لاہور کے ریلوے اسٹیشن کی وسعت اور شان و شوکت کو دیکھ کر اب مجھے دہلی کا اسٹیشن بہت چھوٹا اور حقیر لگتا تھا جو کبھی میرے لیے انسانوں اور ہر رنگ کی ٹرینوں کا وہ پر شور شہر طلسمات تھا جس کو میں پورا دیکھ ہی نہیں سکتا تھا۔ اب لاہور میرے خیال و نظر کی رسائی تک لاہور تھا۔یہاں یہ بتادوں کہ انڈیا میں اس وقت بھی ریلوے سرکار کے زیر انتظام تھی لیکن پورے انڈیا میں ایک مرکزی سروس نہیں تھی۔لاہور کی طرف نارتھ ویسٹرن ریلوے آتی تھی۔ مختصرا ً’’این ڈبلو آر‘‘، یہ ہی بعد میں پی ڈبلو آر بنی اور اب پی آر ہے۔ اس وقت وہ ایک نمبر پلیٹ فارم تھا جس پر ہزاروں انسان ڈیرہ ڈالے پڑے تھے جیسے اب اور کہیں نہیں جانا، بس یہ اپنا گھر ہے۔
جو بات میں بھولنا چاہوں تو بھی نہیں بھلا سکتا وہ میزبانوں کا مدد اور ہمدردی کا بے پناہ جذبہ تھا۔ دوسرے تیسرے دن ایک نوجوان لڑکا ور ایک لڑکی گرم ناشتہ اور چائے لے کر پہنچے۔نام کیااب تو یاد میں ان کی صورت کا دھندلا سا نقش بھی نہیں۔ کوئی دبلی پتلی سی ہنس مکھ لڑکی تھی اور متین صورت جھینپو سا نوجوان تھاوہ یوں اپنائیت اور عزت سے ملے جیسے پرانے شناسا ہیں۔ انکل انٹی کہنے کا دستور نہ تھا۔ اماں ابا کو خالہ اور خالو کہنے لگے وہ غالبا گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں وہ ہمارے میزبان ہیں ہمارےعلاوہ انہوں نے کتنوں کی ذمے داری اٹھا رکھی تھی یہ نہیں معلوم لیکن وہ وقت پر ناشتا۔ پھر دوپہر کا کھانا اور پھر رات کا کھانا لاتے رہے ہمیشہ گرم اور تازہ جو ضرور ان کے گھر کا ہوگا۔
انہوں نے کپڑے اور نقد رقم بھی پیش کی تھی لیکن ابانے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں۔تقریباپندہ دن یہ معمول جاری رہا۔ پھر ایک دن انہوں نے کہا کہ چلیں آپ کی رہایش کا بندوبست ہوگیا ہے۔ہمارا سباب ایک تانگے پر لادا گیا،وہ لڑکا اور لڑکی سائیکلوں پر ساتھ چلے۔ جی حیرانی کیسی! اس وقت بلکہ ضیا کے دور تک لیڈیزسائیکلیں عام استعمال ہوتی تھیں جو پاکستان کی سہراب کمپنی بناتی تھی۔ 70 سال پرانی دقیانوسی دنیا میں ایک ایسافراخدلی کا ماحول تھا جس میں نہ اخلاقیات مسلط کرنےوالے تھے اور نہ مذہب کی خود ساختہ صورت کوجبر و تشدد سے ’’راہ راست‘‘ بناکے بزور بازو نافذ کرنے والے۔
لاہور کے پرانے باسی اس وقت کو بھولے نہیں ہیں جب صبح اسکول‘ کالج اور یونیورسٹی کی لڑکیاں رنگین آنچل لہراتی سڑک کے کنارے کنارے چلتی جاتی تھیں۔ رنگ پیراہن کا‘ خوشبو زلف لہرانے کا نام تھا کیونکہ اس وقت یونیفارم نہیں تھی اور فلم نگری لاہور سے فیشن شروع ہوتے تھے۔ ماں باپ کو اطمینان حاصل تھا کہ بیٹیاں سڑک پر محفوظ ہیں ورنہ وہ ان کوا یسے پھرنے کی آزادی دیتےبھلا؟۔
