ تکبیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 28 مئی 1998ء پاکستانی تاریخ کا وہ اہم ترین دن ہے جب وطن عزیز کے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے راسکوہ پہاڑی سلسلے میں واقع قمبر پہاڑ کے دامن میں چھ ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیاتھا۔ ایٹمی قوت بننے کے ساتھ ہی پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر اور بھارتی حکمرانوں کا اکھنڈ بھارت کا خواب ہمیشہ کے لیے چکنا چور ہوگیا۔

سنہ 1974 ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکا کرکے خطے میں ایٹمی اور اسلحے کی دوڑ شروع کی تو پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ملکی دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے اسے ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا اور اس پرکام کا آغاز کردیا گیا ۔بھارت نے 1998ء میں ایک بار پھر ایٹمی دھماکے کیے اور اس کے بعد تو جیسے وہ خطے کی سپر پاور بن گیااور اس نے ہر سطح پر پاکستان کے لیے دھمکی آمیز لہجے کا استعمال شروع کردیا جس کے جواب میں 28مئی 1998ء کو پاکستان نے تمام ترعالمی دباؤ کے باوجود چاغی میں6دھماکے کرکے بھارتی برتری کا خاتمہ کردیا اور پاکستان کےدفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا گیا۔



اسی لازوال دن کی یاد میں ہر سال ملک بھر میں یوم تکبیر انتہائی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے راقم الحروف سے ایک ملاقات میں یوم تکبیر 28 مئی کے حوالے سے تفصیلی طور پر ذکر کیا کہ کہوٹہ کی کہانی دراصل ایک قوم کے مصمم ارادے کی کہانی ہے جس نے اپنی زمین کے ایک ایک انچ کی حفاظت کی ہے کسی بھی بڑے اور مشکل کام کی تکمیل میں لاتعداد مشکلات پیش آتی ہیں اوراکثر لوگ اپنی زندگی میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتے لیکن ان مشکلات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اگر لوگ ایماندار اورنیک نیت ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا کہ میر ے رفقائے کار اور میں خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم اور ہماری محنت اور مصمم ارادے کی وجہ سے ہم اپنی زندگی میں ہی کامیاب ہوگئے اور مقصد حاصل کرلیا ہماری محنت اورمسلسل کوشش کی وجہ سے آج کہوٹہ نہ صر ف افزودہ یورینیم ایٹم بم اور بیلسٹک میزائل بناتا ہے بلکہ وہاں جن مختلف قسم کی ٹیکنالوجیز میں مہارت حاصل کی گئی ہے وہ لاتعداد دوسرے مفید کاموں میں بھی استعمال ہورہی ہیں کہوٹہ قومی دفاع کے لیے اہم ہتھیار بنارہا ہے اوردوسرے اہم پرو جیکٹس کے لیے اہم ٹیکنا لوجیز مہیا کررہا ہے۔ کہوٹہ نے لیزر ، الیکٹرونکس ، آپٹکس ، الیکٹریکل ، میکانیکل ، مینا لوجی ، بیو ٹیکنالوجی اور جنیٹک انجینئرنگ میں اعلیٰ مہارت حاصل کرکے اہم کام سرانجام دئیے ہیں۔

میں یہ بتلانا چاہتا ہوں کہوٹہ کی کامیابی کے لیے وہاں کے رفقائے کار کے اہل خانہ نے بہت قربانیاں دی ہیں یہ ان کے صبر و استقلال ، ہمدردی ، محبت اور حوصلہ افزائی کا اظہار تھا جس کی وجہ سے تمام کارکن نہایت دلجوئی اور مصمم ارادے سے اپنے کام خوش اسلوبی اور کامیابی سے کرسکے ان کارکنوں نے جو کارنامے سر انجام دیئے اس پر دنیاکی کوئی بھی قوم فخر سے سربلند کرکے چلے گی۔ جہاں تک میرا اپنا تعلق ہے مجھے اس پر بے حد فخر ہے کہ میری بیوی نے اس ملک اور اس کام کے لیے ناقابل بیان قربانیاں دی ہیں ایک غیر ملکی خاتون کی حیثیت سے ان کو لاتعداد مشکلات پیش آئیں نہ یہاں کوئی دوست تھے نہ کو ئی رشتہ دار دو چھوٹی بچیوں کی دیکھ بھال‘ پڑھائی اور گھر کی دیکھ بھال پھر بھی انہوں نے ایک فولادی ستون بن کر ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی اور مدد کی کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائیں مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کہ ان کی مدد کے بغیر نہ کہوٹہ ہوتا اور نہ ہی ایٹم بم ۔ میں یہ بیان کرنا پسند کروں گا کہ ایٹم بم کی تیاری اور بیلسٹک میزائل کی تیاری کاکام ہمارے لئے ایک بہت بڑا پیچیدہ چیلنج تھا اور بعض اوقات خطرناک بھی‘ مگر آخر میں کامیابی کامزہ بے حد لذیذ اور پرسکون تھا میرے رفقائے کار کو اور مجھ کو اس پر فخر ہے کہ ہم نے اپنے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم کردار ادا کیا ہے ہمیں یقین ہے کہ ہماری محنت اور کارنامے پوری قوم کو ہمیشہ ہمیشہ یاد رہیں گے اور ہمیں کبھی فراموش نہیں کرے گی ہمارا کام اور کارنامے آئندہ نوجوان طبقہ کے لیے مشعل راہ کے طور پر کام کریں گے۔

ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ میرا پاکستانی قوم خاص کرنوجوان طبقہ کو یہ پیغام ہے کہ دیکھیں ہماری تاریخ سنہری ابواب سے بھری پڑی ہے بوقت مشکل ہم ناممکن کو ممکن بناتے رہے ہیں دنیا میں کوئی شخص بھی ( سوائے جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ) یہ یقین نہ کررہا تھا کہ میں اور میرے رفقائے کار اس ملک کو ایک تھوڑے سے عرصے میں ایک ایٹمی قوت بنا سکتے ہیں مگر اللہ تعالی پر یقین ایمان کی پختگی اور محنت و مشقت نے یہ کام آسان کردیا اور کم عرصہ میں ہم نے یہ صلاحیت حاصل کرلی ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی کی ذات سے ناامید صرف کافر ہوتے ہیں اگر ہم صدق دل ، محنت ، ایمانداری سے پاکستان کی خدمت کریں تو ہم اس کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بناسکتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرسکتے ہیں۔


قارئین کرام 1965 ء اور1971 ء کی ہندوستان پاکستان جنگوں کے بعد ہندوستان کا رویہ پاکستان کے خلاف بڑا ہی جارحانہ ہوگیا تھا بات اس پر بھی ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ ہندوستان نے اچانک 1974ء میں اپنی سرزمین پر ایٹمی تجربہ کرکے پاکستان پر دباؤ سخت کردیا پاکستان ابھی جنگ کے اثرات اوراپنے مشرقی بازو کے کٹ جانے سے سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ یہ ایک اور چیلنج سامنے آگیاتھا۔

محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیرخان ہالینڈ میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہائش پذیر تھے اورایک جدید ترین ایٹمی پلانٹ پرکام کررہے تھے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم پاکستان کو خط لکھ کر اس سلسلے میں اپنی خدمات رضاکار انہ طور پر پیش کیں۔ 1976 ء سے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز میں کام شروع ہوا حکومت نے بھر پور تعاون کیا اور ان کے بعد ضیاء الحق اور بعد میں آنے والی حکومتوں نے یہ تعاون جاری رکھا۔ 1986ء میں پاکستان ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہوگیا تھادنیا بھر میں چہ میگو ئیاں ہوتی رہیں اور پاکستان نے کھل کر کبھی تسلیم نہیں کیا کہ اس نے یہ صلاحیت واقعی حاصل کرلی ہے۔ ہندوستان طاقت کے نشے میں چور تھا اور بڑے گھمنڈ سے اس نے راجستھان کے صحرا میں پوکھران کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے علی الاعلان کرڈالے جس کے اس کے رویے میں بھیانک تبدیلی آئی اوروہ پاکستان کے خلاف کھلم کھلا دھونس اور دھمکی پر اتر آیا اس کا رویہ ہتک آمیز ہوگیاتھا اور اس وقت پاکستا ن پرلازم ہوگیا کہ اپنا راز طشت ازبام کرہی دے۔

دنیا جہاں سے دباؤ پڑنے لگا کہ پاکستان ایسا کرنے سے باز رہے امداد و ترغیبات ، اقتصادی و سیاسی تعاون کا لالچ بھی دیا امریکی صدر نے پندرہ دنوں میں وزیرِاعظم پاکستان کو پانچ دفعہ فون کیا اور پاکستان کو روکنے کی کوشش کی لیکن28 مئی1998 ء سہ پہر تین بجے کے قریب بلو چستان میں چاغی پہاڑیوں کی زیر زمین سرنگوں میں پاکستانی سائنس دانوں نے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں کے درمیان ایٹمی بٹن دبا ہی دیا‘ یکے بعد دیگرے چھ دھماکے کیے گئے سارے کے سارے کامیاب اور ہندوستان کے مقابلے میں زیادہ طاقتور۔

اسکے بعد تو پاکستانی قوم کی عید ہی ہوگئی جشن منایا گیا اور اللہ کا شکر ادا کیا گیا ۔اگلے سال اس تاریخی لمحے کو یاد کرنے کے سلسلے میں حکومت نے تجاویز طلب کیں کہ اس دن کو کیا نام دیا جائے قرعہ فال یوم تکبیر کے نام نکلا ۔ افسوس ! بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ! حکومتیں تبدیل ہوئیں امریکا کا دباؤ بڑھا محسنِ پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو رسوا کیا گیا اورپھر یوم تکبیر بھی صرف ایک پارٹی کا ہو کر رہ گیا آہسۃ آہسۃ چاغی پہاڑی کے ماڈل جو تمام شہروں میں بڑے چاؤ سے بنائے گئے تھے ختم کردیئے گئے لیکن حقیقت تو یہ ہے پاکستان کا ایٹمی بم زندہ توانا اور موجود ہے پاکستان نے میزائل ٹیکنا لوجی میں بھی خاطرخواہ ترقی کرلی ہے غزنوی ، ابدالی اور شاہین پاکستانی افواج کے اسلحہ خانے میں داخل ہوچکے ہیں جن کی مار ہندوستان کے کسی بھی شہر تک ہے ان کی بدولت ایٹمی مواد سیکڑوں ٹن کی مقدار میں لے کر فضا سے گرایا جاسکتا ہے شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

    ؎ باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم     سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا  
    ؎  تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں   آساں نہیں مٹانا نام ونشاں ہمارا

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں