The news is by your side.

تھیلیسیما نے ایک اور چراغ گل کردیا

کچھ دن سے میرے دو دوست تھیلیسیمیا متاثرہ بچے کی مدد کے لیے سرگرم تھے۔ بچے کا تعلق فیصل آباد کے ایک نواحی علاقے سے ہے تاہم اس سلسلے میں میری بات میرے دوستوں سے بھی ہوئی۔ تین دن کے بعد میری دوست نے آخر وہ خبر دی جس کا مجھے خوف تھا۔ تھیلیسیمیا نے ایک اور زندگی لے لی تھی۔

یہ بات انتہائی دلخراش تھی کہ ایک اور ماں کی گود اجڑ گئی اور ایک قیمتی جان ضائع ہوگئی۔میں نے سوچا کہ اس مرض سے پاکستان کو بچانے کی ایک کاوش کی جائے۔ اسی سلسلے کے حوالے سے میں نے اپنے معالج، طبی ماہرین اور جو لوگ اس مرض کے خلاف برسرِپیکار ہیں ان سے معلومات حاصل کیں کہ کس طرح پاکستان کی عوام کو اس مرض کے خلاف آگاہ کیا جائے اور اس سے بچنے کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔

ماہرین کے مطابق تھیلیسیمیا پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی طرف نظرِثانی ضروری ہے۔تھیلیسیمیا خون کی ایک جنیاتی بیماری ہے جس کے ماں باپ سے بچوں میں منتقل ہونے کے پانچ سے آٹھ فیصد امکانات ہوتے ہیں۔ تھیلیسیمیا ماں باپ سے منتقل ہونے والی ایسی بیماری ہے جس میں ہیموگلوبین کی تعداد کچھ پروٹینز کے نہ ہونے سے نہایت کم ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے خون میں آکسیجن کو جذب کرنے کی قابلیت گھٹ جاتی ہے۔

تھیلیسیمیا کو دو حصوں تھیلیسیمیا الفا اور تھیلیسیمیا بیٹا میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر تھلیسیمیا بیٹا دیکھنے میں آتا ہے جو مزید تھیلیسمیا میجر اور تھیلیسیمیا مائنر میں تقسیم ہے۔ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے مطابق تھیلیسیمیا مائنر جیسا کہ نام سے ظاہر ہے والدین سے منتقل ہونے والی ایک بیماری ہے تاہم واضح علامات نہ ہونے کے باعث لوگ اس سے عمر بھر ناآشنا رہتے ہیں۔ پاکستان کی 6 فیصد آبادی کو یہ مرض لاحق ہے۔

دوسری طرف تھیلیسیمیا میجر ایک جان لیوا مرض ہے اور زندہ رہنے کے لیے مریضوں کو باقاعدگی سے خون بدلنا پڑتا ہے۔ ممکنہ صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ میڈیا کے ذریعے عوام میں آگاہی پھیلائی جائے کہ خاندانوں کی آپس میں شادیاں اس مرض کی سب سے بڑی وجہ ہےحالانکہ یہ واحد وجہ نہیں ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ معلومات ہائی سکولز اور دوسرے تعلیمی اداروں میں آگاہی کے لیے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔ عالمی صحتِ تنظیم (WHO)کے مطابق ایک دن تھیلیسیمیا کے لیے مختص ہونا چاہیے جس میں اس سے متاثرہ مریضوں کو یاد کیا جائے اور جو اس مرض سے برسرِپیکار ہیں انہیں زندگی کی ایک نئی امنگ دی جائے۔

تھیلیسیمیا کے مریضوں کی تعداد پاکستان میں حیرت انگیز حد تک زیادہ ہے ایک لاکھ سے زیادہ افراد اس بیماری کا شکار ہیں جبکہ پانچ ہزار بچے ہرسال اس بیماری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ تھلیسیمیا کا شکار بہت سے والدین وقت پرتشخیص نہ ہونے کے باعث جانبر نہیں ہوپاتے اور جن کی تشخیص ہوجاتی ہے۔ مناسب علاج نہ ہونے کے باعث ان کے زندگی کی آثار کم ہوجاتے ہیں۔معاشی اور معاشرتی بوجھ کو کم کرنے کے لیے ایسے بچوں کی پیدائش کے معاملے میں آگاہی ضروری ہے۔

تھیلیسیمیا کے امکانات: چہرے اور جسم میں پیلاہٹ ، کالا پیشاب، چہرے کی ہڈیوں کا بگڑ جانا، نیچلے دھڑ میں سوزش، کمزوری اور بڑھوتڑی میں کمی۔ تھیلیسیمیا میجرکی واضح علامات کی وجہ سے اس مرض کے شکار بچوں کی تشخیص اوائل عمری میں ہی ہوجاتی ہے۔

ان مسائل سے بچاؤ کے لیے تین فوری اقدام نہایت ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تھیلیسیمیا کے بارے میں معلومات اور اس کی وجوہات، دوسرا موجودہ مریضوں کا خون جمع کرنا اور تیسرا لوگوں کو تھیلیسیمیا کے سکریننگ ٹیسٹس کے بارے میں آگاہ کیا جائے تاکہ مزید اس مرض سے بچا جا سکے۔ تھیلیسیمیا کو معاشرے سے مکمل پاک کیا جاسکتا ہے اگر بڑے پیمانے پر اقدامات کیے جائیں۔

تھیلیسیمیا کے مریضوں کی تعداد کے پیشِ نظر ہر ایک زندگی ضروری ہے اور ہر انسان معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ہماری اکثریت آبادی پڑھنے لکھنے سے قاصر ہے تو یہ میری اور آپ کی زمہ داری ہے کہ لوگوں میں اس مرض کے حوالے سے شعور اجاگر کریں۔ کیونکہ آپ میں پڑھنے کی صلاحیت ہے جبکہ مجھ میں لکھنے کی قوت۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں