The news is by your side.

چائلڈ لیبر میں مصروف بچےتعلیم کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں

چائلڈ لیبر پاکستان کی ایک کڑوا سچ ہے۔ بد قسمتی سے یہ ملک کے تمام حصوں میں پروان چڑھ رہاہے۔ یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ وہ بچے جنہیں سکول جانا چاہیے اس عمر میں ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے مزدوری پر مجبور ہیں۔

آج میں آپ کو کہانی سناؤں گا 11سالہ رزاق کی جو گورنمنٹ یونیورسٹی کے باہر ٹافیاں چاکلیٹس بیچتا ہے۔ اس کے دو بھائی اور ایک بہن ہے۔اس کا بڑا بھائی گول گپے جبکہ چھوٹا بھی ٹافیاں چاکلیٹس بیچتا ہے ۔ بہن کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ رزاق کے جواری باپ نے کچھ سال پہلے اس کی ماں کو طلاق دے دی تھی‘ اس خاندان میں کبھی کوئی شخص اسکول نہیں گیا اور نہ ہی رزاق نے اسکول کی شکل دیکھی ہے۔

اس انٹرویو کا مقصد چائلڈ لیبر میں ملوث ہونے اور پڑھائی چھوڑنے کی بنیادی وجوہات کو جاننا تھا۔اس کا ایک بھی منٹ ضائع کیے بغیر میں اس کے سکول نہ جانے کے حالات اور مزدوری کرنے کی وجوہات پوچھنے کے لیے اس جگہ انٹرویو کرنے لگا ‘جہاں وہ ٹافیاں چاکلیٹس بیچتا ہے۔

رزاق نے کہا کہ اس کا خاندان بچپن سے ہی اس کو سکول بھیجنا چاہتا تھا لیکن وہ پابند ہو کر نہیں دہ سکتا تھا۔اس نے مزید کہا کہ اس کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا کیونکہ اسے کام کرنا پسند ہے۔اس نے 7 سال کی عمر میں تقریباً ساڑھے تین سال خوانچہ فروش کی حیثیت سے کام کیا جس سے وہ ماہانہ 6000 روپے کما لیتا تھا۔ اس کے کام کا دورانیہ 13 گھنٹے یا اس سے زیادہ ہوتا تھا۔ ایسے سخت حالات میں کام کرنا آسان نہ تھا ‘ چنانچہ اسے یہ کام چھوڑنا پڑا۔

محنت کش رزاق کی بلاگر کے ساتھ تصویر

ایک ہفتہ بھی ضائع کیے بغیر اس نے یونیورسٹی کے باہر ٹافیاں بیچنا شروع کردیں جس سے وہ روزانہ 400-300 کماتا اور ساری رقم اپنی ماں کو دے دیتا۔وہ اس کام سے مطمئن ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی سے کام کرتا اورکام کا دورانیہ بھی اپنی مرضی سے جتنا ہے۔اس نے یہاں بے شمار دوست بنائے جو کسی نہ کسی وجہ سے چائلڈ لیبر کا شکار تھے۔

اس کےنزدیک یہ کام بہت تسلی بخش ہے اور اس کام نے اس کی زندگی یکسر تبدیل کردی ہے۔ وہ بہت محنت کرتا ہے اور کبھی بھی ناغہ نہیں کرتا۔میں نے اس کے مقاصد کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ اسے موٹرسائیکل خریدنی ہے۔ اسے سفر کرنا پسند ہے لیکن اس خواب کو پورا کرنے کے لیے اسے سخت محنت کرنی ہوگی اس لیے وہ اتنا کام کرتا ہے۔

یونیورسٹی کے قریب زیادہ دیر فٹ پاتھ پر بیٹھنا مشکل تھا چناچہ آخری سوال سے میں اختتام کی طرف بڑھا۔ اتنے زیادہ طالب علموں کو روزانہ دیکھ کر کیسا لگتا ہے؟ کیا تمہارا پڑھنے کو دل نہیں کرتا؟۔

اس نے کہا کہ “ان کو دیکھ کر میں اور مطمئن ہوجاتا ہوں کہ یہ اپنے پیسے اور وقت ضائع کررہے ہیں”۔یہ جواب میرے لیے حیران کن تھا کہ اب چائلڈ لیبر کے ستائے بچوں کا یقین تعلیم پر نہیں رہا اور وہ اس بات سے نا آشنا ہیں کہ تعلیم ہی ان کے خاندان کے مستقبل کو روشن کرسکتی ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں