اُستاد الاساتذہ ، صاحبِ طرز نثر نگار،طرحدار شاعر، ماہرِ تعلیم ، معتبر نقاد، دانشوراور انسان دوست پروفیسر ڈاکٹر قمر الزماں خان یوسف زئی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ‘ بلاشبہ پاکستان اور بیرونِ ممالک ان کے ہونہار اور باکمال شاگرد ہر طرف موجود ہیں ۔1938ءمیں کوٹہ اسٹیٹ راجپوتانہ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی پھر ہجرت کے بعد حیدرآباد سندھ میں پڑاؤ رہا‘ یہاں سے میٹرک اور ایم اے انگریزی اور ایم اے نفسیات میں امتیازی طورپر کامیاب قرار پائے۔کولمبیا یونیورسٹی امریکہ سے Ph.D کیا ۔
ڈاکٹر قمر الزمان سولہ کتابوں کے مصنف ہیں جبکہ ان کی دو کتابیں زیرِ تصنیف ہیں ۔ان کی شاہکار تخلیقات میں مجموعہ کلام نالہ گُل ،اوراق لختِ دل ،حرفِ ہُنر ، سعید البیان انگریزی ،متفرقات ،مجموعہ خیال،آپ بپتا ،انار کلی (انگریزی ترجمہ)خیالات ،غالب ایک ادبی و نفسیاتی جائزہ اور دیگر کتابیں ہیں اس کے علاوہ فیض احمد فیض ،غالب ،علامہ اقبال، اُردو زبان ،پاکستان میں تعلیم اور دیگر اہم موضوعات پر درجنوں مقالات اور مضامین تحریر کر چکے ہیں ۔
پروفیسر ڈاکٹر قمر الزماں خان یوسف زئی کہنہ مشق شاعر ، زیرک اُستاد ، اعلیٰ پایہ کے نثر نگار ، طنز و مزاح میں بھی یکتا اور مشرقی بوطیقا(ادب) پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں ۔وہ مغربی رجُحانات اور مختلف مغربی زاویہ نظر کے ساتھ تنقید کے میدان میں آئے اور بہترین مضامین تحریر کئے۔ایک طرف ڈاکٹر صاحب کو ابتدا ہی سے مطالعہ اور مشاہدہ کا شوق تھا پھر اس دور کی جامعہ سندھ جس میں بہترین اعلیٰ دماغ اساتذہ کا ایک چرچا تھا‘ ایسے میں ڈاکٹر صاحب کو ہر طرف سے علمی ، ادبی اور مذہبی طور پر بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا ۔
مذہبی طور پر ڈاکٹر غلام مصطفی خان اور ڈاکٹر صاحب کا ساتھ بہت دور تک رہا۔ڈاکٹر قمر الزماں خان یوسف زئی نے جامعہ سندھ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے لئے پیشہ کا انتخاب کیا اور تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور حیدرآباد کے نمایاں سرکاری کالجز میں انگریزی اور نفسیات پڑھانے کا سلسلہ 1967ءتک جاری رہا جس میں سی ایس ایس کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے اپنے اُستاد کی فضیلت ، شفقت اور رہنمائی سے پورا فائدہ اُٹھایا اور اعلی ٰسرکاری عہدوں پر فائز ہوئے جن کی طویل فہرست ہے۔
سنہ 1967ءسے 1975ءتک انہوں نے کیڈٹ کالج پٹارو میں انگریزی کے اُستاد اور صدر شعبہ کی حیثیت سے تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔اس دوران دو سال کے لئے الجزائر میں انگریزی کے اُستاد کے فرائض سر انجام دئیے ۔بعد ازاں 1976ءتا 1982ءتک نائجیریا میں پرنسپل کے طور پر فرائض سر انجام دئیے۔ 1983 ءتا 1990ءتک آرمی پبلک اسکول حیدرآباد میں شعبہ انگریزی اور درسگاہ کے سربراہ کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں پھر 1994ءتا 1995 ءمیں ابو ظہبی کے اسلامیہ انگلش اسکول اور کالج کے سربراہ رہے اور نئی تعلیمی اصلاحات نافذکیں جس کو عرب امارات کی حکومت نے سراہا ۔
پروفیسر ڈاکٹر قمر الزماں خان یوسف زئی نے 1998ءسے سال 2000 ءتک کراچی کے اہم تعلیمی اداروں سمیت عائشہ باوانی اکیڈمی کے سربراہ کے طور پر بھی نمایاں خدمات سرانجام دیں اور ادارے کے ایک درجن اسکولوں اور کالجز کی چین تیار کردی۔2008 ءسے وفاقی اُردو یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے انگریزی کی تدریس میں مشغول رہے ۔ ان دنوں پروفیسر ڈاکٹر قمر الزماں خان یوسف زئی شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی میں انگریزی ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے اُستاد ہیں۔
ڈاکٹر قمر الزماں خان یوسف زئی جیسا کہ بالائی سطور میں بیان کیا گیا کہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں مگر ان کی بنیادی پہچان اُستاد اور تعلیم کا شعبہ ہے ۔اس کی بڑی اہم وجہ یہ ہے کہ پیشہ ور اُستاد ہونے کے ساتھ وضع دار ، شفیق ، ذمہ دار ،اخلاقی ، تہذیبی ، مذہبی اقدار سے آراستہ بلکہ سر تاپا ایک نمونہ کہ اُستاد کیسا ہونا چاہئیے وہ ہیں۔پڑھانے میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی اور کسی کی کوتاہی کو کبھی معاف بھی نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ آج کے دور کی بڑی بڑی شخصیات ڈاکٹر قمر الزماں خان یوسف زئی سے انتہائی ادب اور احترام سے ملتی ہیں اور اپنے کان اور گال سہلاتی ہیں مگر اس میں محبت ،خلوص اور احترام نمایاں ہوتا ہے ۔
اس طرح کے اساتذہ کا اب صرف ذکر ہی رہ گیا ہے نہ ویسی تعلیم دینے والا نظر آتا ہے اور نہ اب اس طرح کے فرمانبردار شاگرد ملتے ہیں ،بس ایک قحط الرجال ہے۔ڈاکٹر قمر الزماں یوسف زئی نے جب ہجرت کی اور سندھ یونیورسٹی سے میٹرک کی تیاری شروع کی تب انہیں اُردو کا ایک لفظ بھی لکھنا یا پڑھنا نہیں آتا تھا اس کے بدلے وہ انگریزی اور ہندی میں طاق تھے۔مگر دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے اپنی اُردو دانی کا بھی سکہ جما لیا اور اخبارات اور رسائل کے لئے لکھنا شروع کیا ۔لیاقت علی خان کی شہادت پر انہوں نے فرطِ جذبات میں ایک نظم کہہ دی اور پھر اس کو لکھ کر اخبار میں شائع بھی کرالی جس سے ان کی شعر گوئی کی ابتداءہوئی ۔زمانۂ طالب علمی میں وہ جتنے شریر اور فعال تھے بعد از تعلیم اور ملازمت میں بھی ان کی پھرتی اور بذلہ سنجی کم نہ ہوئی ۔
ڈاکٹرقمر الزماںخان یوسف زئی نے اپنا بچپن بہت نازو نعم میں گزاراتھا ‘ جوانی بھی بہت شاندار گزاری ،ایسے وقت میں جب کسی کو نئی سائیکل نصیب ہوجائے تو وہ اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کرتا تھا مگر انہیں تو موٹر سائیکل اور کار در کار نصیب ہوتی رہیں ۔روپیہ پیسہ کی کبھی کمی محسوس نہیں کی اس لئے دوست احباب کے جھرمٹ میں سیر و تفریح ، احباب نوازی اور ادب دوستی میں خوب خوب حصہ لیتے رہے۔خود بھی عمدہ شعر کہتے رہے اور دوسروں کے عمدہ اشعار پر شاعر کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ کبھی داد دیتے اور کبھی احباب کے ساتھ مل کر شاعروں کی داد رسی بھی کرلیتے مگر زیادہ دھیان درس و تدریس اور مطالعہ پر صرف کرتے رہے ۔
سنہ 1976ءتا 1990 ءکے عرصے میں ڈاکٹر صاحب کئی ملکی، غیر ملکی سیمیناروں، تعلیمی کانفرنسوں اور ورکشاپ میں شرکت کرتے رہے پھر ایک بار ایسا اہم موڑ آیا کہ ڈاکٹر قمر الزماں خان یوسف زئی نے 1992ءتا 1993ءمیں اپنی دونوں ماسٹر ڈگریوں کا استعمال کرتے ہوئے ”A Literacy Cum Psychological Study Of Shelly “ کے عنوان سے کولمبیا پیسیفک یونیورسٹی کیلی فورنیا سے پی ایچ ڈی کر کے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا ہی اضافہ نہیں کیا بلکہ ایک انتہائی بامقصد مقالہ بھی انگریزی ادب میں شامل کیا جس کی ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب غالب اورفیض کی شاعری پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں اور اس ضمن میں بہت سے تحقیقی مقالات تحریر کرچکے ہیںاور اس موضوع پر اُن کے یادگاری لیکچر بہت مقبول ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب کی سب سے بڑی خوبی دوست بنانا ، دوستی نبھانا اور دوستوں کو یاد رکھنا ہے۔اس حوالے سے ایک بہت بڑا حلقہ احباب علم و قلم ان کا گرویدہ ہے جس میں ڈاکٹر احمد ویرات، احمد ندیم قاسمی ، ڈاکٹر غلام مصطفی خان ، حکیم محمد سعید شہید ، مولانا صلاح الدین ، مولانا غلام مرتضی اور علم علی شاہ عرف جیلانی بابا سمیت فیض احمد فیض ، مشتاق یوسفی ، محترمہ بینظیر بھٹو شہید سے طویل رابطے اور فکری ہم آہنگی رہی ہے۔
اس فہرست میں جامعات کے وائس چانسلر ، ممتاز اساتذہ، ہونہار شاگرد ، تعلیم ، انتظامیہ ، عدلیہ اور افواجِ پاکستان کے اعلیٰ عہدیداران بھی شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا ایک بڑا حلقہ ڈاکٹر صاحب کی دوست نوازی کا اسیر ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے تدریس اور ادبی و علمی کا و شوں کے ساتھ ساتھ سرکاری طور پر تعلیمی پالیسی وضع کرنے ،تجاویز مرتب کرنے اور اس پر لائحہ عمل مرتب کرنے کے لئے سفارشات بھی مرتب کیں ۔محترمہ بینظیر بھٹو شہید جب وہ حزبِ اختلاف میں تھیں کے مشیرِ تعلیم کے طور پر اعزازی خدمات سر انجام دیتے رہے اور ایک مربوط اور جامع تعلیمی پالیسی پر مبنی رپورٹ مرتب کی جو قومی اور عصری تقاضوں کے مطابق ملک میں تعلیم و تحقیق میں معاون تھی۔ مگر افسوس کہ گزشتہ ستر برسوں میں تعلیم اور تعلیمی کمیشنوں کی رپورٹوں کا جو حال ہوا ‘ وہی ڈاکٹر صاحب کی رپورٹ کا ہواجبکہ شہید بے نظیر بھٹو نے ان کی تعلیمی رپورٹ کو بہت پسند کیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب جیسا کہ سب جانتے ہیں ایک راسخ العقیدہ مسلمان ،روشن خیال ماہرِ تعلیم ،طرحدار شاعر ، صاحب طرز نثر نگار اور ذمہ دار اُستاد تو ہیں ہی مگر وہ بہت بڑے اور سچے عاشقِ رسولﷺ ہیں ۔ان تمام خوبیوں اور کمالات کے باوجود بڑی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے روشن چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ،لہجہ میں نرمی ، لفظوں میں گرمی اور آنکھوں میں مخاطب کے لئے شفقت اور اپنائیت کے سائے گہرے ہوتے ہیں۔
ہر چند کہ پروفیسر ڈاکٹر قمر الزماں خان یوسف زئی بہت معروف اُستاد ہیں ،بڑے عہدوں پر فائز رہے ، تعلیمی طور پر بلند سطح تک کامیابی حاصل کی مگر ان کی تمام تر شخصیت پر نرم مزاجی اور اپنائیت چھائی ملتی ہے جو ان کی شخصیت کی بلند قامتی ہے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں
عمران نور کا تعلق حیدرآباد سے ہے‘ انہوں نے سیاسیات میں ایم اے کیا ہے‘ گزشتہ کئی برس سے سیاسی و سماجی نوعیت کے معاملات پر ان کی تحریریں مختلف اخبارات میں شائع ہورہی ہیں۔