کراچی سے تعلق رکھنے والا نوجوان احمد (فرضی نام ) مجھے بہت عزیز تھا ۔ اس کی حیثیت میرے لئے چھوٹے بھائی جیسی تھی کہنے کو تو وہ شائد ایک مخبر یا کھوجی تھا لیکن میں سمجھتا ہوں وہ درحقیقت ایک مجاھد تھا جس نے اپنی غلطیوں کی تلافی کرتے ہوئے بے گناہ ہم وطنوں کی جان بچانے کی خاطر اپنی جان قربان کردی۔
افغانستان میں افغان فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد دوسال وہاں کی جیلوں میں رہا اور پھر جب افغان حکومت نے قیدیوں کو پاکستان کے حوالے کیا تو سب سے پہلے ان تمام قیدیوں کو پشاور کی جیلوں میں رکھا گیا جہاں ان سے پاکستان بھر کی خفیہ ایجنسیاں اور پولیس کے ادارے تفتیش کرتے رہے۔ چونکہ احمد اور چند دوسرے نوجوانوں کا تعلق سندھ سے تھا اس لئے ان سے پوچھ گوچھ کے لئے میں اور میری ٹیم پشاور گئے تھے۔
میرا واسطہ احمد سے اسی وقت ہی پڑا تھا۔ وہ ایک جہادی تنظیم کے توسط سے افغانستان جہاد کی غرض سے جاتا رہتا تھا۔ اس نے شمالی اتحاد کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے علاوہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں عرب ، ازبک اور تاجک جنگجوؤں کے ساتھ بھی وقت گزارا تھا جس کی وجہ سے ہرجہادی تنظیم میں اس کے وسیع تعلقات تھے ، ساتھ ساتھ لشکرِ جھنگوی کے تمام دھڑوں کے ساتھ بھی واسطے داری رکھتا تھا۔
میں نے اس سے تین چار گھنٹے کی تفتیش اور گپ شپ کے دران ہی اندازہ لگالیا کہ یہ شخص میرے کام کا ہے لیکن میں نے اس سے ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے اسے ایسا محسوس ہو کہ میں اسے اپنا مخبر بنانا چاہتا ہوں ۔ لیکن میرا رویہ اس کے ساتھ دوستانہ اور مشفقانہ تھا جس کی وجہ سے وہ مجھ سے بہت متاثر تھا۔
احمد پہلی نظر میں دیکھنے سے ہی بہت بیمار اور کمزور دکھائی دیتا تھا۔اس کی حالت واقعی ہی قابلِ رحم تھی۔ اس نے بتایا کہ افغانستان کی شبرغان جیل میں قید کے دوران تمام پاکستانی قیدیوں کو ازبک کمانڈر کے حکم پر سخت تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا، انتہائی سرد درجہ حرارت میں رکھنے کے علاوہ انہیں نہ تو مناسب غذا، نہ ہی بستر اور اوڑھنے کو کمبل میسر تھے۔
تمام قیدیوں کو قدرتی روشنی سے محروم رکھا جاتا تھا اور انہیں مذہبی فرائض انجام دینے کی اجازت نہیں تھی حالانکہ جیل کا تمام تر انتظام افغان حکومت کے ذمہ تھا اور تمام اہلکار بھی افغانی تھے۔ نہ ہی وہ جسمانی ورزش کر سکتے تھے۔ ان قیدیوں کو ریڈ کراس کی انٹر نیشنل کمیٹی سے ملنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ احمد کے مطابق اسے اور چند دوسرے قیدیوں کو کچھ عرصہ تک ایک دوسری خفیہ جیل میں بھی مقید رکھا گیا تھا۔