راہوار ِتخیل کو پھرلگام دے کر وقت کی قید میں لاتا ہوں۔ ہمارے قیام کابندوبست گڑھی شاہو کی مین روڈ پر ایک تنگ گلی کے آخری گھر میں کیا گیا تھا۔ گلی آگے سے بند تھی اور اس کی نچلی منزل پر ہمیں ملنے والا خاصا کشادہ کمرہ قدرے تاریک تھا۔ بعد میں اس گلی کا سراغ لگانے کی میں نے بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ ایک اندازہ تھا کہ وہ کہاں تھی لیکن ظاہر ہے وہ غلط تھا ورنہ گلی تو آج بھی بند ہی ہوگی اور نئی تعمیر کے باوجود دائیں ہاتھ کا آخری گھر آخری ہی ہوگا۔ اللہ اس فراخدل شخص پر رحمت کے سب در کھلے رکھے جس نے دوسرے ملک سے آنے والے بے گھراجنبی خاندان کو اپنے گھر میں جگہ دی۔ محلے کے عام لوگوں کا رویہ بھی انتہائی ہمدردانہ اور ہر قسم کے تعصب سے پاک تھا۔وہ ہمارے لیے اتنا سامانِ خور دو نوش اور کپڑے لاتے تھے کہ ہم قبول نہیں کر سکتے تھے۔ میں اور چھوٹا بھائی مختصر گلی عبور کرکے سڑک پر آجاتے تھے اور’’بے پناہ‘‘ ٹریفک کودیکھتے رہتے تھے۔حالانکہ اس زمانے میں نہ گاڑیاں تھیں نہ موٹر سائیکلیں۔ جس چیز نے ہمیں دم بخود کر دیا وہ ڈھائی آنے پاو کے انگور تھے۔ اس وقت بکری کا گوشت بھی اسی بھاؤ ملتا تھا۔ سمجھ لیں 15 پیسے پاؤ ۔جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو دہلی سے انگور 4 روپے پاؤ لائے جاتے تھے اور مریض کو دانے گن کر دیےجاتے تھے۔۔ میں اور بھائی توخوشی سے نہال ہوگئے۔ ہر وقت انگور کھاتے نظر آتے تھے۔
ایک اور بات کی یاد بہت واضح ہے۔ ایک دن اعلان ہونے لگا کہ ’چلو چلو اسٹیشن چلو‘۔ وہان سے سکھوں کی اسپیشل مہاجر ٹرین جانے والی تھی۔ ان کو جہنم رسید کرکے ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے قتل کا حساب برابر کرنا ہے۔ہم ایک دکان کے تھڑے پر کھڑے جلوس بنتا دیکھتے رہے جو نعرے لگا رہا تھا اور سڑک پر ہزاروں نہ سہی سینکڑوں لوگ ضرور تھے۔ جلوس چلا گیا اور پتا نہیں اسٹیشن پر کیا ہوا۔ انہوں نے وہاں قتل عام کیا یا آگے کہیں لیکن شاید چار لوگ مارے گئے۔ ان شہیدوں کی میتیں بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ لائی گئیں اور وہیں گڑھی شاہو کی میو روڈ جو کہ آج کی علامہ اقبال روڈ ہے اس پر ان کی نماز جنازہ ہوئی جس میں پوری سڑک پر خلقت تھی۔
ابا کی انڈیا سے سروس کی تصدیق نہیں ہورہی تھی۔ وہ روز دفتر جاکے کینٹ اسٹیشن کے سامنےحاضری لگاتے اور مایوس لوٹ آتے۔ ہمارا نقد اثاثہ احتیاط کے باوجود کم ہوتا جارہا تھا۔ تقریباً تین ماہ اسی طرح گزرے۔آخری دن ہمارےپاس 5 آنے رہ گئےتھے۔اسی دن’’لاسٹ پے سرٹیفکٹ‘‘ آگیا جو تصدیق کرتا تھا کہ سرکاری ملازم کہاں تھا‘ کس عہدے پر تھا ور اس کوآخری تنخواہ کب اور کیا دی گئی تھی۔ اب اس دور میں تعاون اور ایمانداری کا جذبہ دیکھئے کہ ابا کو تین ماہ کی تنخواہ کی ادائیگی اسی دن کردی گئی۔ یہ بل بنانے سے پاس کرنے اور چیک ملنے تک کا وہ عمل تھا جو اب مہینوں پورا نہیں ہوتا ۔ ریٹائر ہونے والے بوڑھے بھی ملنے والی پنشن کی رقم کا ایک حصہ نذرانہ پیشگی نہ دیں تو دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ میری ایک بچپن کےدوست بڑے اچھے عہدے پر تھے۔ ریٹائر ہوئےتو کاروبار کرلیا۔ ان سے زیادہ انکم ٹیکس کاٹ لیا گیا،اس کی واپسی کے لیے کوئی سفارش کام آئی نہ ہائی کورٹ کے آرڈر۔ سیدھا سودا یہ تھا کہ آدھے دے دو آدھے لے لو۔فوجی آدمی مانا نہیں اور پورا نقصان اٹھایا۔
آمدم بر سر ِمطلب۔ہم اس دن دولت مند ہوگئے۔ ابا نے واپس آکے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا کہ اب ہم ضرورت مند نہیں رہے۔وہ دس روپے مہینہ پر پرانی انار کلی میں ایک کرائےکا مکان دیکھ آئےتھے، ہم اسی دن وہاں منتقل ہوئے۔ ابا نے دفتر آنے جانے کے لیےفلپس کی سائیکل 120 روپے میں خریدی جو انگلینڈ کی بنی ہوئی تھی۔۔ہرکولیس اس سےاچھی اور 150 کی تھی اور ‘ریلے’کی شان تھی مرسیڈیز کی طرح جو 200 میں ملتی تھی۔ اس گھر میں شاید ہم 3 یا 4 ماہ رہے اس دوران ہی لوگوں نے کہا کہ آپ مہاجر ہیں تو کلیم داخل کریں۔ ابا کے پاس نہ کاغذات نہ ملکیت کا کوئی ثبوت۔۔ ہمدردوں نے اکسایا کہ ہمت کریں تو سب ہو جائے گا۔ دستاویزات بنانے والے سارے کام کر دیتے ہیں لیکن ابا ڈرتے تھے کہ پاکستان میں کوئی آگے نہ پیچھے۔ میں پکڑا گیا تو فیملی کا کیا بنے گا۔ پاکستان میں لوٹ مار‘ رشوت اور کرپشن کا آغاز ہی مہاجروں کی آباد کاری والے محکمے سے ہوا۔
اب اس مرحلے پرآگے بڑھنے سے پہہلے میں تھوڑا سا لاہورکے پس منظر کے بارے میں بتادوں جو اس وقت مجھے بھی معلوم نہیں تھا۔وقت کے ساتھ سب پتا چلا ۔ لاہور تقسیم کے وقت پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم شہر تھا۔انڈیا میں تین فلم سنٹر تھے بمبئی‘ مدراس اور کلکتہ۔پاکستان میں صرف لاہور تھا ۔ یہ سٹی آف کالجز بھی کہلاتا تھا اور سٹی آف گارڈن بھی ۔ پاکستان کا پہلا ریڈیو اسٹیشن یہاں 1937 میں بنا جہاں سے دس سال بعد 14 اگست 1947 کو شکیل احمد نے رات بارہ بجے پہلی بار کہا کہ ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘‘۔ اس سے پہلے کہا جاتا تھا کہ یہ آل انڈیا ریڈیو لاہور ہے ۔یہ شملہ پہاڑی کے پیچھے ایک پرانی کوٹھی میں تھا جو غالباخضر حیات خان کی تھی۔اردواخبارات کے علاوہ لاہور سے عورتوں اور بچوں کے متعدد رسالے شایع ہوتے تھے۔ چنانچہ رفتہ رفتہ اس نے فلم اور فیشن کے ساتھ ادبی اور ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل کر لی تھی ۔
علامہ اقبال کا گھر گڑھی شاہو میں بوہڑ والا چوک کے پاس یا میو روڈ پر تھا جو اب علامہ اقبال روڈ کہلاتی ہے وہ خستہ حال پیلی کوٹھی اب ویران نظر آنے والا اقبال میوزیم ہے جہاں میں نے کسی کو جاتا نہیں دیکھا۔ اب وہ زمانہ دیدہ ہر طرف پھیلا برگد کا بوڑھا درخت بھی نہیں ہے جس کا سایہ چوک پر تھا شاید کافی لوگ نہ جانتے ہوں کہ کرشن چندراجیسے ادیب‘ خشونت سنگھ‘ دیوآنند ‘ بلراج ساہنی اور کامنی کوشل جیسے نامور اداکار گورنمنٹ کالج سے ایم اے/بی اے کرکے گئےتھے ۔لاہور کی خوشحالی میں بڑا حصہ سکھوں کا بھی تھا۔ ان تمام وجوہ کی بنا پر اس بات کی اہمیت بہت تھی کہ لاہور بھارت میں شامل ہوتا ہے یا پاکستان میں۔ ہر سکھ کرپان لیے سنگھ بنا پھرتا تھا کہ فیصلہ بھارت کے حق میں ہی ہوگا ( سنگھ کا مطلب شیر ہی ہوتا ہے)۔ اچانک پانسہ پلٹ گیااور مسلمانوں نے سارےحساب برابر کردیے۔ سکھوں کے خوشحال محلے مثلا’ شاہ عالمی گیٹ‘ وغیرہ نذر اتش کر دیےگئے۔ جو جان بچاکے بھاگ سکے نکل گئے۔ یہاںمیں ایک بات کہہ دوں جو شاید بے محل لگے لیکن اس کا ذکر ضروری ہے۔ دیال سنگھ کالج روایت کے مطابق امرتسر کے ایک سکھ نے بنایا تھا جو اپنا سب کچھ اس کارخیرکے لیے بیچ آیا تھا، کالج کے ساتھ اس نے ہر کلاس کے طلبا کے لیے نصابی کتابوں کی لائبریری بنائی تھی جہاں سے ہر ضرورت مند کو فری کتب دستیاب تھیں۔ ہوائےبغض و عداوت چلی تو لائبریری بھی جلا دی گئی۔ پھر کسی کو یہاں ایسی لائبریری بنانے کی توفیق نہ ہوئی۔
لوٹ کر اصل موضوع پر آتا ہوں۔نہ جانے کس نے ابا کو مجبور کیا کہ وہ بحالیات والوں کے چکر میں پڑ گئے ۔بھاگ جانے والوں کی متروکہ
جائیداد میں تالے پڑے تھے ۔لوگ بحالیات والوں کی جیب گرم کرتے تھے اور کسی دکان مکان کا الا ٹمنٹ آرڈر حاصل کر لیتے تھے۔ایک شخص سے میں بعد میں ملا۔ اس نے کبھی ریڈیو نہیں دیکھا تھا۔ اسے ہال روڈ کی ایک دکان مل گئی جو آج لاہورکی الیکٹرانکس کی ہول سیل مارکٹ ہے ۔ تالا توڑا تو اندر ریڈیو بھرے ہوئے تھے۔ اس نے یہ کاروبار شروع کیا اور اس کام میں مہارت بھی حاصل کرلی۔ظاہر ہے وہ کروڑ پتی مرا۔۔ ابا خالی ہاتھ بحالیات کے افسروں کے پیچھے پھرتے تھے اور اپنی رام کہانی سناتے تھے ۔۔۔ ’’میں شمیم نعمانی ہوں ‘ شاعر ہوں‘ گھر لٹا کے آیا ہوں‘ پاکستان میں کوئی نہیں‘‘۔اس دکھ بھری فریاد کو کانوں تک پہنچنے اور دل پر اثر کرنے کےلیے مال یا سفارش کی ضرورت تھی۔ اس کے بغیر کون سنتا ہے فغانِ درویش۔
اتفاق ایسا ہوا کہ ابا ایک ہی کے پیچھے پھرتے رہے۔اس نے جب دیکھا ابا موجوداور وہی ریکارڈ ۔۔۔۔۔کہ شاعر ہوں‘ بے نوا ہوں ‘بے آسرا پڑا ہوں۔ اس نے دیکھا کہ یہ شاعر کمال ڈھیٹ ہے ۔ ایک دن ہاتھ جوڑ دئےکہ’’میرے باپ کیا چاہیے؟ لے لو مگر میری جان بخش دو‘‘۔ بتاو ٔیہ الاٹ کردوں؟‘‘۔ وہ پرانےشاہ عالم مارکیٹ کے نصف جلے ہوےؑ کھنڈر علاقے میں پھر رہا تھا۔ اس کا اشارہ ایک چار منزلہ عمارت کی طرف دیکھا تو ابا نے اقرار میں سر ہلادیا اور اس نے الاٹمنٹ آرڈر سائن کرکے ہاتھ میں تھمایا اور بھاگ گیا۔اب جناب بابوجی کی خوشی کا تو ٹھکانا نہیں رہا۔۔۔۔خدا کی دین کا موسےٰ سے پوچھےؑ احوال۔۔ کہ آگ لینے کو جائیں اورپیمبری مل جائے۔کوئی چھوٹا موٹا سر چھپانے کا آسرا چاہا تھا۔ محلوں کا خواب دیکھنے والی آنکھیں کہاں سے لاتے۔ دس روپے مہینہ کرایہ بچانے سے زیادہ فکر تھی کہ میں نہ رہوں تو بچے بے گھر تو نہ ہوں۔اچانک مل گیا خوابوں کا محل۔ افتاں و خیزاں گھر پہنچے اور چلا کے کہا ’’خانم۔۔ مبارک ہو۔۔ گھر مل گیا۔۔چارمنزلہ۔۔ لو مٹھائی کھاؤ‘‘۔
اب خانم ہونق کھڑی منہ تک رہی ہیں کہ کیا بول رہے ہیں’’چار منزلہ؟۔ کیا کریں گےہم چار آدمی چار منزلوں کا؟ اس کےتو کرائے میں تمہاری تنخواہ بھی نا کافی ہوگی‘‘۔
ابا نے خوش خوش ہنستے ہنستے کہاکہ ’’ کرایہ ؟ ارے بھئی ہم سے کون کرایہ لےگااب اندر سے تو میں نے بھی نہیں دیکھا کیسا ہے کتنا بڑا ہے مگر ہم مالک ہیں۔پہلے کسی سکھ کا ہوگا‘ جلنے سے بچ گیا ۔ باہر سے پوری حویلی ہےنئی وضع کی۔ہر منزل پر چار کمرے تو ہوں گے۔ہم اوپر کی منزل پر رہیں گے ۔ ہوادار ہوتی ہے۔نیچے کا کرایہ آئے گا اضافی آمدنی۔ دیکھ لو ہجرت کی برکت۔ پاکستان نے وہ دے دیا جو باپ دادا نے اڑادیا تھا ۔ہم پھر حویلی کے مالک ہیں‘‘۔
وہ نہ جانے کب تک بولتے رہتے ۔ہم دس سال اور سات سال کے دو بھائی کیا سمجھتے ۔ چپکےبیٹھے لڈو کھاتے رہے ۔ نہ جانے کتنے عرصے بعد ہم نے والدین کو اتنا خوش دیکھا تھا۔بس اس کے بعد گویا شاعر نے پھر باندھا رخت سفر۔ مالک مکان کی مبارکباد لے کر اس سے گلے ملے کہ پھر ملیں گے اگر خدا لایا۔بستر لپیٹا۔بوری میں گنتی کے چند برتن بھرے ‘ٹین کا کپڑوں والا بکس اٹھایا اور تانگہ چلا پرانی انار کلی سے اندرون شاہ عالمی گیٹ۔ لٹھے کےشٹل کاک برقعے میں اماں پیچھے دھری۔ میں اور بھائی آگے ۔ ابا پیچھے موج میں سائیکل پر کرتب دکھاتے۔کبھی آگے نکلتے کبھی ساتھ چلتےہاتھ چھوڑ کے سائیکل چلاتے۔ ایک بار پیر ہینڈل پر بھی رکھے، انارکلی سے گزرے بھاٹی گیٹ سے تانگہ دائیں طرف مڑ گیا، آگے سے پھر بائیں۔خیال رہے اس وقت ان سڑکوں پر نہ کاریں موٹرسایکلیں تھیں نہ وہ ہجوم کہ لگے جلوس گذر رہا ہے۔شام ہوتے ’ذاتی حویلی‘ کے سامنے جا اترے۔آس پاس ویرانی تھی۔گھرخالی یا جلے پڑے تھے۔ چابی کہاں تھی ابا نے چور نظروں سے ہر طرف دیکھتےہوئےشاید زندگی میں پہلی بار قفل شکن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔بر وزن بت شکن۔کسی نے نہیں دیکھا یا دیکھاتو حیران پریشان ہونا لا حاصل سمجھا۔اب اندر قدم رنجہ فرمایا تو عجیب سی بو اور گھپ اندھیرا۔ابا نے تسلی دی کہ نچلی منزلوں پر ہوتا ہے اور عمارت نہ جانے کب سے بند پڑی تھی
۔ راستہ ٹٹولتے اوپر دوسری منزل پر گئے۔اندھیرا اور بو وہاں بھی رہے۔تیسری روشن تھی اور ہوادار۔ ابا چلتے ہوئے چوتھی منزل پر جاپہنچے جس کا آدھا حصہ کشادہ صحن تھا۔ فی زمانہ ٹیرس۔ اس پر خوب روشنی اور ہوا تھی۔ کمرے دوہی تھے۔صحن میں گرد تھی اور کٹی پتنگیں تحیں۔ سامان اوپر چھوڑ کر اماں ابا پانی لینے نیچے گئے۔ ان کی بھی جوانی کے دن تھے۔میں اور بھائی پتنگوں سے کھیلتے رہے،اڑانا جو نہیں آتا تھا۔ لٹو پھرانا۔کنکوے بازی۔کنچے کھیلنا ۔گلی ڈنڈاشریفوں کے کھیل نہ تھے چنانچہ ممنوع تھے۔ بعد میں گلی ڈنڈا بہت کھیلا لیکن دیگر فنونِ لطیفہ سے محرومی کا احساس ہمیشہ رہا ۔ہمیں ایک ڈھولک ملی جس پر ہم نے انتظار کا وقت گذارنے کے لیے ہاتھ مارے ۔
میں گلی میں عین مقابل کے ایک گھر میں کچن کو دیکھتا رہا جس کا چولہا تو بجھا ہوا تھا لیکن اس پرتوا تھا۔ چمٹا پھونکنی وہیں پڑے تھے پرات میں آٹا دکھائی دیتا تھا‘ چکلہ بیلن رکھا تھا‘ روٹی کی چنگیر تھی۔ لگتا تھا کوئی عورت روٹی پکانا چھوڑ اٹھ کے اندر گئی ہے۔ مجھے یقین تھا وہ جلد آ جائےگی تو اسے سلام کروں گا لیکن وہ نہیں آئی۔آج میں سوچتا ہوں اس عورت پر کیا بیتی کہ اسے روٹی چھوڑ جان بچا کے ایک دم بھاگنا پڑا؟ وہ کہاں گئی؟ کس کے ساتھ گئی؟ یقیناً اس محلے میں وہ بھی سکھ ہوگی۔ کیا اسے اٹھالیا گیا؟ اس کے گھر کے مردوں پر کیا بیتی؟ اب وہ کہاں ہوگی؟ یہ سب ایک جیسے سوالات ہیں جن کا کسی مذہب یا ملک سے تعلق نہیں۔ یہ’ سیاہ حاشیے‘ہیں۔باؤنڈری لائن کے دونوں طرف ‘ریڈ کلف کے بنائےہوئے۔
ان باتوں کو اب سمجھنے ‘کہنے کا فائدہ۔۔اماں ابا جب پانی نیچے سے پانی کی بالٹی لائےتو ابا ہانپ رہے تھے اور اماں زار و قطار رو رہی تھیں۔” میں مر کے بھی اس آسیب میں نہیں رہونگی۔۔غضب خدا کا۔۔ہم دو تو بڑے ہمارے ساتھ یہ دو بچے۔۔۔اور اتنا بڑا ڈھنڈار۔۔ پتا نہییں اندر سے کیا نکل آےؑ۔۔۔کویؑ چھپا سکھ ۔۔ اس کی بد روح۔۔”
ابا نے حوصلہ دلایا ” کچھ نہیں نکلتا۔۔خدا پر بھروسہ رکھو۔۔جگہ ویران پڑی تھی۔۔ہم صاف کرلیں گے ۔۔آباد ہوگی تو۔۔۔”
مجھے رہنا ہی نہیں یہاں۔۔تمہارا کیا ہے ۔۔صبح دفتر چلے جاوگے۔۔پیچھے سے کویؑ آ کے کاٹ گیا ہمیں تو۔۔۔”””
خانم میری بات تو سنو۔۔۔۔””
لیکن ان کو نہ سننا تھی نہ سنی۔بالاخر ابا ہی کو ہتھیار ڈالناپڑے۔بہ مشکل تمام دو گھنٹے کسی سکھ کی حویلی کی ملکیت کے غرور کا مزا لینے کے بعد اس خاندان نے واپسی کا رخت سفر باندھا اور پھر بے گھر مہاجر کا ارفع واعلیٰ مقام حاصل کر لیا۔بے گھری کا یہ سلسلہ 1971 میں اس وقت ختم ہوا جب ابا ریٹایؑر ہوےؑ اور ان کو سرکار نے 375 روپے ماہانہ کے علاوہ 25000 ہکمشت ادا کیےؑ۔ اس میں سے 24000 میں 120 گز کا وہ گھر بنا جو اپنا تھا لیکن ان کو اس میں ایک دن بھی رہنا نصیب نہ ہوا۔