لیکن ان سب تکلیفوں کے باوجود احمد کو اتنا غصہ افغان حکومت پر نہیں تھا جتنا اپنے افغان ساتھیوں اور میزبان طالبان کمانڈرز پر تھا۔ ” جس دن ہم پکڑے گئے اس سے ایک رات پہلے تک طالبان نے ہمیں ہوا تک نہ لگنے دی کہ پسپائی اختیار کی جائیگی یا ہتھیار ڈالنے کا ارادہ ہے۔انہوں نے ہمیں رات کو سونے کے لیے کہا اور خود پہرے داری کی غرض سے اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں اور جب صبح ہماری آنکھ کھلی تو ہم نے اپنے افغان کمانڈرز کو مقامی ساتھیوں سمیت غائب پایا۔
پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا لیکن پھر معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوگیا۔وہ ہمیں مرنے کے لیے لاوارث چھوڑ کر خاموشی سے فرار ہوچکے تھے ۔ اور پھر دوپہر تک شمالی اتحاد کی فوجیں ہمارے سر پر پہنچ چکی تھیں۔ہمارے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔جن کی مدد کے لیے گئے تھے وہی ہمیں موت کے منہ میں بے یار و مددگار چھوڑ کرفرار ہوچکے تھے۔
احمد وہ سب بیان کرتے ہوئے ہچکیاں لے کر رونے لگا۔سر! ہمیں جہادکے نام پر خوب بے دردی استعمال کیا گیا ہے۔میں نے اپنے بہت ہی قریبی دوستوں کو جیل میں تشدد اور بیماری سے اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا ہے۔میں بہت ہی اچھی طرح واقف ہوں اس مکروہ کھیل سے جناب۔۔۔اس کی آنکھوں میں پچھتاوا، بے زاری، تاسف اور نفرت صاف دیکھی جاسکتی تھی۔
ڈرون حملوں کی منصوبہ بندی کا پہلا مرحلہ ہدف کا صحیح اور بروقت تعین کرنا ہوتا ہے
یعنی کب، کس جگہ اور کتنے میزائلوں سے حملہ کرنا ہے
جس کے لیے جاسوسوں کا منظم نیٹ ورک ہونا بہت ضروری ہے
جو ہدف کے بارے میں ریئل ٹائم انٹیلی جنس فراہم کرسکے
اوراحمد ریئل ٹائم انٹیلی جنس فراہم کرنے کا زبردست ماہرثابت ہوا تھا
دوران ِ تفتیش میں نے اندازہ لگالیا کہ وہ صرف افغانستان میں کاروائیاں کرتا رہا تھا اور پاکستان میں اس وقت تک اپنے لوگوں کے خلاف کسی لڑائی کا حصہ بننے کے خلاف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کی حدود میں اس نے کسی قسم کی دہشت گردی کی کاروائی نہیں کی تھی۔ افغانستان میں شمالی اتحاد سے لڑائی کے علاوہ غیرملکی فورسز پر حملوں میں شامل رہا تھا۔
میں نے اپنے طور پر اسے رہا کروانے میں بھی اس کی مدد کی جسکی وجہ سے بھی وہ میرا شکرگزار دکھائی دیتا تھا۔
جب وہ رہا ہوکر کراچی آگیا تو میں نے اس سے بظاہر کوئی رابطہ نہیں کیا لیکن میں مسلسل اسے اپنی نظروں میں رکھے ہوئے تھا اور وہ مکمل طور پر مانیٹر ہورہاتھا۔ واپسی کے بعد سے اس نے اپنے آپ کو بہت محدود کرلیا تھا۔ ایک تووہ بیمار تھا اور مکمل طور پہ صحت یاب نہیں ہوپایا تھا‘ دوسرا افغانستان کی جیلوں میں سختیاں سہہ سہہ کر بھی ذہنی طور پر بہت پریشان تھا۔
رہائی کے تقریبآ سات آٹھ ماہ کے بعد زیادہ تفصیل میں جائے بغیر بتاتا ہوں کہ کسی طرح سے وہ مکمل طور پہ میرے رابطے میں آگیا اور اس نے میری مدد کرنا شروع کردی اور وہ یہ سب کچھ پیسے کی لالچ میں نہیں بلکہ اپنی غلطیوں کی تلافی کی خاطر کرنا چاہتا تھا لیکن میں پھر بھی اسے انعام کے طور پر اچھی خاصی رقم زبردستی دیتا رہتا تھا۔ پہلے پہل تو ملک بھر میں دہشت گردی میں ملوث گروہوں کے بارے میں معلومات دیتا رہا‘ پھر دو تین بہت اچھے کام بھی کروائے اور دہشت گردی کے نہایت ہی خوفناک منصوبے ناکام بنواتے ہوئے خطرناک دہشت گردوں کو گرفتار کروایا۔
میں نے محسوس کیا کہ وہ دہشت گردوں کو پکڑوانے کے لیے بہت بڑا رسک تک لے لیتا تھا ‘ جبکہ میں اسے منع بھی کرتا تھاکہ کام میں ایک حد سے آگے نہیں جانا ہوتا لیکن اس کی کوئی حد نہیں تھی‘ وہ بڑے سے بڑا خطرہ مول لیتا تھا۔ اس کے پاس دہشت گردوں کے متعدد نیٹ ورکس سے بارے میں بڑی زبردست معلومات تھیں۔ اس نے تمام جہادی تنظیموں کے کارکنوں کے ساتھ کام کیا تھا اور افغانستان میں کئی سال لگاچکاتھا اس لئے ہر نیٹ ورک میں اس کی رسائی تھی۔ میرے افسران کے علم میں بھی تھا کہ احمد ہمارے لئے بہت اچھا کام کررہا ہے اس لیے وہ بھی اس کی ہر قسم کی ضروریات پوری کرنے میں کبھی کنجوسی سے کام نہیں کرتے تھے۔
اسی دوران احمد ایک وفاقی ایجنسی کے رابطے میں بھی آگیا اور ان کے لئے بھی کام کرنا شروع کردیا۔ اسے جنون کی حد تک ایجنسیز کے لیے کام کرنے کا شوق ہوتا جارہا تھا۔ اس نے مجھے یہ بات بتادی اور ساتھ ہی یقین بھی دلادیا کہ کراچی کے سارے کام آپ کو کرواؤں گا‘ آپ کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاؤں گا ، وفاقی ادارے کو فاٹا اور افغان سرحد کے آس پاس جو لوگ کراچی سے جاکر کام کررہے ہیں ان میں دلچسپی ہے۔مجھے اس نے تسلی کروانے کی کوشش تو کی لیکن میں مطمئن نہیں تھا لیکن میں نے اسے کچھ بھی نہیں کہا کیونکہ میں زبردستی کام لینے کا قائل نہیں۔
کچھ روز بعد وہ ایک دن میرے پاس آیا اور اس نے بتایا کہ وہ وزیرستان جارہا ہے۔ وفاقی ایجنسی نے اسے ایک ٹاسک دیا ہے جسے پورا کرنے کے لیے اسے جانا ہے۔ مجھے اس کی یہ بات بالکل بھی پسند نہیں آئی کیونکہ وزیرستان جانے کا مطلب ننانوے فیصد زندہ بچ کر واپس نہ آنے کے چانسسز تھے۔ ویسے بھی احمد نے کچھ دہشت گرد ایسے بھی پکڑوائے تھے جن کے تانے بانے میران شاہ اوروزیرستان سے ملتے تھے اور انہیں پکڑوانے کے چکر میں وہ شائد ایکسپوز بھی ہوچکا تھا لیکن اسے اپنے اوپر اتنا یقین تھا کہ وہ اس بات کو سنی ان سنی کرکے ہنسی میں اڑا کر رکھ دیتا تھا۔ کہتا تھا کہ ’’سر مجھے پتہ ہے کہ کہاں پر کیا احتیاط کرنی ہے بے فکر رہیں کچھ بھی نہیں ہوگا۔۔۔ہلکا مت لیں اپنے بھائی کو سر‘‘۔
مجھے اس کی تیزی اور بے چین طبیعت سے بعض اوقات ڈر رہتا تھا کہ کہیں بھی غلطی کردے گا۔اور اس کام میں تو ویسے بھی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
تم وزیرستان مت جاؤ ۔منع کردو ان کو کہ تمہاری جان کو خطرہ ہے وہاں پر۔۔۔میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
جواب ملا کہ ’’سر! انہوں نے مجھے جانے کے لیے نہیں کہا بلکہ میں نے ایک پلان بنایا ہے اگر وہ پلان کامیاب ہوگیا تو ملک بھر میں ہونے والے بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں کمی ہوجائے گی بلکہ سمجھو کہ ختم ہوجائیں گے‘‘۔وہ بہت جوشیلا اور جذباتی نظر آرہا تھا اور ملک میں بے گناہوں کی خون ریزی روکنے کیلئے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ میرے بہت زیادہ روکنے اور سمجھانے کے باوجود وہ چلاگیا۔
اس نے جاتے ہوئے راستے سے ایک کال مجھے اس وقت کی جب بنوں میں ایک رات قیام کے لئے کہیں رکا۔ مختصراً اپنا حال احوال بتایا اور جب موقعہ ملا دوبارہ کال کرنے کےلیے کہا۔ لیکن میں نے اسے ان علاقوں سے کال کرنے سے منع کیاکیونکہ اس وقت وہ تمام علاقے مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں تھے ۔ ہوٹل‘ سرائے‘ پبلک کال آفس الغرض سب کچھ ان کی نظر میں تھا۔ ان علاقوں کے کاروباری اور رہائشی لوگ کہیں تو اپنی جان کے خوف سےتو کہیں طالبان کی محبت اور ہمدردی میں ان کے لئے مخبری کا کام سرانجام دے رہے تھے۔ مجھے احمد کی سلامتی کے بارے میں سخت تشویش لاحق ہوچکی تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب طالبان اپنے پورے جوبن پر تھے ۔ ڈرون حملوں میں اضافے کے جواب میں طالبان نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کردی تھی۔ انہوں نے مشتبہ لوگوں اور سرکاری جاسوسوں کے لیے سزائیں مزید سخت کردی تھیں تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دہشت زدہ کرکے مخبری کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرسکیں ۔ ماضی میں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جاسوسی کے ملزموں کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پاؤں باندھ کر سر میں گولیاں ماری گئی ہیں، بچوں اور جوانوں کے ہاتھوں ذبح کیا گیا ہے یا ان کی گردن اور ہاتھ پاؤں کاٹ کر لاشیں سڑکوں، چوراہوں یا گندے نالوں میں پھینکی گئیں۔ بعض واقعات میں مارے گئے ’ جاسوسوں‘ کو گاڑیوں کے پیچھے رسی سے باندھ کر بازاروں میں گھمایا گیا ہے اور کھمبوں اور درختوں سے بھی لٹکایا گیا ہے۔
تقریباًدو مہینے کے وقفے کے بعد اس نے مجھ سے آخری مرتبہ بات کی ۔’’سر !بڑا زبردست سیٹ اپ بنالیا ہے اور بڑے اہم لوگ رابطے میں ہیں۔ایک بہت بڑے کام کی تیاری ہے‘ بس آپ دعا کریں‘‘ ۔
تم مجھ سے فون پر یہ باتیں مت کرو‘ تمہاری جان خطرے میں پڑسکتی ہے ۔احتیاط کرو احمد۔میں نے اسے اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔
ارے سر چھوڑیں! مجھے پتہ ہے آپ فکر نہ کریں۔
یہ میرا احمد سے آخری رابطہ تھا جو کہ اس نے میران شاہ بازار کے کسی پبلک کال آفس سے کیا تھا۔ چند دن بعد ایک میزائل حملے کے نتیجے میں طالبان کااہم کمانڈر مارا گیا جو کہ ملک بھر میں خودکش حملوں کا ماسٹر مائنڈ کہلاتا تھا۔بلاشبہ یہ بہت بڑی کامیابی تھی جس کے پیچھے احمد کی محنت شامل تھی۔
اس کے بعد احمد نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا ۔ جب میں نے وفاقی ایجنسی کے ایک سینئر افسر سے احمد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ بھی پریشان تھے۔ ان سے چونکہ دوستی بھی تھی اور ہم نے بہت سے جوائنٹ آپریشنز بھی کئے تھے اس لئے انہوں مجھ سے کچھ نہیں چھپایا اور بتایا کہ احمد نے واقعی ہی اس طالبان کمانڈر کی ہلاکت میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔
ڈرون حملوں کی منصوبہ بندی کا پہلا مرحلہ ہدف کا صحیح اور بروقت تعین کرنا ہوتا ہے۔ یعنی کب، کس جگہ اور کتنے میزائلوں سے حملہ کرنا ہے جس کے لیے جاسوسوں کا منظم نیٹ ورک ہونا بہت ضروری ہے جو ہدف کے بارے میں ریئل ٹائم انٹیلی جنس فراہم کرسکے اور احمد ریئل ٹائم انٹیلی جنس فراہم کرنے کا زبردست ماہر ثابت ہوا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’’احمد بدقسمتی سے پکڑا کیا گیا ہے اور اب وہ طالبان کی قید میں ہے‘‘۔۔ مجھے احمد کے پکڑے جانے کی خبر نےہلا کر رکھ دیا تھا۔ مجھے پتہ تھا اب وہ واپس نہیں آئے گا۔
احمد نے میران شاہ پہنچ کر وہاں پر پہلے سے موجود اپنے پرانے ساتھیوں کی بدولت بہت جلد طالبان سیٹ اپ میں اپنی جگہ بنالی تھی کیونکہ اس کے روابط پہلے ہی سے عرب اور طالبان کمانڈروں کے ساتھ افغانستان میں جہادی کاروائیوں کے دوران سے چلے آرہے تھے اس لئے سب اس پر بھروسہ کرتے تھے ۔ احمد کی اطلاع پر اہم طالبان کمانڈر کی ہلاکت کے بعد طالبان نے اپنی صفوں میں ایجنسیوں کے جاسوس ڈھونڈنا شروع کردیے۔
احمد بہت ہی ہوشیار اور تیز طرار تھا لیکن وہ ایک ایسی بھیانک غلطی کرگیا جس کے بعد اس کا پکڑے جانا لازم تھا۔ اسے ہدایت کی گئی تھی کہ اس نے فون نہیں کرنا ، بالخصوص میران شاہ بازار سے تو بالکل بھی نہیں کرنا کیونکہ وہاں پر طالبان کے سخت کنٹرول ہونے کی وجہ سے پبلک کال آفس والے کی گئی کالوں کی پوری لسٹ بناکر طالبان کو فراہم کرنے کے پابند تھے ۔احمد نے بھی میران شاہ بازار سے ایجنسی کے ایک سینئر افسر سے فون پر بات کی تھی۔ جس کے بعد وہ پکڑا گیا اوراب اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔
ہمیں یقین ہوچکا تھا کہ طالبان نے احمد کو مار ڈالا ہوگا۔ایک مہینہ اسی حالت میں گزرا کہ مجھے ایک سی ڈی ڈاک کے ذریعے موصول ہوئی۔ اس میں طالبان کی حراست میں احمد سے کی گئی تفتیش کی وڈیو تھی جس میں وہ مجھ سمیت وفاقی ایجنسی کے لیے جاسوسی کا اعتراف کررہا تھا۔ اس وڈیو کے آخر میں احمد کو ذبح کرنے کے بعد لاش ایک درخت سے لٹکی ہوئی دکھائی گئی تھی۔
احمد صرف میرا مخبر نہیں بلکہ وہ مجھے کسی بھائی کی طرح ہی عزیز تھا اور اس کےمشن کے دوران میں ہمیشہ اس کے لیے فکر مند رہتا تھا۔یہ سب میرے لئے بہت اذیت ناک تھا اور مجھے اس کی شہادت کا شدید افسوس تھا لیکن اس نے اپنی جان کی قربانی دے کر جس طرح سینکڑوں پاکستانیوں کے قاتل اور تحریکِ طالبان پاکستان کے انتہائی ہائی پروفائل کمانڈر کی ہلاکت میں اہم کردار ادا کیا تھا ‘ وہ واقعی ناقابل ِ فراموش ہے ۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں